ویلڈن سپریم کورٹ

ارضِ پاک کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ قائداعظم کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان کو آج تک ایسی موثر لیڈرشپ میسر نہ ہوسکی جو پاکستان کیلئے بے انتہا قربانیاں دینے والے لاکھوں مسلمانوں کی آنکھوں میں سجے خوابوں کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتی بلکہ ملک کو ترقی و کامیابی کی راہوں پر گامزن کرنے کیلئے ایسی ہی بے مثال جدوجہد کرتے جیسی اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے کی گئی تھی اوراس کا نتیجہ بھی ہمیں یوں بھگتنا پڑا کہ وہ مملکتِ خداداد پاکستان جسے بانی پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے کبھی فوجی اور کبھی سول ڈکٹیٹر شپ کی مفادپرستانہ پالیسیوں نے اسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غربت،مہنگائی،بیروزگاری،بدامنی،اقرباءپروری ،ناانصافی اور کرپشن کی آماجگاہ بناکررکھ دیا ہے اور انہی ''خصوصیات''کی بناپر پاکستان کے ماتھے پر کوئی نہ کوئی نیا ''تمغہ''سجتا رہتا ہے لیکن مقام ِ شکرہے کہ اللہ تعالیٰ نے طویل عرصے کے بعد پاکستان کو ایک آزاد عدلیہ عطا کی ہے حال ہی میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے نام پر رینٹل پاورمعاہدوں کی ٹھگی کو جس طرح سپریم کورٹ نے بے نقاب کرکے جس طرح قوم کے اربوں روپے بچائے ہیں اس پر پوری قوم کو فخر ہے -

فیصلے میں سپریم کورٹ نے نو بجلی گھروں ٹیکنو فیصل آباد،پی پی آر سندھ،ٹیکنو سیالکوٹ،کرکے کرادنز،ینگ جین فیصل آباد،گلف گوجرانوالہ، رشمالاہور،والٹرزنوڈیروثانی اور نوڈیرودوئم سے کئے گئے تمام معاہدوں کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے نہ صرف اِن کو دی گئی تمام پیشگی رقم سودسمیت واپس لینے کا حکم دیا ہے بلکہ ان غیر قانونی معاہدوں کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی سفارش بھی کی ہے جس پر کاروائی کا آغاز کردیاگیا ہے اور نیب نے سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویزاشرف ،لیاقت جتوئی اور شوکت ترین سمیت انیس افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے ہیں۔رینٹل پاور معاہدے شروع سے ہی اُس وقت متنازعہ شکل اختیار گئے جب 2008ءمیں پیپلزپارٹی کے برسرِ اقتدارآتے ہی اُس وقت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویزاشرف نے قوم کو کالاباغ ڈیم منصوبے کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے اور کرائے کے بجلی گھروں کے ذریعے ایک سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ''خوشخبری''سنائی تھی لیکن اس وقت ہی محب وطن حلقوں نے اس منصوبے کوفراڈ اوراس کے ذریعے توانائی بحران کے حل کو ایک سراب قراردیا تھا سپریم کورٹ نے اس کیس میں فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف کے کردار کو سراہا لیکن میرے خیال میں اس سے پہلے اس وقت کے وزیرِ خزانہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ شوکت ترین کی طرف سے کرائے کے بجلی گھروں پر نرخوںاوراُن کی بجلی پیداکرنے کی استعدادکے حوالے سے کئے جانیوالے مدلل اعتراضات نے ان بجلی گھروں کو متنازعہ اور آگے چل کر سپریم کورٹ کو اس ڈاکے پر ازخودایکشن لینے پر مجبورکیااور آخر کار30مارچ کو تاریخی فیصلہ سناکر غریب عوام کی جیبوں پر اربوں روپے کے پڑنے والے ڈاکے کو روک دیا ایک موقر جریدے کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے قوم کے 455ارب روپے خوردبرد سے بچالئے ہیں ۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بجا طور پر ایک تازیانے سے کم نہیں جوچیخ چیخ کر یہ بتارہا ہے کہ کس طرح اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں براجمان ان بے رحم اژدھوں نے عوام پر بجلی گرانے کی منصوبہ بندی کی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس بڑے جرم میں ملوث وزراءکو کیفرِ کردارتک پہنچاتی ہے یا اُن کومزید شان و شوکت و مراتب عطاکرتی ہے جیساکہ اس حکومت کی ماضی میں روائت رہی ہے ۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100493 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.