وزیرستان و بلوچستان،عرب شہزادوں کی شکار گاہ

بلوچستان میں حالات کی سنگینی اور امریکی کانگرس میں بلوچستان کی خود مختاری کے حوالے سے قرارداد کے بعد گزشتہ دو ماہ سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بلوچستان شہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ ان تجزیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اگر یہ اہم نکتہ جو اس تحریر میں بیان کیا جارہا ہے ملتا تو شاید اس موضوع پر قلم نہ اٹھاتا لیکن اس اہم اور بنیادی نکتے کی طرف کسی طرف سے توجہ نہ دینے پر اپنے ضمیر کے آواز کو اپنے ہم وطن پاکستانیو تک پہنچانا فرض سمجھ کر لکھ رہا ہوں، چاہے کوئی پڑھے یا نہ پڑھے، شائع ہو جائے یا نہ ہو جائے کیونکہ ہم نتائج کے زمہ دار نہیں بلکہ کوشش کرنا اپنا بنیادی فریضہ ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات فاٹا کی تباہی کی ذمہ دار امریکہ ہے لیکن بلوچستان و وزیرستان میں امریکی افواج یا ان کے افراد براہ راست تو نہیں آئے بلکہ امریکی مفادات کے لئے جو لوگ استعمال ہوئے وہ امریکہ ہی کی طرح یا اس سے بڑے مجرم ہیں، ان مجرموں کو بے نقاب کرنے کی بجائے شاید مملکت خداداد پاکستان میں مصلحت کے نام پر منافقت جاری ہے۔ رہی بات بلوچستان اور فاٹا کی تباہی کی تو یہ مسئلہ گزشتہ دو ماہ کا نہیں بلکہ تیس سال پرانا ہے،جب امریکہ اور عرب شہزادوں نے ڈالرز و درہم اور اسلحہ و بارود سمیت فساد بنام جہاد کی فیکٹریاں قائم کئیے ، جس کی کڑوی فصل آج پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات اٹھا رہے ہیں۔ اس بات کا برملا اظہار امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے یوں کیا کہ امریکی صدر ریگن اور سی آئی اے نے ضیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مل کر پاکستان میں سعودی عرب سے امپورٹڈ وہابی نظریات کا بیج بو کر فساد بنام جہاد یا مجاہدین و طالبان کو جنم دیا۔ ہیلری کلنٹن کی اقرار جرم والی یہ ویڈیو کلپ مختلف سوشل میڈیا جیسے یو ٹیوب و فیس بک میں کافی مقبول ہو رہی ہے، جس کی لنک یہاں قارئین کے لئے دی جا رہی ہے تاکہ بلوچستان اور فاٹا میں جاری بدامنی کی جڑوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
https://www.youtube.com/watch?v=J1CW2XuDAQ4

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبائلی علاقہ جات فاٹا بالخصوص جنوبی وزیرستان کی سرحد یں انتہائی قریبی فاصلے ڈی آئی خان کے دانہ سرنامی روڈ کے راستے سے آسانی سے منسلک ہیں جس کا مشاہدہ دئیے ہوئے تصویری نقشے سے بھی کیا جا سکتا ہے اور یوں سونے پہ سہاگہ دونوں وزیرستان و بلوچستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جہاں امریکہ و عرب شہزادوں کے مشترکہ مفادات یعنی امریکہ کا قبضہ اور عرب شہزادوں کا اپنے نظریات وہابیت کا پرچار کرنا تھا۔ اسلئے ضیا دور ہی سے امریکہ اور عرب شہزادوں کی ایما پر امریکی سی آئی اور ضیا کے زیر اثر اداروں کے جہادی فیکٹریوں میں عرب مجاہدین کو جنگی اور منافرت کی تربیت دینے کے لئے افغانستان سے منسلک بلوچستان اور فاٹا کے علاقوں میں تعینات کر دیا گیا۔ سن اسی کے عشرے کے دوران وزیرستان میں ان مجاہدین کی آمد کے بعد شمالی وزیریستان سے ان عرب مجاہدین اور ان کے پاکستانی ساتھیوں کو لوئر کرم ایجنسی کے علاقے صدہ کے مشہور ششو و ساتین کیمپوں(چونکہ کرم ایجنسی افغانستان کے چار صوبوں سے منسلک ہے اسلئے افغانستان میں کاروائیوں کے لئے اہم ترین جغرافیائی و سٹرٹیجک مرکز) میں بھجوایا گیا، ان مجاہدین نے افغانستان میں کاروائیوں سے پہلے صدہ میں آباد مقامی آبائی قبائل کا قتل عام بشمول معصوم بچوں کو کلاشنکوف کے برسٹ مار کر جہاد کی پیاس بجھا کر باقی ماندہ مقامی قبائل کو اپر کرم ایجنسی بے دخل کر دیا اور متاثرین صدہ تیس سالوں سے اپنے املاک گھر و جائیداد کے مالک ہونے کے باوجود بھی در بدر کی ٹھوکریں کھا کر اپر کرم میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ضیا دور سے عرب شہزادوں کو قبائلی علاقہ جات وزیرستان میں سرکاری پروٹوکول دیکھ کر امریکہ نے اپنی بندوق عرب شہزادوں کے کندھے پر رکھ کر بلوچستان میں اپنے مفادات اور پاکستان مخالف اقدامات کے لئے انہی عرب شہزادوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔ طریقہ کار یہ اپنایا گیا کہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات و دیگر خلیجی ممالک کے عرب شہزادوں کو پرندوں اور مرغابیوں کے شکار کے بہانے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں بڑے بڑے صحرا، جنگل و علاقے لیز پر دئیے گئے، اور یوں پاکستان کی تباہی کے منصوبے میں بقول ہمارے حکمرانوں کے مشکل کی ہر گھڑی میں ساتھ دینے والے عرب شہزادوں اور شیوخ نے ہی چھرا گھونپ دیا۔ امریکی مفادات کے لئے کئی سال تک استمال ہونے والے شمسی ائیر بیس کو بھی پاکستان نے اپنے دیرینہ ساتھی عرب امارات کے شہزادوں کو شکار کے لئے لیز پر دیا تھا،لیکن مرغابیوں اور پرندوں کی شکار کی بجائے عرب شہزادوں نے پاکستان کو بتائے بغیر امریکہ کے حوالے کرکے پاکستانیوں کا شکار کرتے رہے، جب پاکستان حکام کو یہ بات پتہ چلی اور شمسی ائیر بیس خالی کرنے کا کہا گیا تو عرب شہزادوں اور شیوخ نے پاکستان کے ساتھ خیانت کرنے پر معافی مانگنا تو درکنار بلکہ شہزادوں کی بھاری جمعیت کے ہمراہ اسلام آباد آکر پاکستان سے یہ تک کہہ ڈالا کہ امریکہ سے شمسی ائیر بیس خالی نہ کریں، اسے چوری اور اوپر سے سینہ زوری نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ جن اداروں پر پاکستان کی سالمیت کی زمہ داری ہے وہ یا تو خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے یا پھر منتخب حکومتوں کو گرانے کے لئے مہران بینک کے زریعے رقم تقسیم کرکے سیاستدانوں اور عام پاکستانیوں کے ٹیلفون ٹیپ کرتے رہے، رہی بات امریکہ و عرب شہزادوں کے پاکستان مخالف سرگرمیوں کا تو وہ ان اداروں کو اسلئے بھی نظر نہ آئی کہ امریکہ کے زرائع ابلاغ اور سروے رپورٹس کے علاوہ عرب شہزاداے ان اداروں اور ان کے سربراہوں کو دنیا کے بہترین اور ٹاپ ادارے قرار دے کر خوشامد کے زریعے اعتماد بحال کرکے اندر ہی اندر چھرا گھونپتے رہے۔ اور یوں بلوچستان میں آنے والے عرب شہزادوں پر چیک اینڈ بلینس رکنے کی بجائے انہیں اگر کبھی بلوچستان سے وزیرستان بھی جانا ہوتا تو صحراؤں اور پہاڑی علاقوں کے الئے استعمال ہونے والی جدید ڈبل کیبن گاڑیوں میں انہیں سیکورٹی فورسز کا عام اہلکار روکنے یا تلاشی لینا تو دور کی بات بلکہ پاکستان میں شکار کی غرض سے آنے والے ان دیرینہ مہمان ساتھیوں کے ساتھ سرکار کا حکنامہ دیکھ کرسلوٹ کرکے وی وی آئی پی پروٹوکول دینا شروع کیا۔ عرب شہزادے مرغابیوں اور موسمی پرندوں کی شکار کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی،جند اللہ ،لشکر جھنگوی اور وزیرستان و فاٹا میں القاعدہ و طالبان گروہوں کو مالی تعاون و اسلحہ مہیا کرکے اصل شکار کرتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عرب شہزادوں کے شکار کے شوق اور پیسے کمانے کی خاطر اپنے ملک کی سالمیت و خود مختاری داؤ پر لگانے والے عقل کے اندھوں کو شاید عرب شہزادوں اور امریکہ کے چولی دامن تعلق کا پتہ ہی نہیں تھا یا پھر ہم خوش رہے اور ڈالرز و درہم ملتے رہے چاہے ملک کا بیڑا غرق ہو والا فارمولا۔۔۔ بہرحال بلوچستان اور فاٹا بالخصوص وزیرستان کی یہ حالت کہ جہاں پاکستانی پرچم لہرانا مشکل ہو گیا، اس کی بنیادی جڑ عرب شہزادوں ہی کی وجہ سے ہے۔ جب کہ یہی عرب شہزادے اور ان کے ممالک اب اپنے عرب امارات و خلیجی ممالک سے فاٹا کے محنت مذدوری کرنے والے عوام کو بالعموم اور وزیرستان کے عوام کو بالخصوص دہشت گرد قرار دے کر نکال رہے ہیں اور انہیں ویزوں اور ورک پرمٹ کی تجدید کرنے کی بجائے واپس پاکستان ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف فاٹا کے عوام بلکہ امریکہ و اسرائیل مخالف ان عرب باشندوں جیسے فلسطین و لبنان کے عوام کو بھی محض اس وجہ سے ڈی پورٹ کر رہے ہیں کہ تمہاری موجودگی ہمارے لئے خطرے کا باعث ہے۔ جبکہ سعودی عرب قطر و متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک میں امریکی و اسرائیلی اس حد تک آزاد ہیں کہ دبئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اسرائیل اور امریکہ نے مل کر فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سنئیر رہنما کا قتل کردیا،لیکن عرب شہزادے و شیوخ خاموش تماشائی بنے رہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ غزہ و لبان پر اسرائیلی جارحیت و حملے میں خلیجی و عرب ممالک کے شہزادے و شیوخ اسرائیل کومالی تعاون و اسلحہ دیتے رہے ہیں۔ عرب و خلیجی ممالک اپنے ہی عرب بھائیوں فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی اس قدر مخالفت کیوں کر رہے ہیں اس کا فیصلہ یہاں بیان کئیے جانے والے واقعے کو پڑھ کر ہی کیا جا سکتا ہے اور اسی واقعے میں ہم پاکستانیو کے لئے بھی حکمت پوشیدہ ہیں،۔۔۔ اگر ہم عقل سے کام لیں۔

حماس نے چودہ اگست 2009 کو مصر کے سرحد رفاہ کے قریب ایک وہابی جہادی ملا عبد الطیف موسی جو خود کو جند انصار اللہ نامی تنظیم کا سربراہ اور القاعدہ جیسی سوچ اور فساد بنام جہاد کا قائل تھا، حماس والوں نے عبد الطیف موسی کو مسلح ساتھیوں سمیت مسجد کے اندر فائرنگ کرکے اس وقت ڈھیر کر دیا اور موقف اپنایا کہ تم وہابی نظریات کے حامل جہادی ملا عبد الطیف موسی اسلام کی تعلیمات کو سمجھے بغیر جہاد کی غلط تشریح کرکے امریکہ کی خوشنودی کرتے ہو۔ یاد رہے کہ عبد الطیف موسی نے اپنے سو کے قریب مسلح جہادی ساتھیوں سمیت مسجد پر قبضہ کرکے خود کو امیر المومنین کہلوانے اور جہاد و خلافت کی آڑ میں غزہ کو امارات اسلامی قرار دے کر اسلام کے مقدس چہرے کو پراگندہ کرنے کا منذصوبہ بنایا تھا،اس طرح کے حالات پاکستان کے مختلف علاقوں میں امریکی سی آئی اور ضیا دور سے ہنوز جاری ہیں کھبی وزیرستان کو امارات اسلامی بنایا جاتا ہے تو کبھی اسلام آباد کو اور کھبی پورے پاکستان کو۔۔۔۔ لیکن حماس کے دور اندیش قیادت بالخصوص اسماعیل ہانیہ نے اس فتنے کو پھیلنے سے پہلے ہی ٹھکانہ لگا کر خود جمعہ کے خطبے میں اس قسم کے وحشی تصور جہاد کو احمقانہ قرار دے کر حماس کے مزاحمت کو بدنام کرنے کے لئے امریکی و اسرائیلی سازش قرار دے کر کہا کہ حماس کے زیر کنٹرول غزہ و رفاہ میں ایسے جاہل اور فساد بنام جہاد کی قطعا گنجائش نہیں۔ کاش حماس کے اسی طریقہ کار سے ہمارے ملک کے مقتدر ادارے اور عوام بھی سبق سیکھ لیتے اور فتنے کو آغاز ہی میں ختم کرتے تو ملک تباہی کی طرف نہ جاتا لیکن یہاں تو فتنے کو ضیا دور ہی سے ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔۔۔
Sajid Hussain
About the Author: Sajid Hussain Read More Articles by Sajid Hussain: 14 Articles with 13774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.