گلگت بلتستان سے کراچی، بلوچستان
سے خیبر پختونخوا، سندھ سے قبائل تک پاکستان مکمل طور پر حالت جنگ میں ہے،
ہر طرف افراتفری ، خلفشار اور غیر یقینی صورت حال کے باعث عوام انتہائی
پریشان ہیں، مگر ان سب باتوں کا ادراک یا علم ایوان صدر اور حفاظتی حصار
میں میں بیٹھے صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں کو نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ
ان مسائل کے حل پر توجہ دینے کی بجائے پنجاب جا کر گڑھے مردے اکھاڑنے
اورمردوں تک کو معاف نہ کرنے میں مصروف ہیں،غالباً یہ اقتدار کا نشہ ہے ۔
جب گلگت بلتستان جل رہا تھا، اس وقت صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی،بلاول
زرداری، گلگت بلتستان کے مبینہ گورنر ، وزیراعلیٰ ،وزرا اور عوامی نمایندے
لاڑکانہ میں بھٹو کی برسی کے موقع پر عدلیہ کو لتاڑنے میں مصروف تھے۔
گلگت بلتستان میں 3 اپریل 2012ءسے شروع ہونے والے فسادات ختم ہونے کا نام
نہیں لے رہے، جس کے نتیجے میں تادم تحریر (7اپریل شام تک)25 افراد جاں بحق
اور100 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں ،جب کہ 36سے120 افراد کے اغوا کیے جانے کے
دعوے بھی کیے جارہے ہیں ۔اس سنگین صورت حال میں گلگت بلتستان 20 لاکھ عوام
محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ خطے میں فرقہ وارانہ فسادات نے نفرت کی دیواریں
کھڑی کردی ہیں۔ فرقہ واریت کے جن نے گلگت شہر کے 6 کلومیٹر سے نکل کر
28ہزار مربع میل پر مشتمل پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ،اب اس کے
قدم پاکستان کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔یہ فسادات بظاہر فرقہ وارانہ ہیں، لیکن
ان کا براہ راست پاکستان اور گلگت بلتستان کی سیاست سے گہرا تعلق ہے۔
1988ءکے سانحے کے بعد اس خطے میں دو بڑے مکاتب فکر اہلسنت اور اہل تشیع کے
درمیان سخت کشیدگی پیدا ہوئی، جس کے اثرات تقریباً 11 سال تک رہے لیکن وقت
کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آتی رہی ۔ 1999ءمیں قائم ہونے والی مقامی حکومت نے
اس کشیدگی کے خاتمے میںاہم کردار ادا کیا۔اس لیے 1999ءسے 2004ءتک کا دور
کافی خوشگوار رہا۔ اس ضمن میں اس وقت کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو فدا محمد ناشاد
اور اسپیکر گلگت بلتستان کونسل حاجی صاحب خان، اور دیگر ارکان کونسل کا
کردار قابل تحسین رہا،جس سے خطے میں باہمی تعاون اور اعتماد کی فضا قائم
ہوئی ۔
جنوری 2005ءکے سانحے اور اس کے سخت ردعمل نے ایک مرتبہ پھر اس خطے کو آگ
میں جھونک دیا ، جس سے تقسیم اور کشیدگی کا سلسلہ شروع ہوا ، جو ختم ہونے
کا نام نہیں لے رہا ہے۔ 2009ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خطے کے لیے نام
نہاد صوبائی سیٹ اپ اور انتظامی پیکیج کے اعلان نے گلگت بلتستان کو میدان
جنگ بنادیا، کیوں کہ اس پیکیج کی تیاری میں مقامی عوام کو اعتماد میں لیا
گیا اور نہ ہی مسائل کو مدنظر رکھا گیا۔ صدر زرداری، قمر زمان کائرہ اور ان
کے ساتھیوں نے 2009ءکے الیکشن میں سیاسی فوائد کے لیے گلگت بلتستان میں آگ
لگادی، ان کے عمل سے اہلسنت میں یہ تاثر قائم ہوا کہ پیکیج کے ذریعے انہیں
حکومت اور انتظامی اداروں سے دور رکھنے اور دیوار سے لگانے کی سازش کی گئی
ہے۔وہ مسلسل احتجاج بھی کرتے رہے لیکن کسی نے اس وقت ان کی سننی تھی اور نہ
سنی،جبکہ قوم پرست بھی سخت مخالفت کرتے رہے۔
28 فروری2012 ءکوسانحہ کوہستان میں مذہبی نشاندہی کرکے مسافروں کے ظالمانہ
قتل اور ردعمل نے خطے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ہر سطح پر اس عمل کی
مذمت کی گئی اور بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا ،جب کہ چلاس اور کوہستان کے
عمائدین نے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کا
عزم کیا، لیکن بدقسمتی سے وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کے جن ناپاک
قدموں نے، کراچی سے لے کر خیبر پختونخوا، قبائل سے لے کر بلوچستان اور
اسلام آباد سے پنجاب تک پورے ملک کو میدان جنگ میں تبدیل کیا تھا، گلگت
بلتستان کو بھی اسی آگ میں جھونک دیا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ کوہستان کے بعد اس کے تدارک اور ازالے کی بجائے
یک طرفہ اقدام کے ذریعے حالات کو مزید کشیدہ بنادیا۔ اور ایسا تاثر قائم
کیا کہ وہ ہر اس شخص کی بات سننے کے لیے تیار ہیں جو لاٹھی کی زبان استعمال
کرے۔ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو ملنے والی حکومتی امداد کو بھی
پیپلزپارٹی کی مرکزی اور مقامی حکومت نے سیاسی اور مذہبی رنگ دیا۔ وفاقی
وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اور آئی جی
گلگت بلتستان حسین اصغر کے ایک گروپ کے لیے پروٹوکول اور دوسرے گروپ کے لیے
جیل کی سلاخوں کے کردار نے، جلتی پر تیل کا کام کیا۔
رہی سہی کسر مذہبی بنیادوں پر پانچ اور چار نمبر روٹس کے اجرا اور بائیکاٹ
نے نکالی۔ اہل تشیع کی طرف سے سات نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے بیشتر نکات
جائز اور بعض انتہائی نامناسب تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور دیگر نے چارٹر آف
ڈیمانڈ پر غور کرنے کی بجائے حسب معمول دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اسے من
وعن تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جس میں نصاب کی تبدیلی جیسا انتہائی حساس
مطالبہ بھی شامل تھا،جب کہ اہلسنت کا موقف سننے سے ہی انکار کیا گیا۔ سزا
ئے موت پانے والے مجرم کے فرار اور ایک گروپ کے مطالبے پر تنظیم اہلسنت کے
رہنما مولانا عطاءاللہ ثاقب کی یک طرفہ گرفتار ی نے صورت حال کو تباہی تک
پہنچادیا۔ مبینہ جانبدارانہ عمل پر اہلسنت نے بھی احتجاج کیا اور 2
اپریل2012ءتک مولانا کی رہائی، انتظامی پیکیج کے خاتمے اوردیگر مطالبات کی
منظوری کے لیے الٹی میٹم دے دیا۔ بدقسمتی سے احتجاج اور الٹی میٹم کو
سنجیدگی سے لینے کی بجائے وفاقی اور مقامی حکومت کے ذمہ داران بالخصوص
مبینہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر
لاڑکانہ جانے کو اولیت دی انہیں شاید ایسا نہ کرنے پر اپنی اہمیت کا علم
تھا۔
3 اپریل کو مبینہ طور پر اہلسنت کی ریلی پر دہشت گردوں نے دستی بموں سے
حملہ کیا ۔جس کے نتیجے میں 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے 5 زخموں
کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی دیامر کے مختلف
علاقوں میں ہزاروں افراد نے گلگت کی طرف مارچ شروع کیا، کیوں کہ ابتدائی
طور پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی
کہ گلگت میں حکومت اور ایک مکتبہ فکرنے باقاعدہ جنگ شروع کی ہے جس کا نتیجہ
سانحہ چلاس کی صورت میں نکلا۔ سانحہ گلگت صبح 9 بجے اور سانحہ چلاس دوپہر 1
بجے پیش آیا۔ درمیان کے چار گھنٹوں میں حکومت نام کی کوئی چیز کہیں پر بھی
دکھائی نہیں دی جو کسی بھی ردعمل سے بچنے کے لیے مناسب اقدام کرتی۔ اور
نتیجہ گونر فارم کے قریب درجنوں گاڑیوں پر مشتمل کانوائے کو روک کر اہل
تشیع مسافروں کو نشانے کی صورت میں نکلا۔
اس ظالمانہ اور مجرمانہ عمل کے ذریعے 9 افراد موقع پر ہی جاں بحق، جب کہ
تین سے چار افراد کے دریا میں کودنے کی اطلاع ملی تاہم مقامی عمائدین اور
سنجیدہ افرادکی کوششوں سے 200 کے قریب مسافروں کو بچا کر محفوظ مقام پر
منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں چلاس اور دیامر کے علماءوعمائدین نے انہیں بحفاظت
حکام کے حوالے کیا ۔سانحہ چلاس کے ردعمل کے طور پر نگر میں سول جج آیت
اللہ، ڈی ایچ او ڈاکٹر عبدالرشید سمیت گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا سے
تعلق رکھنے والے اہلسنت کے 36 افراد اغوا کیے گئے جو تادم تحریر بازیاب
نہیں ہوسکے، تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ وہ نگر کے سمائر نامی گاﺅں میں موجود
ہیں اور اغوا کنندگان سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
گلگت میں ریلی پر بم حملے کے بعد مقامی انتظامیہ منظر سے غائب ہوگئی۔ کرفیو
کا تو اعلان کردیا گیا لیکن عملاً کہیں کرفیو نظر نہیں آیا پورا شہر گولیوں
کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہا تھا۔ شام 4 بجے کے قریب فوج نے حالات کی سنگینی کو
مدنظر رکھتے ہوئے کنٹرول سنبھالا اور کرفیو میں سختی کی۔ چار دن میں صرف 6
اپریل کو سہ پہر تین سے پانچ بجے دو گھنٹے کا وقفہ دیا گیا۔ افسوس ناک بات
یہ ہے کہ ان حالات اور واقعات میں بات چیت کے ذریعے کشیدگی میں کمی لانے کی
کوشش کی گئی اور نہ ہی مذہبی وسیاسی عمائدین کو اعتماد میں لے کر کوئی قابل
قبول حل تلاش کیا گیاہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بعض قوتیں دانستہ طور پر خطے کے
حالات خراب رکھنا چاہتی ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں گلگت
بلتستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت کو سیاسی نابالغ قرار دے کر اور سیاسی
پیکیج کو ختم کرکے، ماضی کی طرح براہ راست وفاق کے کنٹرول میں دیے جانے کی
بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔یہ نا اہلی کسی اور کی نہیں بلکہ 2009ءمیں قائم
ہونے والی حکومت اور عوامی نمائندوں کی ہے ۔ جنہوں نے تین سال میں عوام کو
فسادات، عدم استحکام، خلفشار اور ظلم کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
پیپلزپارٹی نے2009ءکے الیکشن میں کامیابی کے لیے جونام نہاد انتظامی پیکیج
دیا، وہ عملاً ناکام اور قاتل پہکیج ثابت ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے اس سیاسی
حربے نے گلگت بلتستان کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ پہلے صرف تنظیم اہلسنت
اور قوم پرست اس نظام کو مسترد کرتے تھے، اب انجمن امامیہ کی جانب سے بھی
اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطے میں بعض
عناصر استحصالی سوچ کے حامل اوربعض عدم تحفظ کا شکار ہیں ،خطے کی بقا کے
لیے ان دونوں کا تدارک ضروری ہے ۔اس کے بغیر گلگت بلتستان میں امن قائم
ہوگا اور نہ ہی ترقی ہوسکے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کا دعویٰ ہے کہ تیسری قوت ملوث ہے۔ یہ بات
صحیح ہے مگر وہ تیسری قوت کوئی اور نہیں بلکہ وفاقی وزیر داخلہ اور ان کے
بعض افراد خود ہی ہیں، جو اس خطے میں امن نہیں چاہتے۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے
تو ان تنازعات کو سیاسی اور مذہبی قیادت کے اعتماد کے ذریعے ختم کرتے۔ صدر
زرداری اور ان کے بعض ساتھی یہ بھول جائیں کہ وہ گلگت بلتستان میں فرقہ
وارانہ فسادات کے ذریعے افراد یا کسی ایک طبقے کو فائدہ پہنچا رہے ہیں،
بلکہ اس طرح وہ اپنی سیاسی موت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے
ہیں۔پیپلزپارٹی کی وفاقی اور مقامی حکومت نے گلگت بلتستان میں منافرت کی جو
آگ لگائی ہے، اس کا خاتمہ کسی ایک فرد یا طبقے کی کوشش سے ممکن نہیں ہے ،اس
پر پاکستان کی مذہبی و سیاسی قیادت اور حکومت کو سر جوڑکر غور کرنا ہوگا
اسی میں سب کی بقاہے ۔
موجودہ حالات میں خطے میں امن کے لیے پاکستان اورگلگت بلتستان کی چند بڑی
حکومتی ،مذہبی اور سیاسی شخصیات سنجیدہ کوشش کریں تو تنازع چند ہی گھنٹوں
میں ختم ہوسکتا ہے ۔جن میں بالترتیب چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز
کیانی،صدر آصف علی زرداری،شیعہ علما کونسل کے علامہ ساجد علی نقوی،اہلسنت
والجماعت کے مولانا محمد احمد لدھیانوی ،جمعیت علماءاسلام کے امیر مولانا
فضل الرحمن،مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور گلگت بلتستان کی
شخصیات میں بالترتیب فوج کے فورس کمانڈر،اہل تشیع کے آغا راحت حسین
الحسینی،شیخ حسن جعفری،اہلسنت کے مولانا قاضی نثار احمد نور بخشی مفتی
عبداللہ،اسماعیلی ریجنل کونسل،پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ، گورنر پیر کرم
علی شاہ،شیعہ علما کونسل کے شیخ مرزا علی،مسلم لیگ (ن) کے حافظ حفیظ الرحمن
،جمعیت علماءاسلام کے مولانا عطاءاللہ شہاب،قوم پرست راہنما نواز خان ناجی،
گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے عنایت اللہ شمالی شامل ہیں۔اگر ان راہنماﺅں
نے اپنا اپنا کردار ادا نہیں کیا تو تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
اس مشکل مرحلے پر گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کو نظر انداز کرتے ہوئے
تنہا چھوڑا گیا تو اس کے اثرات پاکستان کے لیے انتہائی سنگین ہوں گے۔
بلاشبہ بعض عناصر خطے میں چین کی موجودگی کے پروپیگنڈے کی بنیاد پر بھارت،
امریکا، اسرائیل اور دیگر اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر سازشوں
میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں یورپ میں کام کرنے والی بعض تنظیمیں بھی سر
فہرست ہیں جو بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کو بے وقوف بنا کر ڈالر
وصول کر رہی ہیں، جب کہ بھارت ان کے اس پروپیگنڈے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور گلگت بلتستان کی حکومتی، مذہبی، سیاسی اور
سماجی قیادت کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے؟ ویسے بھی خطے میں ایک بڑے
مکتبہ فکر کا مقامی انتظامیہ سے مکمل طورپر اعتماد اٹھ چکا ہے۔جنہوں نے
فورس کمانڈر کے ساتھ ملاقات میں بھی واضح کردیا کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان
سید مہدی شاہ اور آئی جی گلگت بلتستان حسین اصغر جانب دار ہیں۔ خطے میں امن
کے لیے ضروری ہے کہ بلا امتیاز، مذہب، ذات، رنگ، نسل آپریشن کیا جائے، چاہے
اس کے لیے ہزاروں افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑے۔ موسم کے
لحاظ سے بھی یہ بہت اچھا موقع ہے۔ فوج اپنی نگرانی میں سخت اور بے رحم
آپریشن کے ذریعے گلگت بلتستان میں موجود اس فرقہ وارانہ ناسور کو ختم
کرسکتی ہے۔ورنہ یہ ناسور گلگت شہر کے 6 کلومیٹر سے نکل کر 28ہزار مربع میل
کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور اب ملک کو لپیٹ میں لیگااور پھر اس خاتمہ
مشکل ہوگا۔ |