وطن عزیز میں ضروریات زندگی کی
قیمتوں میں اضافے، مہنگائی، چوربازاری ،حکومتی لوٹ مار ، بم دھماکوں، امن و
امان کی ناگفتہ بہ صورتحال اور غلط معاشرتی رسوم و رواج کی وجہ سے وہ لوگ
اور وہ گھرانے بھی خود کشیوں کا سوچ رہے ہیں جو ہمیشہ سے مثبت امیدوں کے
ساتھ زندگی گذارتے رہے اور خود کشی کو حرام تصور کرتے رہے۔ اخبارات اور
الیکٹرانک میڈیا پر خودکشیوں کی خبریں اس تواتر سے آنا شروع ہوگئی ہیں کہ
اب لوگوں کے نزدیک ان خبروں کی ”خبریت“ ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ جب کسی ٹی وی
چینل پر مجبور و لاچار لوگوں کی خودکشی کی خبر آتی ہے، چند لمحوں کے لئے دل
مسوس کررہ جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ”انٹرٹیمنٹ ورلڈ“ کی خبر شروع ہوجاتی
ہے جس میں نیم عریاں خواتین کو دیکھ کر دل ”بہل“ جاتا ہے، اسے راحت و قرار
حاصل ہوجاتا ہے اور خود کشی کی خبر یا رپورٹ کا تاثر مکمل طور پر زائل
ہوجاتا ہے، جس کے لئے عوام الناس کو میڈیا کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا
چاہئے۔ ظاہر ہے مرنے والوں کے ساتھ مرا تو نہیں جاسکتا۔ لوگوں کی حالت زار
اتنی خراب ہوچکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور
جوان لڑکیاں اپنے اور اپنے بے یار و مددگار خاندانوں کے پیٹ کی آگ بجھانے ،جسم
و جان کا رشتہ قائم رکھنے اور اپنے جہیز اکٹھے کرنے کے لئے بے راہ روی کا
شکار ہورہی ہیں۔
پاکستان میں خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے معاشرے کے عمومی روئےے کا
عکاس بنتا جارہا ہے۔ کچھ تو ہم نے اپنی ضروریات ویسے ہی بڑھا لی ہوئی ہیں،
خوب سے خوب تر کی تلاش والا معاملہ ایک گھمبیر مسئلے کی شکل میں سامنے آچکا
ہے جبکہ مجبوریوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس نے درمیانے طبقے کو
خاص طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جب کوئی باپ اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات
پوری نہ کرسکے، قلیل تنخواہ اور لامحدود اخراجات میں فرق روز بروز بڑھتا
چلا جائے تو وہ خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیتا ہے، جب
کوئی باپ یا بھائی اپنی جوان بیٹی یا بہن کو بڑھاپے کی دہلیز پر پاتا ہے
اور اس میں اتنی مالی سکت نہیں ہوتی کہ اس کے ہاتھ پیلے کرسکے نیز اسی وجہ
سے جب وہ بیٹی، وہ بہن اپنا جہیز خود ”کمانے“ کی ٹھان لے تو حالات ایسے ہی
رخ پر جانا شروع کردیتے ہیں جس طرح آجکل پاکستان میں ہوچکے ہیں۔ پاکستان
میں قائم مرکزی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں عوام کے دکھ درد سمیٹنے اور
ان کو ریلیف دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں لیکن حکومت میں شامل جماعتوں کے
اکابرین، وزرا، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدر ، سب کے کاروبار
دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کی منازل طے کررہے ہیں، ان کی سیاستیں بھی چمک
رہی ہیں، ان کے بنک بیلنس میں بھی اضافے ہورہے ہیں اور وہ دن بدن عروج کی
جانب گامزن ہیں۔ اگر حج سکینڈل اور ناقص ادویات کے معاملے میں وزیر اعظم کے
بیٹوں کے نام آتے ہیں تو پولٹری کی صنعت پر وزیر اعلیٰ کے بیٹے چھا رہے
ہیں، اگر بلوچستان میں اغواءبرائے تاوان میں صوبائی وزیروں کے ملوث ہونے کے
ثبوت سامنے آرہے ہیں تو رینٹل پاور کیسز میں وفاقی وزیروں کے نام قرعہ کمشن
نکل رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب کچھ شعبہ جات کو ”صنعت“ کا درجہ حاصل نہیں ہوتا تھالیکن
جیسے جیسے ان شعبوں نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں، ویسے ویسے ان کو
صنعتوں کا درجہ دینے کا کام شروع ہوگیا۔ مثال کے طور پر کیبل کے کام کو کچھ
عرصہ پیشتر تک پاکستان میں صنعت کا درجہ حاصل نہیں تھا لیکن اب ہے، کچھ
عرصہ پیشتر تک الیکٹرانک میڈیا بھی اس درجے سے محروم تھا لیکن اب اسے بھی
تقریباً ”صنعت“ کا درجہ دیا جاچکا ہے اسی طرح کچھ اور شعبہ ہائے زندگی ہیں
جو آہستہ آہستہ ایسے مدارج طے کررہے ہیں۔
خودکشیوں کی موجودہ رفتار اور ان کی رفتار کو مزید تیز کرنے والے عوامل کی
شاندار دستیابی نے ”خودکشی“ کو بھی تقریباً صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ ظاہر
ہے جب ایک چیز یہ درجہ پا لیتی ہے تو اس کے لئے وزارت بھی تشکیل دی جاتی
ہے، چنانچہ اب پاکستان کی مرکزی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں میں یہ
وزارت تشکیل دی جانی از حد ضروری ہے۔ جیسا کہ کالم کے عنوان سے واضح ہے کہ
وزارت ”خودکشیات“ کے لئے کم از کم پانچ وزیروں کی فوری ضرورت ہے، ایک مرکزی
وزیر اور چار صوبائی وزراءکی....! جس طرح پنجاب میں بہت ساری وزارتیں ”شریف
اعلیٰ“ نے سنبھال رکھی ہیں اسی طرح اگر پنجاب میں یہ وزارت بھی انہی کے پاس
رہے تو کوئی حرج نہیں، جس طرح کی کارکردگی انہوں نے بطور ”وزیر صحت“ ڈینگی
اور پی آئی سی کے معاملات میں دکھائی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وزارت
”خودکشیات“ کے لئے پنجاب میں ان سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ سندھ میں
یہ وزارت متحدہ کے کسی بھی موزوں امیدوار یا وزیر اعلیٰ سندھ کو دی جاسکتی
ہے لیکن اگر کوئی نام موزوں نہ لگے تو شرمیلا فاروقی کو بھی آزمایا جاسکتا
ہے، کچھ لوگ تو انہیں دیکھ کر ویسے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں کہ بس
ابھی مرے، ابھی خود کشی کو دوڑے۔ بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی بھی یہ
وزارت اپنے پاس رکھ سکتے ہیں کیونکہ اچھے بھلے عقلمند آدمی کا بھی ان کی
باتیں سن کر خواہ مخواہ خود کشی کرنے کو دل کرنے لگ جاتا ہے۔ کے پی کے میں
یہ کام مولانا فضل الرحمان ،ان کے کسی قریبی رفیق یا ریلوے کے مشہور زمانہ
”وزیر بیڑہ غرق“ بلور صاحب سے لیا جاسکتا ہے، ویسے دونوں مرکز میں بھی اسی
وزارت کے اہل ہیں لیکن مرکز میں تو ایک سے بڑھ کر ایک بڑے نام بیٹھے ہیں،
یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مولانا بہرحال ان کا مقابلہ شائد نہ
کرسکیں۔ مرکز کے لئے میرے ذہن میں تین چار نام ہیں۔ ڈاکٹر عاصم، سابقہ وزیر
رینٹل راجہ صاحب، رحمان ملک، بابر اعوان، وزیر اعظم گیلانی خود، یہاں یہ
مسئلہ آن پڑا ہے کہ صدر مملکت بطور ”وزیر“ شائد آئینی طور پر کام نہ
کرسکیں، ورنہ وہ اس وزارت کے سب سے مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں ویسے 1973 کے
آئین کے مطابق صدر صاحب کی اس وزارت کے لئے اہلیت کے بارے میں علامہ اعتزاز
احسن یا آئینی ماہر مولانا فضل الرحمان سے استفسار کیا جاسکتا ہے۔ میرا ایک
دوست تو کہتا ہے کہ اس وزارت کے لئے بڑے ”میاں“صاحب کا نام بھی زیر غور آنا
چاہئے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ”پردیس مشرف“ کو جس باعزت طریقہ سے
”ایکسپورٹ“کیا گیا تھا اسی طرح وطن واپس بلاکر یہ وزارت اسے سونپی جاسکتی
ہے، ایک اور خیال یہ ہے کہ یہ کام الطاف ”بھائی“ سے بھی لیا جاسکتا ہے
کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے خود کشی سنٹرز (ٹارچر سیلوں) سے بخوبی آگاہ ہیں۔
قارئین! آپ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا کہ مرکز اور چاروں صوبوں میں
کون اس وزارت کا حقیقی امیدوار ہوسکتا ہے، میری رائے یقینا ناقص ہے، آپ اس
وزارت اور وزارت کے امیدواروںکے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ |