سانحات

پچھلے کچھ دنوں سے دل اچاٹ سا ہو گیا تھا ، دلِ مضطرب کو بہت سمجھایاکہ کسی بات کا تو اثر لے، تب جا کر اس نے کہیں حامی بھری اور دماغ تھوڑا معطر ہوا ہی تھاکہ دل کا پھر وہی رونا ہمیں لے بیٹھا ہے۔ سانحات کوئی نئی چیز نہیں اور انسان سے ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہم سانحات کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں یہ ہم پر منحصر ہے، کبھی ہم ان سانحات سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مستقبل کی کامیابیوں کے لئے ان سانحات میں راہیں تلاش کرتے ہیں اور کبھی ہم انہیں دل سے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور نہ حال کے رہتے ہیں نہ مستقبل کے۔ کبھی کبھی ہم سانحہ کو سانحہ ہی نہیں سمجھتے لیکن ایسے سانحات اپنے اندر ایک طوفان لیے ہوتے ہیں ۔کسی سانحہ کا بار بار وقوع پزیر ہوناکسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ہم قومی سطح پر ایسے ہی کئی سانحات سے کوئی سبق حاصل نہ کر سکے ، اندرون خانہ تو ہر شخص سانحات کہ ایک لمبی فہرست نکال کر لے آتا ہے جن سے ہم کبھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

وطن عزیز اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے جہاں دہشت گردی، بےروزگاری، مہنگائی اور دیگر اس طرح کے عوامل نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے تو وہاں ان سب مسائل سے نمٹنے کے لئے ہم لوگ سیاسی انحطاط کا بھی شکار ہیں۔کہنے کو تو پاکستان میں شاید دوسرے تمام ممالک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور جمہوریت بھی راج کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود جمہور کا خانہ خراب ہے۔کچھ دن پہلے کوہستان کے علاقے میں ایک واقع رونما ہوا جس میں اٹھارہ کے قریب لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر سڑک کے کنارے قتل کر دیا گیااور اس کے بعد چلاس میں کئی لوگوں کی جانوں کے ضیاع اور پچاس کے قریب لوگوں کی گمشدگی، یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے پارہ چنار سے لے کر کوئٹہ اور کوئٹہ سے اب گلگت تک ، پورے ملک میں یکساں نوعیت کی پروان چڑھتی ہوئی یہ سوچ یہودیوں کے اس نظریے سے مطابقت رکھتی ہے کہ جس کے تحت یہودیوں کے سوا باقی تمام انسان حقیر مخلوق ہیں اور یہ یہودیوں کے تصرف کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، ان کے جان و مال یہودیوں کے تصرف کے لئے ہیں وہ جسے جب چاہیں مار دیں یا لوٹ لیں یہ سب ان کے لئے جائز ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں تو یہودی نہیں بستے ، پھر اس سوچ کے پاکستان میں پنپنے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسی سر زمین ہے جس پر عالمی طاقتوں کو ہر قسم کا خام مال ہر وقت دستیاب رہا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی سے لے کر دنیا میں اسلام کے نام پر جنگ و جدل کے ذریعے فتح کے جھنڈے گاڑنے والے نام نہاد مجاہد تک، علاقائی حقوق کے تحفظ سے لے کر ذاتی حقوق کے چمپئن ، الغرض جہاں بھی جیسے بھی مقصد کے حصول کے لیے عالمی طاقتوں کو خطے میں افرادی قوت کی ضرورت محسوس ہوئی یہاں کے باسیوں نے ان کی اس کمی کو باعوض پورا کیا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اکثریت اصل حدف کے حصول کے لئے تو لڑ مری لیکن مقصد سے انجان رہی۔

اسلام وہ مذہب ہے کہ دوران جنگ میدان میں تلوار پھینک دینے والے کو بھی معاف کر دیا جاتا ہے۔ دوران جنگ دشمن تھوک دیتا ہے تو اس خدشے کے تحت چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس میں میرا ذاتی عناد شامل نہ ہوجائے۔اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور انہیں مکمل مذہبی آزادی ، اسلام کے ہی ایسے درخشاں اصول ہیں کہ جنہیں غیر مذہب بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اسلام کے نام پر یہود کے ایجنڈے پر کار فرما مسلمان کم از کم یہ تو سوچیں کہ جو انہیں کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں؟ ایک طرف تو کسی ایک غیر مسلم کے مسلمان ہونے پر جشن منائے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف چھوٹے موٹے مولویوں، پیروں اور نام نہاد علماءکی باتوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو ہی کافر قرار دینے کے فتوے صادر کئے جاتے ہیں۔ خدااور رسول ﷺ کے احکامات کو گویا ثانوی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ یہی روش ہمیں دن بدن تنزلی کی طرف لے جا رہی ہے۔

سندھ سے ہندوؤں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا جائے یا دوسری طرف ایک اسلامی ملک سے ہی مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا جائے جیسے بلوچستان سے ہزارہ برادری ، کیونکہ شیعہ مسلک کو ابھی تک کافر ڈیکلئرکروانا بہرحال باقی ہے، سمندر پار کے کسی ملک میں ہونے والے غدر کو بنیاد بنا کر اپنے ملک میں فرقہ پرستی کو ہوا دے کر پورے ملک کہ امن کو تہہ و بالا کرنے کی دھمکیاں دی جائیں، کیا یہ اسلامی تعلیمات ہیں یا اسلام کی بقاءاس امر میں پوشیدہ ہے؟

یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ انسانوں کے لئے بھی نفرت کے کیسے کیسے بیج بوئے ہیں فصل تیار ہے اور اب اس کی کاشت کا موسم دن بدن قریب تر ہوتا جا رہا ہے لیکن ہم ایسی نقصان دہ فصل کو تلف کرنے کے بجائے اس سے منافع کے طلبگار ہیں۔

حد یہ ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں بھی ایسے سازشی عناصر کی زد میں ہیں اور ایسے لشکروں اور قتل و غارت گری کو جائز قرار دینے والی جماعتوں میں پناہ کے لئے سرگرداں ہیں۔ اپنے نفس کے خلاف جہاد عظیم کو چھوڑ کر جہاد کی ایک ایسی صورت متعارف کر وا دی گئی ہے کہ جس پر مالی منفعت کے بغیر یقین کرنا ناممکن ہے جن لوگوں کی مالیات کو اس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے وہ اس کا حصہ ہیں۔ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسا کوئی شعبہ نہیں ہوتا جو کم از کم جماعت کے اندر سیاسی کارکنوں میں سیاسی ادراک پیدا کرے، قبضہ مافیا کی سی صورت حال ہے کہ ہر صورت قبضہ کرنا ہے ، لوگوں کے دلوں میں کس طرح جگہ بنائی جا سکتی ہے اس سوچ کو سوچنا وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔

عرب ریاستوں میں ہلچل مچانے کے بعد سامراج کے کالے بادلوں کا رخ ہماری سرزمین کی طرف ہے ہم دن بدن تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں ہماری نظر نہ اپنے گریبان میں پڑتی ہے اور نہ سامنے کے شناسا چہرے کے عقب میں چھپے اس مکروہ چہرے کو دیکھ سکتی ہے جو سازشوں کے جال مسلسل بچھائے جا رہا ہے۔صبر رخصت ہو چکا ہے۔ باہمی جھگڑوں کے خاتمے کا واحد حل مخالف کا سرتن سے جدا دیکھنا ہے۔

حادثات اگر تسلسل اختیار کر جائیں تو سانحات جنم لیتے ہیں اور اگر سانحات تسلسل اختیار کر جائیں تو دنیا فانی ہے ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے قوموں کی موت نئی دنیا کی آبادکاری کے لئے خام مال کا ذخیرہ ہوتی ہے لیکن ہر ذی روح کو صرف ایک بار زندگی ملتی ہے اور اس کی جوابدہی پتھر پر لکیر ہے ۔
Azhar Ul Hassan
About the Author: Azhar Ul Hassan Read More Articles by Azhar Ul Hassan: 16 Articles with 15221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.