جاپانی بھی عجیب قوم ہیں۔ وہ ستم
ڈھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ امریکیوں نے دو ایٹم بم استعمال کرکے
جاپان اور جاپانیوں کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی مگر جاپانی قوم ایسی
لکڑ ہضم پتھر ہضم نِکلی کہ راکھ کے ڈھیر سے نکلی اور ایک بار پھر بھرپور
ترقی سے ہمکنار ہوکر امریکیوں ورطہ حیرت میں ڈالا اور پھر صدمے کے سمندر
میں غرق کردیا!
سائنس دان غیر ارضی مخلوق کی تلاش میں پتہ نہیں کیا کیا جتن کر رہے ہیں۔ یہ
بجائے خود غیر ارضی مخلوق ہونے کی ایک نشانی ہے! کبھی سائنس دانوں نے
جاپانیوں پر غور کیا ہے؟ ہمیں تو جاپانی کہیں سے ارضی مخلوق نہیں لگتے!
دُنیا بھر میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور جاپانی اِن تمام باتوں سے
یکسر لاتعلق ہوکر خاصی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یعنی ارض پر آباد
ہونے کے باوجود وہ مزاجاً غیر ارضی ہیں! ہمیں تو اِس بات پر حیرت ہے کہ
جاپانی ہر وقت ہنستے مُسکراتے کِس طرح ہیں؟ ہمارے ہاں تو ہر وقت ہنسنے کے
لیے آئین کی رُو سے سب سے بڑے منصب پر فائز ہونا ناگزیر ہے!
جاپانی جزیرہ اوکی ناوا دُنیا کا مُنفرد ترین مقام ہے کہ اِس میں 18 ہزار
افراد عمر کی سینچری مکمل کرچکے ہیں۔ 450 افراد ایسے ہیں جن کی عمر 110 سال
سے زائد ہے۔ اگر پوچھیے کہ جناب! اِتنی طویل عمر کا راز کیا ہے تو سادہ سا
جواب ملتا ہے کہ سادہ زندگی گزاریے اور محنت کیجیے۔ جس سادگی کی مدد سے وہ
متواتر جئے ہی جارہے ہیں
اُس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا!
مگر خیز، ہم اِتنے سادہ نہیں کہ اُن کی بات پر یقین کرتے ہوئے سادگی کو
اپنالیں! اب ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اگر محنت سے زندگی کا دورانیہ
بڑھتا ہے تو ہمارے ہاں بے انتہا محنت کرنے والے غریب 50 سال کے ہوتے ہوتے
دُنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کرتے کیوں دکھائی دیتے ہیں؟
مرزا تفصیل بیگ کو جاپانی بہت اچھے لگتے ہیں۔ ہمیں جاپانیوں کے مُقدر پہ
رشک آتا ہے کہ اُنہیں یہ بات معلوم نہیں! یہ بات ہم اِس لیے کر رہے ہیں کہ
مرزا کو ہم بھی بہت اچھے لگتے ہیں اور اِس کا خراج وہ ہمارے معمولات میں
مداخلت کے ذریعے وصول کرتے ہیں! مرزا کو کسی بھی معاملے میں متفق ہونے سے
شدید نفرت ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اِس خصلت کے ساتھ اگر وہ مرزا جاپانی
معاشرے کا رُخ کریں تو بہت سے جاپانی طویل زندگی پر ناگہانی موت کو ترجیح
دیں گے!
مرزا کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ جاپانی بہت محنتی ہیں۔ اب ہم اُنہیں
کیسے سمجھائیں کہ ہمارے لوگ جاپانیوں سے کہیں زیادہ محنتی ہیں۔ جاپانی جتنی
محنت کرتے ہیں اُس سے کہی زیادہ محنت ہمارے مزدور کرتے ہیں تبھی تو 50 سال
کی عمر میں 80 سال کے دکھائی دیتے ہیں! اگر پوری دیانت سے جائزہ لیا جائے
تو ہم آپ اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ جاپانی خاصے سُست الوجود ہیں۔ اچھی
خاصی عمر کو پہنچ کر بوڑھے ہوتے ہیں یعنی مُعمر اور ضعیف ہونے میں خاصا وقت
لیتے ہیں!
ہمارے ہاں لوگ چڑچڑے ہوگئے ہیں تو اِس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ زندگی کا
کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ کب کیا ہو جائے، کس کو خبر۔ ایسے میں اِنسان
جھنجھلائے گا، چڑچڑا ہی تو ہوگا۔ اوکی ناوا کے بزرگوں کو معلوم ہے کہ
اُنہیں جینا ہے، بلکہ جیتے ہی جانا ہے۔ پھر بھلا وہ کیوں چڑچڑے ہونے لگے۔
ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ 90 سال کی عمر میں بھی آپ چاق و چوبند ہیں۔ قابل
رشک صحت کے ساتھ اِتنی طویل عمر کا راز کیا ہے؟ جواب ملا ”مجھے یاد نہیں کہ
مجھے کبھی غُصّہ آیا ہو!“ لو، کرلو بات۔ اِنسان جب اَسّی نوّے سال کا ہو
جائے گا تو اُسے کیا خاک یاد رہے گا کہ کبھی غُصّہ آیا بھی تھا یا نہیں!
ہمارا خیال تو یہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال کی عمر تک تو حافظہ ٹھیک رہتا ہے۔
اگر انسان سو سال کا ہو جائے تو اُسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کبھی پیدا
ہوا تھا! اور جب پیدائش ہی یاد نہ رہے تو مرنے کا خیال کیسے آئے گا! اوکی
ناوا کے بیشتر باشندے اِسی ”حافظاتی“ پیچیدگی میں مبتلا ہیں اور جیے جارہے
ہیں! کہیں ”ختم شُد۔ واپسی“ کا بورڈ نظر آئے تو جینے کا سفر ختم کریں اور
موت کو گلے لگائیں!
اگر عُمر غیر معمولی یعنی خاصی طویل ہو تو بہت کچھ اُلٹ پلٹ جاتا ہے۔ اوکی
ناوا میں جب کوئی 70 سال کی حد کو پہنچتا ہے تب کہا جاتا ہے کہ وہ جوان ہوا
ہے۔ یعنی 60 سال کے بچے ہوتے ہیں۔ تو کیا ہوا؟ ہمارے ہاں بھی 60 سال سے
زائد عمر کے بچے پائے جاتے ہیں اور سیاست میں تو عام ہیں! اور 70 سال کے
ہونے پر اُن کا لڑکپن اسٹارٹ لیتا ہے!
ضیاءجالندھری نے کہا تھا۔
شِدّت کی مُحبت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے
بڑی عمر کے بھی دُکھ بھی بڑے ہیں۔ اگر جوانی 70 سال میں اور بچپن 50 یا 60
سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اوکی ناوا میں 50 سال سے
پہلے کی عمر کیا ”کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے“ کے کھاتے میں
ڈالی جائے گی! ممکن ہے کسی 50 سالہ جاپانی سے آپ کی ملاقات ہو اور وہ آپ کو
بتائے کہ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا، یہ جائزہ لینے آیا ہے کہ اِس دنیا میں
پیدا ہونا چاہیے یا نہیں! جاپانیوں سے تو ہم بھلے کہ چالیس پچاس سال میں
زندگی کی ساری بہاریں دیکھنے کے بعد چُپ چاپ، پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں!
اوکی ناوا کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 80 سال کی عمر میں بھی
روزانہ دس گیارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ اگر کام نہ کریں تو
وقت کیسے کٹے گا؟ ایک تو اللہ نے عمریں ویسے ہی لمبی رکھی ہیں۔ اور اگر لوگ
کام نہ کریں تو گِھسٹ گِھسٹ کر گزرنے والا وقت مزید نہیں کڑے گا سو برس کی
عمر کھنچ کر ڈیڑھ سو برس کی ہو جائے گی!
اوکی ناوا کے لوگ فطرت کے دلدادہ ہیں۔ وہ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں، سبزیاں
اور پھل کھاتے ہیں اور جُوس پینا پسند کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں غُصّہ،
اِشتعال، بے صبری، بے تابی، بے احتیاطی .... غرض کسی بھی نوعیت کا عدم
توازن نام کو نہیں۔ اِنسان کی عُمر غُصّے، اشتعال اور بے صبری کے ہاتھوں کم
ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں احتیاط نہ برتنے سے بھی صحت کی واٹ لگ جاتی ہے اور
اِنسان دُنیا سے بوریا بستر جلد گول کرلیتا ہے! اوکی ناوا کے لوگوں نے طویل
عمر کو یقینی بنانے کی تمام تیاریاں مکمل کی ہیں۔ مگر صاحب! ایک حقیقت ایسی
ہے جو اوکی ناوا میں طویل عمر کو معجزے کے مقام پر پہنچاتی ہے! ہم آپ کو
یاد دِلا دیں کہ اوکی ناوا میں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں! امریکی فوجی
کہیں تعینات ہوں اور وہاں کے لوگ کسی نہ کسی طرح زندہ رہیں، بلکہ بڑی عُمر
پائیں! یہ تو واقعی معجزہ ہوگیا! ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ امریکی فوج نے
اپنا ”جینیاتی کچرا“ جہاں کہیں پھینکا ہے، وہاں بستیاں ویرانوں میں اور
زندگی سراسر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے!
امریکیوں نے اوکی ناوا میں ناکامی کا مُنہ ضرور دیکھا ہے مگر مایوس ہوکر
پیچھے ہٹنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اوکی ناوا کے باشندے فطرت سے بہت قریب ہیں۔
اِس قدر قربت نے اُنہیں فطرت کا غلام بناکر رکھ دیا ہے۔ غلامی کا یہ حِصار
توڑ کر لوگوں کو کم از کم خوراک کے معاملے میں آزاد زندگی کی سہولت فراہم
کے لیے امریکی فاسٹ فوڈ چینز نے اوکی ناوا کا رُخ کیا ہے! اوکی ناوا میں
معمر افراد کی تعداد زیادہ ہے، یعنی اُن کے پاس وقت زیادہ نہیں اِس لیے
امریکی فاسٹ فوڈ کے ذریعے اُنہیں تیزی سے دوسری دنیا تک پہنچانے کی کوشش
شروع کر رہے ہیں!
مرزا تفصیل بیگ کو اوکی ناوا کے باشندوں کی طویل عمر نے بہت متاثر کیا ہے۔
وہ ذرا یہ تو بتائیں کہ جب ہڑتالیں نہ ہوتی ہوں، جلاؤ گھیراؤ نام کی کوئی
چیز نہ ہو، ایوان میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا عمل ٹی وی اسکرین پر
دکھائی نہ دیتا ہو اور ٹی وی چینلز پر گرما گرم سیاسی بحث سنائی نہ دیتی ہو
تو وقت کیسے کاٹا جائے اور اِنسان سو سال جی کر کیا کرے؟
مرزا کو اوکی ناوا کے بزرگ شہریوں سے بڑی عقیدت ہے مگر ایک سوال کا جواب
شاید وہ (اپنا) سَر پھوڑ کر بھی حاصل نہ کرسکیں۔ اوکی ناوا میں طلباءاسکول
سے غائب ہونے کے لیے کس کی ”فوتگی“ کا بہانہ گھڑتے ہوں گے؟ نانا اور دادا
تو وہاں مرنے کا نام بھی نہیں لیتے! جہاں لوگ مرنے سے صاف گریز کرتے ہوں
وہاں اسکول والے کسی کے مُصدّقہ موت کا بھی مُشکل ہی سے یقین کرتے ہوں گے! |