فوج ایسے ادارے کو کہتے ہیں جس
کو وسیع پیمانے پر طاقت کے استعمال کی اجازت حاصل ہوتی ہے، اس میں ہتھیاروں
کا استعمال، اپنے ملک کے دفاع کے لئے طاقت کا استعمال یا پھر کسی بھی عالمی
سطح پر مجوزہ عوام کو لاحق خطرات کے خلاف اقدامات شامل ہیں لیکن دُنیا کی
دوسری بڑی فوج رکھنے اور اس فوج کے لیئے پوری دُنیا میں اسلحہ کے سب سے بڑے
خریدار ملک بھارت کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اُس کی فوج کے پاس جہاں
انتہائی فرسودہ دفاعی آلات موجود ہیں وہاں اُسے ہتھیاروں کی شدید کمی کا
بھی سامنا ہے جس سے دفاعی صلاحیت محدود ہو کر رہ گئی ہے اور کسی بھی ملک سے
جنگ کی صورت میں یہ اسلحہ صرف دو دن میں ہی ختم ہو سکتا ہے۔ یہ انکشاف کسی
دشمن ملک یا اُس کی خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ میں نہیں کیا گیا بلکہ خود
بھارتی فوجی سربراہ کی طرف سے وزیراعظم منموہن سنگھ کو لکھے گئے اُس خفیہ
خط کا حصہ ہے جو اب خفیہ نہیں رہا بلکہ کسی خفیہ طاقت کے ذریعے افشاءہو گیا۔
اس خط کے منظرعام پر آنے سے جہاں بھارتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے وہاں
دنیا بھر میں یہ تمسخر بھی اڑایا جا رہا ہے کہ خود کو دنیا کی بڑی ایٹمی
طاقت سمجھنے والے ملک کی فوج اندر سے کھوکھلی ہے۔
وزیراعظم منموہن سنگھ کو خفیہ خط ارسال کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل وی کے سنگھ
بھارتی فوج کے چھبیسویں سربراہ ہیں۔ اس سے قبل وہ ایسٹرن کمانڈ کے جنرل
آفیسر کمانڈنگ اور سب سے سینئر انفنٹری افسر رہے ہیں۔ وہ شورش مخالف
آپریشن، لائن آف کنٹرول اور بلند ترین مقامات پر فوجی کارروائیاں کرنے کا
بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ جنرل وی کے سنگھ فوجی سربراہ کا عہدہ سنبھالنے
والے پہلے تربیت یافتہ کمانڈو ہیں اور انہیں شجاعت و بہادری کے اعتراف میں
متعدد ایوارڈز بھی دیئے جا چکے ہیں لیکن دوسری جانب اُن کا اپنی حکومت کے
ساتھ تاریخ پیدائش کے معاملے پر تنازعہ بھی چل رہا ہے اور وہ حکومت کو
عدالت میں بھی لے گئے تھے جہاں انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔ اس تنازعہ کے
بعد حکومت نے فوج کی مشرقی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بکرم سنگھ کو نیا
آرمی چیف مقرر کرنیکا اعلان کیا تاہم موجودہ سربراہ نے مدت پوری کئے بغیر
استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے لیکن اس خط سے فوج کے سربراہ وی کے سنگھ
اور حکومت کے درمیان تنازعہ ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ایک ایسے
وقت میں جب بھارت اور چین ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور پاکستان
کیساتھ بھی اس کے تعلقات خوشگوار نہیں جبکہ ماضی میں بھارتی وزیراعظم یہ
انکشاف بھی کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش کی ایک چوتھائی آبادی بھارت مخالف ہے
ایسی صورت میں آرمی چیف کا خط منظرعام پر آنا بھارتی حکومت کیلئے یقینا
پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔
حکومت اور خود آرمی چیف اسے ملک سے غداری کے مترادف قرار دے رہے ہیں اور
ایک دوسرے کو مورد الزام بھی ٹھہرا رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو
سکا کہ اس خفیہ خط کا راز افشاءکرنے کے پیچھے اصل سازش کس کی ہے۔ بھارت میں
ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اس خط کو منظرعام پر لانے کے پیچھے خود حکومت
کے کچھ عناصر کا ہاتھ ہے جبکہ ایک خاص طبقہ کے مطابق چونکہ حکومت اور آرمی
چیف کے تعلقات درست سمت پر استوار نہیں اس لیئے آرمی چیف ریٹائرمنٹ سے پہلے
حکومت کیلئے مسائل کھڑے کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک رائے یہ بھی پائی
جاتی ہے کہ پس پردہ ضرور کوئی راز چھپا ہوگا ورنہ آرمی چیف وزیراعظم کو بے
سروسامانی کی طرف ہرگز متوجہ نہ کرتے کیونکہ اس وقت چین کو دفاعی اعتبار سے
بھارت پر کافی برتری حاصل ہے اور بھارت ایک طویل عرصہ سے خود کو چین کے
برابر لانے کا خواہشمند ہے۔ کچھ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ اگلے دو تین
سال میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں عام خیال
یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر بھارت اور چین کے درمیان جنگ چھڑی تو یہ
تیسری عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ ادھر بھارتی اپوزیشن کی طرف سے بھی آرمی
چیف کی طرف سے لکھے گئے خفیہ خط اور رشوت کی پیشکش جیسے بیانات کو غیر
سنجیدہ قرار دیکر اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ
بیانات سے فوج اور عوام کا مورال ڈاﺅن ہونے کا خدشہ ہے۔
بھارت کی تینوں مسلح افواج میں سے اس وقت بھارتی بری فوج میں 11لاکھ حاضر
سروس فوجی جبکہ 9لاکھ 60ہزار ریزرو فوجی شامل ہیں۔اسکی فضائیہ کے پاس
1,70,000حاضر سروس فوجی موجود ہیں جبکہ 1600مختلف قسم کے طیارے ہیں جبکہ
بحریہ کے پاس 67,000سپاہی ہیں اور 170جہاز جبکہ 250ہوائی جہاز بتائے جاتے
ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک چار جنگیں ہو چکی ہیں جبکہ چین کے
ساتھ بھی ایک بار جنگ کا سماں رہا۔بھارت اور چین ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں
واقع سرحد کے متعدد علاقوں پر اپنا حق جتاتے ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے
درمیان بھی کشمیر اور کارگل سمیت مختلف ایشوز چل رہے ہیں۔ بظاہر بنگلہ دیش
کے بھارت سے اچھے تعلقات استوار ہیں لیکن ماضی میں خود بھارتی وزیراعظم یہ
دعویٰ کر چکے ہیں کہ اسکی اسلام پسند تحریک جماعت اسلامی سے منسلک ایک
چوتھائی بنگلہ دیشی آبادی بھارت مخالف ہے اور اس کے پیچھے پاکستان کی خفیہ
ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے ۔ بھارتی وزیراعظم کے ان متنازعہ بیانات اور
پھر سرکاری ویب سائٹ پر انکی اشاعت پر بنگلہ دیش نے اپنی برہمی اور خدشات
کا اظہار بھی کیا جس کے بعد اس متنازعہ بیان کو سرکاری ویب سائٹ سے ہٹا دیا
گیا تھا جبکہ بھارت کے دوسرے پڑوسی ممالک میانمار، بھوٹان اور نیپال کیساتھ
بھی تعلقات کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں اور وہ ان ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کی
سردمہری کا ذمہ دار ہمیشہ پاکستان اور آئی ایس آئی کو ٹھہراتا چلا آ رہا
ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب بھارت چاروں طرف سے اپنے لئے خطرات محسوس کر
رہا ہے تو کیا وہ صرف دو دن کے اسلحے کیساتھ کسی بھی دشمن ملک سے جنگ کرنے
کا متحمل ہو سکے گا۔
سنہ 2002ءمیں بھارت اپنی فوج پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا تو کئی ہفتے
سرحدوں پر کھڑی رہنے کے بعد فوج کو بے نیل و مرام واپس جانا پڑا جبکہ بھارت
اور چین کے درمیان 1962ءکی جنگ کے بعد سے تناﺅ برقرار ہے اور اس میں اضافہ
چین کی جانب سے بحرہند میں اثرورسوخ بڑھانے سے ہوا ہے۔چین اس وقت پاکستان،
سری لنکا، بنگلہ دیش اور برمی بندرگاہوں کو ترقی دینے کیلئے مالی معاونت کر
رہا ہے جبکہ گرم پانیوں تک رسائی کیلئے بھی سرگرداں ہے۔ اسکے مقابلے میں
بھارت نے اربوں ڈالر خرچ کرکے چینی برتری کیخلاف اپنی کوششیں شروع کر دی
ہیں۔چین کیساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی معاہدوں کے باوجود بھارت چین سے ملنے
والی اپنی شمال مشرقی سرحد پر ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے کا ارادہ
رکھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک اس سرحد پر اپنے حق اور دوسرے کے ناجائز قبضے
کا دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر دونوں ملک
سرکاری طور پر نہ صرف تعاون اور شراکت داری کا بلکہ دوستی کا بھی اعلان
کرتے ہیں، باہمی تجارت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور سرمایہ کاری بھی بڑھ
رہی ہے تاہم ایسے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملات
اسقدر بھی ہموار نہیں ہیں جتنا کہ سرکاری طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔چونکہ اس وقت بھارت کا اصل حریف چین ہے شائد اسی لئے بھارتی دفاعی حکام
فوجی طاقت میں اضافے کیلئے مزید رقم کا مطالبہ بھی کرتے آ رہے ہیں۔یہ
اطلاعات بھی ہیں کہ بھارت ہمسایہ ملک چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر پریشان ہے
اور اسکے خلاف محدود پیمانے کی جنگ کی تیاری کر رہا ہے، شائداسی لئے بھارتی
فوجی سربراہ نے خفیہ خط کے ذریعے اپنی حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی
ہے کہ وہ کسی بھی ملک کیخلاف جنگ کا خیال دل سے نکال دے کیونکہ نہ صرف اُس
کی پیادہ فوج کے پاس ضروری سازوسامان کی کمی ہے بلکہ اس کے پاس رات کے وقت
لڑائی کیلئے درکار آلات بھی بہت کم ہیں اور فضائی دفاع کا نظام بھی ستانوے
فیصد متروک ہو چکا ہے۔ |