وطن کاچہر ہ ایک بار پھر لہو لہو
ہے ۔ بلوچستان ، ڈرون حملوں اور لاپتہ افراد کا نوحہ کیا کم تھا کہ اب
کراچی کے کوچہ و بازار بھی انسانوں لاشوں سے اٹے پڑے ہیں ،وطن عزیز کے
معاشی Hub کراچی کی سنگین تر ہوتی صورتحال کا ادراک کوئی ایک بھی حکومتی
نمائندہ یا سرکاری کارندہ نہیں کر پا رہا،روشنیوں میں گھرا شہر اب آگ وخون
میں گھر چکا ، شہر قائد اس قدر زخم خورہ ہو چکا کہ اس کے درد کی شدت پوری
دھرتی پر محسوس کی جا رہی ہے ،منی پاکستان فریاد کناں ہے کہ آخر میرے بدن
کو تار تار کر دینے والے یہ انسان نما بھیڑیے کون ہیں کہ جن کو منہ کو
انسانی خون کا چسکا پڑ چکا ہے ؟ یہ چوکوں ، شاہراہوں پر دندناتے مسلح جتھے
آخر کار چاہتے کیا ہے ؟ یہ کون موت کے سوداگر ہیں جو پلک جھپکتے ہی پورے
شہر کا امن تہہ وبالا کر کے رکھ دیتے ہیں اور اپنے آقاﺅں کا اشارہ ملتے ہیں
ایک دم منظر نامے سے غائب سے ہو جاتے ہیں؟شہر ِ کراچی کو دکھ اس بات کا بھی
ہے کہ اسے اپنے مجرم کا چہرہ شناخت کرنے میں بھی اک مدت طویل درکا ر ہے،
آخرشہر کے باسی کس کی طرف اشارہ کریں ، ڈر ہے کہ جس جماعت یا گروہ کی جانب
بھی آنکھ اٹھائی گئی پھر وہ آنکھ اس چہر ے میں نہیں رہے گی ، بھلا بتائیے
کہ خوف و ہراس اور سراسیمگی کی اس فضاء میں کون ایساماں کا لعل ہے جو قاتل
کو ”قاتل“ اور دہشت پسندکو” دہشت گرد“ کہنے کی جسارت کر سکتا ہو ؟ دوسری
جانب اقتدار کے ایوانوں میں تو حق اور سچ کہنے والوں کا کب سے قحط پڑچکا ہے
اور در اصل یہی تو وہ لوگ ہیں جومملکت خدادادکو اپنی کو رنگاہی اور ژولیدہ
فکری کی بناءپر عدم استحکام کی راہ پر ڈا ل کر اسے متزلزل کیے جار ہے ہیں ،
ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور آگئی ہے جن کا حکمت اور دانش
سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ،جب بصیرت و بصارت اور حکمت و دانش کو مفاد
پرستی و انا پرستی شکست فاش سے دو چار کرد ے تو لامحالہ قوموں کو ایسے ہی
دن دیکھنے پڑتے ہیں۔ قومی ،ملی وحدت نامی چیز عرصہ ہوا یہاں سے رخصت بھی ہو
چکی مگر ستم ملاحظہ ہو کہ اسے پارہ پارہ کرنے والے آج بھی شاداں و فرحاں
اقتدار کے مزے لوٹتے چلے جا رہے ہیں ، عجب طرح کا طوفان بدتمیزی بر پا ہے ،
کچھ نہیں سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔! لیکن سچ تو بہرحال آشکارا ہو کر رہتا ہے ،کوئی
بولے نہ بولے قلم توہر دور میں اپنا حق ادا کرتا آیا ہے اور اسے خالق ارض و
سماوات نے یہ طاقت بخشی ہے کہ یہ حق اور سچ لکھے بنا نہیں رہ سکتا ، شہر
قائد کی صورتحال بارے کڑوا سچ یہی ہے کہ در حقیقت کراچی پر قبضے کی خواہش
مند تین بڑی جماعتوں اے این پی ، ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور دیگر
گروہوں کی باہمی لڑائی میں ہی عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد لقمہ اجل بن رہی
ہے اور یہ تمام گروہ اپنا خونی چہرہ چھپانے کی خاطرکوششوں میں لگے ہوئے ہیں
،کراچی پر کنٹرول کرنے کی ناآسودہ خواہشات کس کس کو ایک دوسرے کے خلاف
مورچہ زن ہوکر خون بہانے پر مجبور کررہی ہے یہ ہر ایک کے علم میں ہے یہی
وجہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ نہایت سطحی نوعیت کی بیان باز ی کے
علاوہ کراچی کے حالات میں سدھارلانے میں قطعا مخلص نہیں ، جب حکومت اور اس
کی اتحادی جماعتیں ہیں خونی سیاست کو پروان چڑھاتے ہوئے کراچی کو مقتل گاہ
بنانے کا ارادہ کر چکی ہوں تو بتائیے کہ ان حالات کو بھلا کس طرح درست کیا
جا سکتا ہے ؟ اب تو خدشہ ہے کہ عروس البلاد کراچی پر قبضہ جمانے کی خواہش
مندپارٹیوں کا اگلا ہدف سندھ پر قبضے کرنے کا بھی ہو سکتا ہے اور الگ صوبہ
کے نام پر یہ لگائی گئی آگ سندھ بھر میں پھیل سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے
راہنما فیصل سبز واری ، اے این پی کے پرویز خان اور پی پی پی قیادت کا ایک
ہی بیان ہے کہ ”ہم امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں“ ،اب ان جماعتوں کی اس
سنجیدگی میں کہاں تک دیانت اور حب الوطنی کا عنصر موجود ہے اس کا اندازہ
وہاں کی خونی سیاست سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے ، شہر قائد کے ان حالات کو
پیش نظر رکھتے ہوئے ایک لیاری نہیں پورے کراچی میں ہی فوجی ایکشن کی ضرورت
ہے ، نبیل گبول کی یہ بات بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ کراچی میں اتنا اسلحہ
موجود ہے کہ اتنا وزیرستان میں بھی نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پولیس یا رینجرز
کا ان شرپسندوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور جب یہ دونوں ادارے ہی دہشت پسندوں
کے آگے محض مذاق بن کررہ گئے ہوں تو پھر عوام کی آس و امید بھری نگاہیں فوج
پر ہی آکر ٹھہرتی ہے ۔یہ معصوم عوام کے گلے کاٹنے والے خونی درندے فوجی
ایکشن کے آگے ایک دن بھی ٹھہر گئے تو بڑی بات ہوگی لیکن مسئلہ پھر یہی آڑے
آرہا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟ کیونکہ اس فوج کو بھی آرڈر
تو ہمارے سپریم کمانڈر آصف علی زرداری نے دینا ہے اور وہ گیلانی کی سوئس
چٹھی کی طرح پھانسی کے پھندے پر جھول سکتے ہیں مگر کراچی کو فوج کے حوالے
کر کے اپنے دوستوں کو ناراض کر نے کی تاریخی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔بات
وہی ہے کہ جب تک ہم خواہشات اور ذاتی مفادات کے اسیروں کو اقتدار تک
پہنچاتے رہیں گے لا محالہ اس کے مضر اثرات بھی بھگتتے رہیں گے ، نتیجتاً
امن جیسی شے دھرتی سے عنقا ہو تی چلی جائے گی جس کی انتہاءخاکم بدہن، کسی
بڑے انسانی المیے پر ہی ہوگی۔ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر حبیب جالب نے یہ اشعار
کہے تھے جو کراچی کی ان دہشت پسند جماعتوں کے نام کرنے کو جی چاہتا ہے جو
اپنی غلط پالیسیوں کی بدولت نہایت غلط اور بھیانک سمت سفر کر رہی ہیں
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو |