کائنات ِانسانی پر ربّ کریم کا سب سے بڑا
انعام عطائے ذات ِمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اِس عظیم ترین انعام کا شکر
بجا لانے کیلئے اللہ کے برگزیدہ اور مقبول بندوں نے ہر دور میں اُس کے
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناءخوانی کی،یوں نعت لکھنے کا عمل حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا،شاعر رسول حضرت حسان بن
ثابت رضی اللہ عنہ پہلے نعت خواں اورگو شاعر تھے،جنہیں شاعرِ دربارِ رسالت
بھی کہا جاتا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے بعد کے ادوار میں عربی زبان میں نعتیں لکھی جانے لگی،پھر جوں جوں
عربوں کی فتوحات بڑھتی گئیں دوسری زبانوں میں بھی نعت لکھنے کا رواج عام
ہوتا گیا،عربی اور فارسی کے بعد برصغیر کی کئی زبانوں میں نعت لکھی گئی اور
یوں یہ سلسلہ ہندوستان میں رواج پا گیا،کہتے ہیں فنی طور پر اردو میں محسن
کاکوروی جن کا تعلق لکھنو سے تھا،نے نعت کو رواج دیا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ
برصغیر میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے فن ِنعت کو بام عروج تک
پہنچایا اور عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر کمال نعتیں
لکھیں،ہماری اردو شاعری میں کچھ نام ایسے بھی ہیں جنہوں نے اِس فن اور ہنر
کے طفیل ابدی شہرت حاصل کی،اِن میں مولانا حسن رضا خان،علامہ اقبال،امیر
مینائی،صائم چشتی،ادیب رائے پوری،خواجہ بیدم وارثی ،محمد علی ظہوری
قصوری،بہزاد لکھنوی،عبدالستار نیازی،قمر الدین انجم،پروفیسر اقبال
عظیم،صباءاکبر آبادی،خالد محمود نقشبندی،علیم الدین علیم اور پروفیسر حفیظ
تائب وغیرہ کے نامِ نامی نعت گوئی کا اہم ترین حوالہ ہیں ۔
کہتے ہیں نعت گوئی پل صراط پر چلنے جیسا عمل ہے،ذرا سی لغزش سے ایمان کی
سرحدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور عقیدے کا زاویہ بدل ہو جاتا ہے،اِس پل صراط کو
عبور کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے
قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں اورمقام الوہیت و رسالت کے درمیان توازن قائم
رکھنا مشکل ہو جاتاہے،صرف وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جو قرآن و حدیث کو مشعل
راہ بناتے ہیں،چونکہ یہ بڑا نازک اور کٹھن کام ہے،اِس لیے نعت لکھتے ہوئے
بہت ہی احتیاط اور اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے، بظاہر نعت کا موضوع بڑا
آسان،عام فہم اور سادہ سا لگتا ہے،لیکن در حقیقت ایسا نہیں،اِس میں ذرہ بھر
بھی کوتاہی اور لغزش کی گنجائش نہیں،کیونکہ ذرا لغزش سے نعت گو کے سارے
اعمال ہی اکارت ہی نہیں ہوتے بلکہ ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھا بھی اُس کا
مقدر بن جاتا ہے،اس صنف میں احتیاط کا یہ عالم ہے کہ عرفی جیسا خود پسند
اور متکبر شاعر بھی جب اِس میدان میں آتا ہے تو کانپ کر کہہ اٹھتا ہے ۔
عرفی مشتاب این رہِ نعت است نہ صحراست
آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را
اُس کے نزدیک نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے،امام نعت گویاں
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک نعت گوئی انتہائی مشکل کام ہے،ذرا سا
آگے بڑھے تو مقام الوہیت کی حدود میں داخل ہو گئے اور ذرہ برابر بھی کمی کی
تو توہین و تنقیص شروع ہو گئی،گویا نعت شریف میں دونوں جانب حدود و قیود کا
خیال رکھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ ذرا سا شاعرانہ غلو کفر و ضلالت کے زمرے
میں پہنچا سکتا ہے یا پھر ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے،اِس
لیے الفاظ پر کتنی ہی دسترس اور قدرت کیوں نہ حاصل ہو،شاعر اپنے آپ کو بیان
وصف سے عاجز ہی پاتا ہے،لیکن اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مداحی کرنے
سے خود کو روک بھی نہیں سکتا،چنانچہ نعت کا ورودِ مسعود ہوتا ہے اور آسمان
سے زمینیں تراشنے کے باوجود شعراءیہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ”بعد از
خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ ،بظاہر نعت کہنا اور زبان ِ شاعری میں ذات
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے،لیکن
اِس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل کام ہے،جس کیلئے حب
رسول کے ساتھ ساتھ کمالات نبوت و رسالت،اسلام کی اصل روح،عہد رسالت کے
واقعات اور قرآن و احادیث سے روشنی لازمی ہے،جس کے بغیر نعت گوئی ممکن
نہیں،یہ وصف بہت کم شعراءمیں پایا جاتاہے،بقول ڈاکٹر ریاض مجید”نعت میں وزن
و بحر،قافیہ و ردیف کی حد بندی میں موزونیت الفاظ،سلاست کے بعد جو چیز اِسے
نعت کا درجہ دیتی ہے وہ ہے،عشق رسول کی نغمہ سنجی، چونکہ یہ نبی کی ترانہ
سرائی ہے اِس لیے اِس میں صداقت مضمون،واقعیت مفہوم اور حسن محاکات کے سوا
رنگینی خیال اور ندرت تخیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔“کامیاب نعت گوئی کیلئے
جہاں سوز و گداز،تڑپ،عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ احتیاط،حفظِ
مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے ۔
ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید این جا
حقیقت یہ ہے کہ نعت گوئی کا تعلق قادر الکلامی سے زیادہ توفیق الٰہی پر
منحصرہے،یہ وصف وہبی ہے،نعت وہی کہتا ہے جس کو نعت کہنے کی توفیق عطا ہوتی
ہے،جبکہ نعت کا حق بھی وہی ادا کر سکتا ہے،جس کا دل جذبہ عشق رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے سرشار ہو،کیونکہ عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر نعت کی
تخلیق ممکن نہیں،یعنی محبت رسول جب شعرونظم کے پیکر میں ڈھلتی ہے،تب ہی نعت
وارد ہوتی ہے،بزرگ شاعر شفیق احمد شفیق بریلوی کا شمار بھی ایسی ہی وہبی
نعت گو شعراءمیں ہوتا ہے جن کو توفیق ایزدی اِس میدان میں لے آئی،حضرت شفیق
بریلوی 1920ءمیں بریلی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے،یہ وہی شہر ہے
جہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان اور شاہ نیاز جیسی قابل قدر ہستیوں نے
جنم لیا،شفیق بریلوی کا گھریلوں ماحول مذہبی تھا،والد محترم ایک علمی و
روحانی شخصیت اور عربی و فارسی پر عبور رکھتے تھے،وہ تصوف کے روحانی سلسلہ
چشتیہ صابریہ سے وابستہ اور صوفیانہ طرز زندگی بسر کرتے تھے،باقاعدگی سے
اُن کے گھر میں محافل میلاد و عرس بزرگان دین کا اہتمام ہوتا تھا،شفیق
بریلوی بچپن سے ہی اِن محافل میں حصہ لیا کرتے تھے،گھر کے ماحول، والد کی
تربیت اور بزرگوں کی صحبت نے شفیق بریلوی کے دل کو محبت رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی لازوال دولت سے سرشار کردیا،قلب و نظر میں عشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کا سیل رواں جاری ہوگیا اورشفیق بریلوی کی زندگی کا ظاہر و باطن محبت
و مروت کے سانچے میں ڈھل کر پاکیزگی و طہارت سے مرقع و مصفّا ہوگیا،آپ اِس
کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
آگیا حق کی قسم آغوش رحمت میں وہی
جس کی جانب اُنکی نظروں کا اشارہ ہوگیا
جناب شفیق بریلوی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اور
1938ءمیں اٹھارہ سال کی عمر میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا،ابتداءمیں طبیعت
غزل گوئی کی جانب مائل رہی لیکن گھر یلو ماحول اور والدین کارنگ تصوف انہیں
نعت گوئی کی طرف ایسا لایا کہ نعتیہ شاعری ہی مقصد حیات ٹہری۔
تمام عمر رہوں عشق مبتلائے رسول
زُباں پہ ہو مرے اللہ بس ثنائے رسول
یوں شفیق بریلوی نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد و مدعا بنالیا،یقینا یہ
بہت بڑی سعادت تھی کہ اُن کے جذبے نے اظہار کیلئے شعر کا جو روپ دھارا،وہ
محض لذت گفتار اور وصف ِلب و رخسار سے متشکل نہیں تھا،بلکہ جذبے کی شدت،فکر
کی سچائی اور احساس کی شگفتگی سے عبارت ہے،شفیق بریلوی نے اپنے فنی سفر
کیلئے سعادت ابدی کی اُس راہ کا انتخاب کیا،جس پر چلنے والا مسافر کبھی بھی
گم کردہ راہِ منزل نہیں قرار پا سکتا،آپ نعت گوئی میں سب سے زیادہ امام
احمد رضا خان بریلوی سے متاثر تھے،قیام پاکستان کے بعد آپ کراچی تشریف لے
آئے اور کراچی کی مضافاتی بستی لانڈھی کو اپنا مستقل مسکن بنالیا،یہاں آپ
نے کئی ادبی انجمنوں کی بنیاد ڈالی،اُن کے روح رواں رہے اور ہزاروں شاگردوں
کی تربیت کی،مگر1980میں شاگردوں کے اصرار پر بننے والی ادبی انجمن”بزم شفیق
ادب“سے تادم زیست وابستہ رہے ۔
شفیق بریلوی نے جو کچھ کہا فی البدی کہا،کبھی شاعری میں کسی نے اصلاح نہیں
لی،اللہ تعالٰی نے نعت گوئی میں جو لب و لہجہ شفیق بریلوی کو عطا فرمایا،وہ
دوسروں سے بہت مختلف،جدا اور متاثر کن ہے،آپ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم اور پابند شریعت تھے،فکر کی بلند خیالی اور نیک اعمالی نے آپ کے کلام
کو جلاء بخشی اور آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
وہی اوصاف حمیدہ بیان کیے جو قرآن و حدیت اور سیرت طیبہ سے ثابت ہیں،نعتیہ
شاعری کے ساتھ ساتھ شفیق بریلوی نے اہل بیت اطہار،خلفائے راشدین اورآئمہ و
اولیائے عظام کی شان میں مناقب بھی لکھے،جو بہت مشہور ہوئے،شفیق بریلوی
درویش منش،سادہ طبیعت اور دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والے انسان
تھے،انہوں نے نعت کے پھولوں کو خیال و فکر،عقیدت و محبت،عشق و شیفتگی اور
ادب و احترام کے دل کش رنگوں سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ فنی و تیکنیکی
محاسن سے بھی آراستہ کرنے پر توجہ دی ہے،مگر پھر بھی اِس انتخاب نعت کا
قاری اگر کہیں زبان و بیان،اسلوب اور فنی نکتہ نگاہ سے تشنگی یا عدم سیرابی
محسوس کرتا ہے تویہ سیرابی ممکن ہی نہیں کیونکہ”لفظوں کے مقدر میں کہاں
اتنی رسائی“ لفظ تو درماندہ و عاجز ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح
سرائی اندازہ حرف و خیال سے ماورا.
البتہ بہتری کی گنجائش تو ہر جگہ موجود رہتی ہے،یہاں بھی ہے،تاریخ میرٹھ
اور بہر زباں بہر مکان کے مصنف مشہور مورخ جناب نور احمد میرٹھی آپ کی
نعتیہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کی شاعری میں”جذبات کی
فراوانی اور عقیدت و احترام کی جلوہ سامانی ہے،محترم شفیق بریلوی نے اکثر
نعتوں میں محاسن و شمائل نبوی کے ساتھ ساتھ اپنے اشعار میں تبلیغ کا فریضہ
بھی ادا کیا ہے،موصوف نے دعویٰ ِعشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنے والوں
کی توجہ بصد اخلاص اِس جانب بھی دلائی ہے کہ اُن کی زندگی کے شب و روز
پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بھی گزرے ہیں یا نہیں؟عقیدت و محبت
کے جوش میں یہ ہوش کی باتیں اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ شفیق بریلوی
صاحب ایک صالح طبیعت انسان ہیں۔“منظر و حمد و نعت،ضیائے مدینہ، گلشن
نعت،بہار ذکر حسین،حب اہل بیت،تحفہ معرفت،مدحت باب فخر اُمم،بہار گنبد
خضرا،نگاہ ناز اور شوخی غزل آپ کی مشہور تصانیف ہیں،افسوس کہ جہان نعت کایہ
روشن ستارہ 5اپریل 2012ء بروز جمعرات،کراچی میں 92 سال کی عمر میں ڈوب گیا
اور گلشن علم و ادب ایک عظیم علمی،روحانی اور قدآور شخصیت سے ہمیشہ کیلئے
محروم ہوگیا ۔
جان نکلے مری یارب شہہ ابرار کے پاس
جس کا میں ہوں مجھے پہنچا اُسی سرکار کے پاس
میں سمجھوں گا ملی دولت ِ کونین مجھے
موت آئے جو در ِ احمد مختار کے پاس |