پروفیسر مظہر
ربِ پروردگار کے ہاں تو سب برابر ہیں ۔ کسی عربی کو عجمی پر ، کسی گورے کو
کالے پر کوئی فوقیت نہیں ۔ یہ تفریق تو انسانوں نے انسانوں کے لئے بنائی
اور انسانوں پر آزمائی۔ نام رکھ دیا جمہوریت ۔۔۔ جمہوریت ، جس کی سربراہی
جناب یوسف رضا گیلانی جیسے لوگ بھی کیا کرتے ہیں جو بڑی نخوت اور بڑے غرور
سے کہتے ہیں ”میں وزیرِ اعظم ہوں چپڑاسی نہیں“ ۔ دینِ مبیں میں مگر قوم کا
سردار ہی قوم کا خادم ہوتا ہے ۔ بلالِ حبشیؓ کوامیر المو منین عمر ؓسیّد نا
بلال کہہ کر پُکارتے تھے ۔ آقا ﷺ نے زیدؓ بن حارث کو اپنے حقیقی چچا حضرت
حمزہؓ کا اسلامی بھائی بنایا تو حضرت حمزہؓ نے انہیں اپنی جائیداد کا وارث
بھی قراردے دیا۔ دونوں غلام ، بلالؓ بھی زیدؓ بھی اور دونوں سردار کہ تیرے
ربّ کے ہاں کوئی چھوٹا نہیں ، کوئی بڑا نہیں مگر اعمالِ صالح، جن کی پُرسش
سے لرزہ بر اندام امیر المو منین عمرؓ رات کے اندھیرے میں کندھے پر اناج کی
بوری اٹھائے بیوہ عورت کے گھر کی طرف رواں ۔ خادم نے عرض کیا ” لائیے آقا
یہ بوجھ میں اٹھا لوں“ آپؓ کہتے ہیں ”کیاتم روزِ قیامت میرے گناہوں کا بوجھ
بھی اُٹھا لو گے ؟۔ ۔ رومی ایلچی آپؓ کے محل کا پتہ پوچھتا ہے ۔ لوگ کہتے
ہیں اُن کا کوئی محل نہیں ، کہیں اِدھر اُدھر ہونگے ۔ ایک بدّو عورت اشارہ
کرتی ہے ”وہ کھجور کے نیچے ننگی زمین پر سویا ہوا شخص ہی عمرؓ ہے “۔ ایلچی
پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ بغیر کسی ہتھیار کے محض خوفِ خُدا دل میں لئے
مسلمانوں کی عظیم سلطنت کا شاہ سو رہا ہے ۔ آقا ﷺ نے فرمایا ”جو اپنے لباس
میں متکبرانہ انداز رکھے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روزاُ س کی طرف نگاہ بھی
نہ ڈالے گا “ ۔ امیر المومنین حضرت عمرؓکو اپنا جسم ڈھانپنے کے لئے اپنے
بیٹے سے چادر ادھار لینی پڑتی ہے جب کہ ایکڑوں پر محیط محل میں بسنے اور
ستر ستر گاڑیوں کے حفاظتی حصار میں باہر نکلنے والے سید زادے کے سوٹ امریکہ
، ٹائیاں انگلینڈ ، اور جوتے فرانس سے آتے ہیں ۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کی اس
عالمِ آب و گِل میں آخری رات کو چراغ کا تیل بھی قرض کا آتا ہے اور گیلانی
صاحب کے بقعہ نور بنے ایوانِ وزیرِ اعظم کا روزانہ کا خرچ لاکھوں میں ۔ ان
کی اہلیہ محترمہ جو کل تک بیٹے کی فیس تک نہ ہونے کا رونا روتی تھی آج لندن
کے مہنگے ترین سٹور سے لاکھوں پونڈ کی خریداری کرتی نظر آتی ہیں لیکن ۔۔۔
لیکن جی ہے کہ پھر بھی بھرتا نہیں ۔ ”ھل من مزید“ کی بھوک ختم ہی نہیں ہوتی
اور ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ جب آقا نے ہی فرما دیا کہ ”ایک زمانہ ایسا آئے
گا جس میں کسی کو پرواہ نہ ہو گی کہ اس نے مال کس طرح کمایا ۔ اس کے پاس
سونے سے بھری دو وادیاںبھی ہوں گی تو تیسری کی خواہش کرے گا “۔
محترم وزیرِ اعظم نے بالکل درست فرمایا کہ وہ چپڑاسی نہیں لیکن اس مملکتِ
خُدا داد میں قیصر و کِسریٰ کے شاہوں جیسے انداز و اطوار رکھنے والے حاکموں
کی گنجائش بھی نہیں ۔ اگر یہ گنجائش پیدا کر دی گئی ہے تو اس کی صرف ایک ہی
وجہ نظر آتی ہے کہ یہ قوم اپنے ایمان کے کمزور ترین درجے پر ہے ۔ یہ بجا کہ
گیلانی صاحب چپراسی نہیں لیکن سپریم کورٹ کا حکم بھی وزیرِ اعظم کے لئے ہے
کسی چپراسی کے لئے نہیں ۔ یہ بہرحال طے ہو چکا کہ اب کسی ایک کو تو قربانی
دینا ہو گی ۔ پی۔پی۔پی کو اپنے وزیرِ اعظم کی یا پھر (خاکم بدہن) سپریم
کورٹ کو ناموسِ عدل کی ۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم کے اس
”اعلانِ بغاوت“ کے بعد اکابرینِ پی۔پی۔پی نے کوئی بھی غیر آئینی حربہ
اختیار کرنے کی کوشش کی تو ایک دفعہ پھر قوم اور میڈیا ناموسِ عدل کی حفاظت
کے لئے سپریم کورٹ کے شانہ بشانہ ہو گی ۔ شاید پی۔پی۔پی وہی غلطی دہرانے جا
رہی ہے جو آمر مشرف کے زوال کا باعث بنی ۔ مشرف نے جن ”کند ہتھیاروں “ پر
بھروسہ کیا وہی آج پی۔پی۔پی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ وہی ق لیگ ، وہی
ایم۔کیو۔ایم اور مقابل وہی عدلیہ ، میڈیا اور عوام ۔
محترم گیلانی صاحب نے جس طرح سپریم کورٹ کے حکم کو جوتے کی نوک پہ رکھا ہے
اس سے سوائے انارکی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ اگر بزعمِ خویش اٹھارہ
کروڑ کے نمائیندہ وزیرِ اعظم عدلیہ کا حکم ماننے سے انکار کر سکتے ہیں تو
اٹھارہ کروڑ عوام کیوں نہیں ۔ ان کی جانب سے دیئے جانے والے دلائل محض جگ
ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں ۔ اگر پارلیمنٹ نے صدر کو استثناءدیا ہے تو کیا
سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا حتمی اختیار ہندوستان کی پارلیمنٹ نے دیا
ہے ؟۔ اگر پی۔پی۔پی حکومت کو یہ قبول نہیں تو پھر آئین میں ایک اور ترمیم
لا کر اعلیٰ عدلیہ سے یہ اختیار واپس لے لے ۔ بصورتِ دیگر سپریم کورٹ کی
حکم عدولی آئین سے بغاوت ہی تصور ہو گی ۔ یہ فیصلہ اب گیلانی صاحب نے کرنا
ہے کہ انہوں نے قوم کے اس متفقہ آئین کی پاس داری کرنی ہے جس کی حفاظت کا
انہوں نے حلف اٹھایا ہے اور جس کی تشریح کا حق صرف اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہے
یا اس آئین کی پاسداری جس کی تشریح ایوانِ صدر میں کی جاتی ہے ۔ |