یہ ایک مبارک خبر ہے کہ صدر
پاکستان آصف علی زرداری 8اپریل کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی بارگاہ
میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے تشریف لا رہے ہیں۔اس خبر پر دل سے صدا نکلی کہ
اللہ ان کی اس حاضری کو باعث خیر و برکت فرمائے۔ اس عقیدت کے طفیل ان پر،
ان کے خیرخواہوں پراور ہم سب پر وہ راہ روشن اور آسان فرمادے جس کوحضرت
خواجہ غریب نوازؒنے اپنے لئے راہ عمل بنایاتھا۔ان عظیم صوفیاءکرام نے، جن
کے آستانے آج بھی مرجع خلائق ہیں، اپنے قول و فعل سے، کردار اور عمل سے
بندگان خدا کو خالص توحید، خدا پر توکل ، اتباع رسول، بندگان خدا کی خدمت
اور آلائش دنیا سے بے رغبتی کا سبق پڑھایا تھا۔ یہی وہ زریں اصول ہیں ،اگر
ان بزرگوں سے عقیدت اور ان کے آستانوں پر حاضری کے فیض سے ہمارے دلوں میں
بیٹھ جائیں تو دوجہاں کی کامیابیاں ہمارے بھی قدم چومنے لگیں۔ بیشک چادر،
پھول ، خوشبو اور نقد نذارنے مراسم عقیدت قرار پائے مگر ان پاک روحوں کو
سچا نذرانہ عقیدت توان زندگی کا عکس اپنے دلوں میں نقش کرلینے میں ہے۔ ان
سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہمیں بھی وہی عزیز ہو جو ان کو محبوب تھا۔ غور
کیجئے کیسا کرشماتی فیض ہے ان صوفیاءکرام کا کہ صدیوںسے اپنی قبروں میں
آرام فرمارہے ہیں اور ہزار ہا خاندانوں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ایک ہم ہیں کہ
رات دن جدوجہد کرتے ہیں اور اپنے ایک خاندان کا پیٹ نہیں پال پاتے۔ سوچنا
چاہئے کہ ان کو یہ مقام و مرتبہ کیسے حاصل ہوگیا؟ کیا ان کے نقش قدم پر چل
کر ہم کچھ سکون قلب حاصل نہیں کرسکتے؟ سچ ہے اللہ کاخزانہ تو کھلا ہے ، ہم
لینے والے ہی کوتاہ دست ہوگئے۔
خوش نصیب کہ صدر پاکستان حضرت اجمیری ؒکے آستانے پر حاضری دینے آرہے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہاں سے لے کر کیا جاتے ہیں ؟ایک مشہور واقعہ ہے ۔ایک
مرتبہ بادشاہ جہانگیر شاہی کروفر کے ساتھ لاہور کے نواح میں دھرم پورہ میں
مقیم قادریہ سلسلہ کے مشہور صوفی بزرگ میاں میرصاحب ؒکی خدمت میں حاضر ہوا۔
خدام نے شاہی قافلے کو خانقاہ کے باہر ہی روک دیا۔بادشاہ کو سخت ناگوار
گزرا۔ جب حاضری کی اجازت ملی تو شکوہ کیا: ’با در دوریش دربان نباید‘ (درویش
کے دروازے پر دربان نہیں ہونا چاہئے)۔ حضرت میاں صاحب ؒنے برجستہ فرمایا:
’بباید کہ سگ دنیا نہ آید۔‘(وہ اس لئے ہے کہ دنیا کا لالچی کتا اندر نہ آئے۔)
اس میں ہمارے لئے یہ درس ہے کہ صوفیاءکرام کو یہ بات پسند نہیں کہ ان کے
آستانوں پر دنیا کا طالب بن کرحاضری دی جائے۔
شکریہ !تلخیاں کم ہوئیں
صدر پاکستان اس دورے کو نجی رکھنا چاہتے تھے مگروزیراعظم ڈاکٹر من موہن
سنگھ کی خواہش پر کھانے کےلئے دہلی میں رکیں گے۔ گویا اس میں سرکاری دورے
کا تام جھام تو نہیں ہوگا البتہ کچھ ملاقاتوں اور کچھ کام کی باتوں کا موقع
ضرورہو گا۔ اندورن ملک نامساعد سیاسی واقعات کے باوجودیہ بات قابل ستائش ہے
کہ صدر زرداری کے دور حکومت میں ہند پاک کے درمیان ماحول کی تلخی کم ہوئی
ہے۔ اس تلخی کو کم کرنے میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ، ان کی
ہونہاروزیر خارجہ حنا ربانی کی پشت پر خود صدر زرداری کی تائید کارول بڑا
اہم ہے۔ایسے حالات میں جب کہ جمہوری حکومت کو کئی شدید مسائل کا سامنا تھا،
ہند کے ساتھ تجارت کی بحالی کا اہم فیصلہ کوئی معمولی بات نہیں۔ باہم رشتوں
میں سرد مہری کی جگہ گرم جوشی کے آثارعوام میں بھی نظر آرہے ہیں اور وہ
منتظر ہیں کہ بڑے پیمانے پردوطرفہ تجارت کب شروع ہوتی ہے او ر کب وہ اس کا
فیض اٹھا پاتے ہیں؟عوام اور خواص کے درمیان اب ہندستان کے ساتھ خوش
ہمسائیگی کا نیا باب کھولنے کے باتیں زیادہ پرجوش انداز میں ہورہی ہیں۔
ہرچند کہ سابق میں پاکستان میں کئی انتخاب ہند سے دشمنی کو موضوع بناکر لڑے
گئے ، لیکن قیاس کیا جارہا ہے کہ 2013کے پارلیمانی چناﺅ میں ہند کے ساتھ
دوستی کا موضوع چھایا رہیگا۔اس کا ایک اثر یہ نظرآرہا ہے کہ وہ شدت پسند
گروہ جو ہند کی دشمنی میں پیش پیش تھے اور اندرون ملک بھی دہشت گردانہ
سرگرمیوں میں ملوّث تھے اب منظر عام پر نظر نہیں آرہے ہیں۔ یہ بات یقینا
پورے خطے کےلئے خوش آئند ہے۔
راہداری کی راہ آسان ہوئی
دو طرفہ تجارت کھولنے کےلئے اہم اقدامات کے علاوہ ایک اور پہل ہوئی ہے اور
وہ یہ کہ 1965سے ہندستان کو راہ داری نہ دینے کی پالیسی کے باوجود پاکستان
نے ہندستانی غذائی اجناس کو اپنے خطے سے گزرکر افغانستان جانے دیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے بڑی خاموشی سے ایک لاکھ ٹن سے زیادہ
ہندستانی گندم براستہ کراچی ،طورخم افغانستان جانے دیا۔ یہ اناج گجرات کے
کانڈلہ بندرگاہ سے کراچی اتارا گیا جہاں تکنیکی طور اس کو افغانستان کی
سپردگی میں دیدیا گیا۔ یہاں سے پاکستان ریلوے اور سڑک کے راستے طورخم
پہنچایا گیاجو کابل کےلئے پاکستانی سرحدی چیک پوسٹ ہے۔اسطرح مہینوں کا
راستہ دنوں میں طے ہوگیا اور اناج خراب ہونے سے بھی بچ گیا۔سابق میں کئی
مرتبہ اناج سمندر میں طویل سفر کے دوران نم ہوکر اس قدر خراب ہوچکا تھا کہ
کھانے کے لائق نہیں رہا تھا۔پاکستان کی اس رعایت سے فائدہ تینوں ملکوں کو
ہوا۔ باربرداری پر ہند کا بھاری خرچ گھٹ کر معمولی رہ گیااور کراچی سے
افغانستان تک کا بھاڑہ پاکستان ریلوے اور روڈ ٹرانسپورٹ کو مل گیا۔ امید ہے
کہ یہ سلسلہ بتدریج مزید استوارہوگا۔
پس پردہ مذاکرات
8اپریل کو صدرزرداری سے اس مجوزہ مختصر ملاقات کے دوران وزیراعظم بجا طور
پر ماحول میں اس مثبت تبدیلی کےلئے زرداری کا شکریہ ادا کریں گے اور ممکن
ہے کہ دوطرفہ مسائل کے حل کےلئے سرکاری سطح پر جاری مذاکرات کے عمل کے ساتھ
اس پس پردہ (back channal) مذاکراتی عمل کوآگے بڑھانے پر زوردیں جو صدر
پرویز مشرف کے دور میں کافی حد تک آگے بڑھا تھا اور جس میں کشمیرجیسے
پیچیدہ مسئلہ کے حل کے فارمولے پر تقریباً ایک رائے بن چکی تھی۔ اصولی طور
پر یہ طے ہوا تھا کہ کشمیر کے دونوں حصوں کو داخلی خود مختاری دیدی جائے۔
مقامی تجارت اور کشمیری باشندوں کی ایک حصہ سے دوسرے حصہ آمد و رفت سے
پابندیاں ہٹا لی جائیں اور ایک ایساہند پاک مشترکہ نظام بنایا جائے جو وہاں
کی حکومت پر نظر رکھے۔اگرچہ مذاکرات کایہ عمل چند ماہ قبل از سر نو شروع
ہوچکا ہے ، مگر اس کی رفتار سست ہے۔اس ضمن میں ہند کی طرف سے سفارتکار
ستندر لامبا اور پاکستان کے سابق خارجہ سیکڑیٹری ریاض محمد خاں کے درمیان
کچھ بات چیت ہوچکی ہے۔ ہند چاہتا ہے یہ سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے آگے
بڑھایا جائے، جبکہ پاکستان مشرف کے دور میں طے شدہ بعض امور پراز سر مو
غورکرناچاہتا ہے ۔ پاکستان کے سابق خارجہ سیکریٹری خورشید محمود قصوری کا
بیان ہے کہ جنرل پرویز کیانی ، جو اس وقت آئی ایس آئی کے چیف تھے ، اس
فارمولے سے متفق تھے۔ پاکستان نے حال ہے میں سید علی شاہ گیلانی اور میر
واعظ عمر فاروق سے رابطہ کیا ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے اسی پس پردہ سفارتکاری
کے سلسلہ کی کڑی ہے۔
مسئلہ کشمیر حل کرنے کا موقع
دریں اثنا معروف صحافی، راجیہ سبھا کے سابق رکن ، برطانیہ میں ہند کے سابق
ہائی کمشنر کلدیپ نائر نے، جو ہند پاکستان دوستی کے زبردست حامی ہیں اور
حال ہی میں پاکستان ہوکر آئے ہیں، جس میں نوازشریف سمیت کئی اہم شخصیات سے
ملاقاتیں ہوئی ہیں، 22مارچ کو ’ٹائم فار کشمیر سولوشن‘ عنوان سے اپنے کالم
میںبڑے مضبوط دلائل کے ساتھ اس سنگھی نظریہ کو مسترد کیا ہے کہ کشمیر صرف
ہند کا داخلی معاملہ ہے یا صرف امن اور قانون کا مسئلہ ہے جس کو سخت
اقدامات سے حل کیا جاسکتا ہے۔مسٹر نائر نے بجا طور پر مسئلہ کشمیر سے
پاکستان کے سروکار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سیاسی حل کی وکالت کی ہے اور
ایک حل کا خاکہ بھی پیش کیا ہے ، جس کے خد و خال اس حل جیسے ہیں جو مشرف کے
دور میں سامنے آیا تھا۔ ان دونوں تجاویز میں اہم نکتہ یہ ہے کہ کشمیر کو
داخلی خود مختار ی دی جائے۔دلیپ پدگاﺅنکر، ایم ایم انصاری اور رادھا کمارپر
مشتمل تین رکنی کمیٹی نے بھی مرکز کی ایما پر طویل جائزوں کے بعد اپنی
رپورٹ میں ”حقیقی خود مختاری“ "meaningful autonomy" کی سفارش کی ہے۔ مسٹر
نائر کا کہنا ہے کہ ” دونوں سرکاریں دفاع اور خارجی امور کے سوا تمام
معاملات کشمیریوں کو منتقل کردیں۔ کنٹرول لائن کو نرم کردیں تاکہ جموں و
کشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام آپس میں مل جل سکیں اور اپنے خطے کی ترقی کی
خود منصوبہ سازی کرسکیں۔ وہ غیر ممالک میں اپنے تجارتی ، ثقافتی مشن اور
خدمات کے مراکز کھول سکیں اور اپنی ہوائی سروس رکھ سکیں۔ خطے سے باہر کے
لوگوں کو کشمیر یا آزاد کشمیر میں داخل ہونے کےلئے ویزا کی درکار ہو ۔
کشمیر ہند کا حصہ اور آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جائے اور یو این
میں درج کیس واپس لے لیا جائے۔ “
اصل مسئلہ خود مختاری کی بحالی
ان تجاویزپر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔مسئلہ کی جڑ یہی ہے کہ ہمارے
پرجوش سیاستدانوں نے الحاق کی شرائط کو پس پشت ڈال دیا اور داخلی خود
مختاری کے وعدے کو پامال کرکے اس الحاق کو انضمام میں تبدیل کرنے کے کوشش
کی۔ نئی دہلی میں اٹوٹ انگ کا نعرہ جتنا زور سے لگایا گیا اتنی ہی شدت سے
سرینگر میں ہند پر کشمیریوں کا اعتماد ٹوٹا۔غلطیاں پاکستان نے بھی کیں۔
اپنے وجود کو مستحکم کرنے کے بجائے جنگجوئیت کی فضا بنائی گئی۔کشمیر کوفوجی
طاقت سے حاصل کرنے کی کوششوں اور بعد کے خون آلودہ سانحات سے پیچیدگی
بڑھی۔اب تمام فریق خواستگار نظر آتے ہیں کہ جو جس کا حق ہے اس کو مل جائے۔
چنانچہ وقت آگیا ہے کہ سابقہ تلخیوں کو نظرانداز کرکے مفاہمت پیدا کی
جائے۔ہندستان کا سیاسی پس منظر تیزی سے بدل ہے اور وفاقیت کے اصول پر زیادہ
زور دیا جانے لگا ہے۔ ریاستوں کی خود مختاری کی آواز کوسنے بغیر چارہ کار
نہیں۔ اس اعتبار سے کشمیر کے تعلق سے جناب کلدیپ نائرکی تجویز بروقت ہے۔ اس
خاص موقع پر ، جب کہ ہند پاک رشتوں میں تلخیاں بڑی حد تک زیر زمین جاچکی
ہیں، ان کا یہ نسخہ امید ہے کارگر ہوگا۔امید ہے کہ انہوں نے یہ فارمولہ
ہندا ور پاکستان نیز کشمیر کے رہنماﺅں کے ذہنوں کو ٹٹول لینے کے بعد ہی پیش
کیا ہوگا۔
ایک دلچسپ پہلو
ان کی تجویز کا ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر سے لوک سبھا کےلئے
منتخب ممبران کو پاکستانی قومی اسمبلی میں اور آزاد کشمیرسے چنے ہوئے
ممبران کو لوک سبھا میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ “اس کا مقصد انہوں نے یہ
بیان کیا ہے کہ ’اس سے ایک ایسا نمونہ وجود میں آجائے گا جو مستقبل میں
دونوں ملکوںکے قریب آنے میںمعاون ہوگا۔“لیکن یہ کچھ زیادہ آگے کی بات لگتی
ہے۔ ہمارے درمیان اعتماد کی فضا ایسی مستحکم نہیں ہوئی ہے کہ اس طرح تجویز
کوعام قبولیت مل سکے ۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دونوں طرف ایسے شدت پسند اور
جنگجو عناصرموجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان سے ہند کے رشتے میٹھے ہوں
۔دوسرے یہ بھی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان ہماری لوک سبھا میں بیٹھ
کر کیا دیکھیں گے ، کیا سیکھیں گے؟ ہمارے لائق ممبران توعوامی مسائل پر غور
و فکر اور بحث و مباحثہ کی اہمیت کو فراموش کرکے شور مچانے ، خلل ڈالنے اور
کاروائی نہ چلنے دینے کی سیاست کے اس طرح اسیر ہوچکے ہیں کہ یہ بھی بھول
جاتے ہیں کاروائی کا مشاہدہ کرنے والوں میں کچھ غیر ملکی معزز مہمان بھی
موجود ہیں اور ٹی وی پر پورا ملک ان کو دیکھ رہا ہے۔
دورہ پاکستان کی دعوت
ابھی 28مارچ کو سیول میں ہمارے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور پاکستان
کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان ایک مختصرملاقات ہوئی جس میں
پاکستان کی وزیر خارجہ محترمہ حناربانی کھر، ہندکے خارجہ سیکریٹری رنجن
متھائی اور قومی سلامتی کے مشیر پی شیو شنکر مینن بھی موجودتھے۔ مسٹر
گیلانی نے یاد دلایا کہ ہندکے ساتھ تجارت کو بڑھانے کے اپنے وعدے پر انہوں
نے اس کے باوجود عمل کیا ہے کہ پاکستان کےلئے ہند کو انتہائی ترجیحی ملک کا
درجہ دینے کا فیصلہ بڑا مشکل کام تھا۔ اب وہ بھی چاہتے ہیں اعتماد سازی کے
ان علامتی اقدامات سے آگے بڑھ کر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جائے۔ ”پاکستان میں
جمہوری نظام مضبوط ہوگا “ عنوان سے 18جنوری کے اپنے اس کالم میںجیسا کہ ہم
نے قیاس ظاہر کیا تھا، گیلانی سرکار اس بھنور سے نکل آئی ہے جس میں وہ چند
ماہ قبل پھنسی ہوئی نظر آتی تھی ۔چنانچہ دونوں ملکوں کےلئے سیاسی اعتبار سے
یہ بہترین موقع ہے کہ وہ بعجلت کلیدی فیصلے کرلیں۔ اس ملاقات کے دوران مسٹر
گیلانی نے ہندستان سے بجلی مانگی ہے اور مسٹر سنگھ نے ان کی اس درخواست پر
ہمدردی سے غور کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ایک گیس پائپ لائن بھی پاکستان کی
سرحد تک پہنچے والی ہے اور اسی 13اپریل کو واگھہ چوکی پر سامان تجارت کی
آمد ورفت کےلئے ایک بڑی سہولت کا افتتاح بھی ہونے والا ہے۔ ہندستان نے بھی
پاکستان سے تجارت کےلئے اپنی منفی فہرست گھٹا کر ایک تہائی کردی ہے۔
ویزا میں دشواریاں
اس میں ہم اتنا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں ہند پاک عوام کے درمیان رابطے
کھولنے کی کوئی صورت اب تک نظر نہیں آتی۔ ویزا کے ضابطے اب پہلے سے بھی
زیادہ سخت کردئے گئے ہیں۔ چند سال قبل ویزا کےلئے آنے والے معمر لوگوں اور
خواتین کےلئے الگ ونڈو ہوا کرتی تھی وہ بھی بند کردی گئی۔ویزا کی سہولت
سیاحت اور تعلیم کےلئے بھی ہونی چاہئے۔اور ان دونوںزمروں کو تجارتی
سرگرمیوں میں شمار کیا جانا چاہئے۔سرحدی چوکیوں سے متصل ایسے بازار بھی
کھولے جانے چاہیں جن سے چھوٹے تاجر پاسپورٹ ویزا کے جھمیلے کے بغیردن کے دن
خریداری کرکے واپس لوٹ سکیں۔ان کی تجویز کا ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ”جموں
و کشمیر سے لوک سبھا کےلئے منتخب ممبران کو پاکستانی قومی اسمبلی میں اور
آزاد کشمیرسے چنے ہوئے ممبران کو لوک سبھا میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
“اس کا مقصد انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ”اس سے ایک ایسا نمونہ وجود میں
آجائے گا جو مستقبل میں دونوں ملکوں کے قریب آنے میں معاون ہوگا۔“لیکن یہ
کچھ زیادہ آگے کی بات لگتی ہے۔ ہمارے درمیان اعتماد کی فضا ایسی مستحکم
نہیں ہوئی ہے کہ اس طرح تجویز کوعام قبولیت مل سکے ۔پھر سوال یہ بھی کہ
مقبوضہ کشمیر کے ممبران ہماری لوک سبھا میں کیا دیکھیں گے؟ کیا سکھیں گے؟
ہمارے لائق ممبران بحث و مباحثہ کے بجائے شور مچانے، خلل ڈالنے اور اجلاس
نہ چلنے دینے کی سیاست کے اس قدر اسیر ہوچکے ہیں کہ مہمان گیلری میں موجود
غیر ملکی مندوبین کے باوجود ایوان کے وقار کو بھول جاتے ہیں ۔ یہ بھی
دیکھنا ہوگا کہ دونوں طرف ایسے شدت پسند اور جنگجو عناصرموجود ہیں جو نہیں
چاہتے کہ پاکستان سے ہند کے رشتے میٹھے ہوں۔
دورہ پاکستان کی دعوت
اس پس منظر میں کیا یہ مفید نہ ہوگا کہ خود ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی پاکستان
جائیں۔ سیول ملاقات کے دران مسٹر گیلانی نے ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر من موہن
سنگھ کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔ وزیراعظم اس دعوت کو اصولی طور پر
تسلیم کرچکے ہیں۔ مگر ان کاخیال ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت ہونا چاہئے جب کوئی
بڑا اعلان ہوسکے۔ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ان کے دورہ پاکستان سے وہاں کی
جمہوری حکومت کو تقویت ملے گی اور اس سے بڑے فیصلوں کی راہ بھی کھل سکتی
ہے۔ مناسب ہوگا کہ ہمارے وزیر اعظم اپنے دورہ اسلام آباد کو بڑے تاریخی
اقدام سے نہ جوڑیں۔جس طرح گیلانی کھیل دیکھنے آگئے تھے،زرداری زیارت کےلئے
آرہے ہیں، اسی طرح وہ بھی ننکانہ صاحب میں متّھا ٹیکنے جاسکتے ہیں، اپنے
آبائی گاﺅں جاکر اپنے بچپن کی یادوںکو تازہ کرسکتے ہیں اور دھرم پورہ جاکر
میاں میر صاحب ؒکے مزار پر حاضری دے سکتے ہیں جن سے وہ اس لئے بڑی ہی عقیدت
رکھتے ہیں کہ گورو ارجن دیو مہاراج بھی میر صاحب ؒکے عقیدت مند تھے۔ (ختم) |