2 اپریل کو محترم رحمٰن ملک صاحب
نے اتنی بریکنگ نیوز ”چھوڑیں“ کہ میڈیا پاگل ہوتے ہوتے بچا۔ حق تو یہ تھا
کہ ملک صاحب یہ نیوز یکم اپریل کو چھوڑتے لیکن جنہیں ”لمبی لمبی چھوڑنے“ کی
عادت پڑ چکی ہو وہ بے موقع بھی چھوڑتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملک
صاحب نے یہ سوچا ہو کہ اس ”فول“ قوم کے لئے ہر دن ہی ”فرسٹ اپریل“ ہوتا ہے
۔ بہر حال جو بھی ہے پہلے بریکنگ نیوز سن لیجئے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ ”لیاری میں حالات معمول پر ہیں“۔ عین اسی وقت جب قوم
ملک صاحب کے ارشاداتِ عالیہ سے مستفید ہو رہی تھی ، لیاری میدانِ جنگ کا
منظر پیش کر رہا تھا اور پانچ قتل ہو چُکے تھے ۔ شاید ملک صاحب کے نزدیک
پانچ ، چھ حشرات الارض کے مسلے جانے کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔۔۔۔۔ دوسری
بریکنگ نیوز یہ کہ ”ایم۔کیو۔ایم اور اے۔این۔پی میں کوئی لڑائی نہیں “ ہم
بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کوئی ذاتی لڑائی نہیں ۔ اصل لڑائی تو ”بھتہ“
اکٹھا کرنے کی ہے ۔ کراچی کی بے تاج بادشاہ ایم۔کیو۔ایم بھلا کیسے برداشت
کرے کہ اس کے ”قانونی بھتے“ میں سے ”کوئی ایرا غیرا ، نتھو خیرا “ حصّہ دار
بننے کی کوشش کرے ۔ اُدھر واسکٹ والے سیّد صاحب کا یہ فرمان کہ ”حقِ شاہی“
تو ادا کرنا ہی ہو گا ۔ انہوں نے اس ”شاہی“ کے حصول کے لئے بڑے پاپڑ بیلے
ہیں ۔ رکشا ڈرائیوری سے سینیٹر تک کے سفر میں کتنے کٹھن مقام آئے ، یہ کوئی
ان سے پوچھے ۔ اب جب کہ انہوں نے کراچی کو پختونوں کے سب سے بڑے پاکستانی
شہر میں ڈھال دیا ہے تو پھر وہ اپنا ”حق“ کیوں چھوڑیں ؟۔اگر ایم۔کیو۔ایم
اور اے۔این۔پی اپنا اپنا حصّہ لیتے ہیں تو بیچارے لیاری والوں کا کیا قصور
؟۔ وہ تو خدمتِ خلق کا جذبہ لے کر نکلے اور ”پیپلز امن کمیٹی“ تشکیل دی ۔
ظاہر ہے کہ جذبہ خدمت سے معمور امن کمیٹی کو اپنے عظیم مقاصدکی تکمیل کے
لئے پیسہ درکار ہے ۔ ان کی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ ایدھی کی طرح کشکول
اٹھا کر بھیک مانگتے پھریں ۔ ایدھی تو بوڑھے ، لاغر اور کمزور ہیں جبکہ یہ
کڑیل جوان ۔ اس لئے جو نہ دے اُس کی ایسی کی تیسی۔
تیسری بریکنگ نہیں بلکہ ” تڑی نیوز“ یہ کہ ”میڈیا غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ
سے باز آ جائے ۔ میں نے غلط رپورٹنگ کی مانیٹرنگ کے لئے پیمرا کو خط لکھ
دیا ہے“۔ یہ خبر سُن کر پہلے تو ہمارا سر گھوما پھر پاؤں تلے سے زمین سرکتی
ہوئی محسوس ہوئی اور پھر ہم جلدی سے بیڈ پر ”ڈھے“ گئے ۔ میری زرد رنگت اور
سہما سہما چہرا دیکھ کر میاں نے پریشانی سے پوچھا کہ کیا ہوا؟۔ میں نے جب
انہیں وہ خوفناک خبر سنائی تو وہ مسکرا کر بولے ”مانا کہ تم جو کچھ لکھتی
ہو وہ سرا سر جھوٹ ، بکواس اور بہتان طرازی کے زمرے میں آتا ہے لیکن یہ
رپورٹنگ نہیں اس لئے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ، گھبرائیں اخبارات اور
نیوز چینلز کے مالکان یا اینکرز ۔ تمہیں کیا ۔ یہ سن کر میری جان میں جان
آئی لیکن اب فکر اس بات کی تھی کہ جو پروگرام میں بڑے شوق سے دیکھتی ہوں ،
کہیں وہ بند نہ ہو جائے ۔مجھے تو اب محترم جنید سلیم کے بہت ہی عزیز
”عزیزی“ کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے ۔ ان کی ”شیش ناگ“ جیسی مخبریاں تو
’پیمرا“ کی زد میں آوے ای آوے ۔ اگر عزیزی نہ ہوئے پھر جلترنگ کی سی ہنسی
کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ویسے جنید سلیم صاحب بھی کم کائیاں نہیں ۔
ہنستے ہنستے ایسے ایسے انکشافات کر جاتے ہیں کہ ”اللہ توبہ“ ۔ ۔۔۔۔۔۔ بہر
حال مشتری ہو شیار باش پھر نہ کہنا ۔۔۔۔۔۔
کالم لکھنے کے دوران ہی خبر آئی کہ امریکہ نے جماعت الدعوہ کے حافظ سعید
صاحب کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر یعنی لگ بھگ ایک ارب روپئے مقرر کر دی ہے
۔ ایک نیوز چینل پر حافظ صاحب نے کیا خوب کہا ”احمق امریکیو ! کیا تمہیں یہ
بھی پتہ نہیں کہ سر کی قیمت تو اس شخص کی مقرر کی جاتی ہے جو مفقود الخبر
ہو ۔ میں تو گلیوں کا آدمی ہوں ۔ ہر وقت گھر سے باہر ہر کسی کو نظر آتا
ہوں“۔ جو کچھ کہتا ہوں ، برملا کہتا ہوں اور لاکھوں کے مجمعے میں کہتا
ہوں“۔۔۔۔۔ میں سمجھتی ہوں کہ در اصل یہ پاکستان کو امریکہ کی براہِ راست
دھمکی ہے ۔ نیٹو سپلائی کا معاملہ پارلیمنٹ میں ہے اور یہ سپلائی امریکہ کے
لئے زندگی موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے جبکہ دفاعِ پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم
پر یہ بر ملا اعلان کیا جا چکا ہے کہ نیٹو سپلائی بحالی کی مزاحمت کی جائے
گی ۔ اگر ہم واقعی ایک خود مختار قوم ہیں توہمیں یہ اختیار بھی ہے کہ ہم
اپنی قومی سلامتی کے فیصلے خود کریں۔ اگر ہمیں اتنا بھی اختیار نہیں تو پھر
امریکہ ہمیں اپنی ”کالونی“ کا درجہ کیوں نہیں دے دیتا کہ ”نہ رہے بانس ، نہ
بجے بانسری“ ۔۔۔۔ اور امریکی ویزہ مفت ۔۔۔۔ پھر ہم کم از کم من موہن سنگھ
کو یہ تڑی تو لگا سکتے ہیں کہ خبر دار! اگر ہم امریکیوں سے پنگا لیا تو ہم
تمہیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے۔
لیکن اگر ہمارے حکمرانوں میں رتی بھر بھی غیرت و حمیّت ہے تو انہیں اوباما
کے سر کی قیمت ایک ارب ڈالر مقرر کر دینی چاہیے اور درجہ بدرجہ باقی
”معتبروں“ کے سر کی بھی ۔ البتہ ہیلری کلنٹن کو معاف کر دیا جائے ۔ آپ سوچ
رہے ہوں گے کہ چونکہ میں عورت ہوں اس لئے عورت کے حق میں ڈنڈی مار رہی ہوں
، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام میں عورتوں ، بچوں
اور بوڑھوں کو معاف کر دینے کا حکم ہے ۔ اول تو یہ نا ممکنات میں سے ہے
لیکن پھر بھی اگر کوئی سر پھرا ابامہ کا سر لے آئے تو ہمارے حکمران اسے کہہ
سکتے ہیں کہ ” احمق ہو تم جو ہم پہ اعتبار کر لیا ۔ ایسے ”رو سیاہ“ کا بھلا
ہم کیا کریں گے ؟۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہم تو خودکشکولِ گدائی لئے در بدر
پھر رہے ہیں “۔ ہمارے حافظ صاحب کو تو ”ستے خیراں“ ہیں اور انشا اللہ رہیں
گی البتہ پی۔پی۔پی کے ندیم افضل چن کی یہ بات حافظ صاحب کو پلے باندھ لینی
چاہیے کہ انہیں اعجاز الحق اور شیخ رشید جیسے لوگوں سے بچ کے رہنا ہو گا
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ان کے سر کے پیسے کھرے کر لیں ۔
قارئین ! ایک آزاد شہری جسے اعلیٰ ترین عدلیہ تک مکمل طور پر شفاف اور بے
گناہ قرار دے چکی ہے ، جس کے پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے تمام ادارے
گورنمنٹ کے منظور شُدہ ہیں اور جس کا پاکستان ، استحکامِ پاکستان اور نظر
یہ پاکستان پر پُختہ یقین ہے امریکہ اُس کے سر کی قیمت مقرر کر دیتا ہے اور
قوم کی طرف سے کوئی احتجاجی سسکاری تک سنائی نہیں دیتی ۔ کیا ایسی قوم کو
زندہ قوم کہلانے کا حق ہے ؟۔ حکمرانوں کو تو چھوڑئے کہ وہ تو ہیں ہی ایسے
لیکن مجھے تو زندگی میں پہلی بار اپنے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس ہو رہی
ہے ۔۔۔۔۔ قوم کو کیا کہوں؟۔ |