ریسرچ کا فنڈا .... پیو ٹھنڈا

جو لوگ رات دن اِنتہائی ٹیڑھے مزاج کا مظاہرہ کرنے پر تُلے رہتے ہوں اُنہیں سمجھنا اور اُن سے نپٹنا بہت مُشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسی ہی مُشکل اُن لوگوں سے معاملت میں بھی پیش آتی ہے جن میں خباثت برائے نام بھی نہیں پائی جاتی! ٹیڑھا شخص جس قدر ٹیڑھا ہوتا ہے، سیدھا شخص بھی اُتنا ہی ٹیڑھا ثابت ہوتا ہے! یعنی بد اچھا، بدنام بُرا۔ یہی سبب ہے کہ لوگ سادگی ترک کرکے ٹیڑھ کو اپنانے میں دیر نہیں لگاتے! بالکل اِسی طرح بہت مُشکل اور بہت آسان .... دونوں طرح کی باتیں یکساں نوعیت کی ہوتی ہیں، یعنی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتیں! ترقی یافتہ معاشروں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ اِن معاشروں کو اِس قدر تحقیق کرنے کی ضرورت کیا ہے! جب ہر معاملے میں ترقی ممکن بنائی جاچکی ہے تو پھر تحقیق میں سَر کھپانا، بلکہ پھوڑنا کون سے درجے کی دانائی ہے؟ مغرب اور مشرق کے ترقی یافتہ معاشروں میں جو لوگ تحقیق کے عادی بلکہ ”دَھتّی“ ہوتے ہیں وہ اپنے کام میں ایسے غرق رہتے ہیں کہ اُنہیں ڈھونڈ کر حقیقی دنیا میں واپس لانا پڑتا ہے! ریسرچ کرنے والوں کو سرچ کرنا گویا اِضافی مشقت ہے جو کِسی معاوضے کے بغیر کرنا پڑتی ہے!

کیا بازار میں آئینے ناپید ہوگئے ہیں؟ نہیں نا؟ تو پھر اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے یہ کیوں طے کرلیا ہے کہ وقتاً فوقتاً رپورٹس جاری کرکے پس ماندہ معاشروں کو آئینہ ہی دِکھانا ہے؟ یونیسکو بھی اقوام متحدہ کا ایک ایسا ہی ادارہ ہے جسے اور تو کچھ آتا نہیں، بس رپورٹس جاری کرکے ہمیں ہنستا رہتا ہے یعنی شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے! ایک حالیہ رپورٹ میں اِس ادارے نے بتایا ہے کہ پاکستان میں تمام شعبوں کے محققین اور اُن کے معاونین کی مجموعی تعداد صرف 54 ہزار ہے۔ قومی میڈیا نے اِس پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ مگر ہم نہیں سمجھتے کہ محققین کی تعداد کم ہونا کوئی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ابھی مون سون میں تین چار ماہ رہتے ہیں۔ اگر کسی عالمی ادارے کی باتوں میں آکر ہم ابھی سے ڈوب مرے تو سیلاب کے سیزن کو نامُراد واپس جانا پڑے گا جبکہ دو سال سے ہم سیلابی سیزن کو خالی ہاتھ نہیں لوٹا رہے! اور سیلاب کی اعلیٰ ظرفی بھی ”اعلیٰ جیبی“ کا خوب بھرم رکھتی ہے یعنی بڑوں کی تجوری خالی نہیں رہنے دیتی!

یونیسکو جیسے اداروں کی ایسی باتوں سے ہم کیوں شرمندہ ہونے لگے؟ 18 کروڑ کی آبادی میں اگر فِطری عُلوم پر تحقیق کرنے والے 54 ہزار ہیں تو آبادی میں ہم سے چھ گنا بڑے بھارت میں اِن ماہرین کی تعداد تین لاکھ ہے۔ یعنی معاملہ تقریباً برابری کا ہے۔ جب وہ شرمندہ نہیں تو ہم کیوں شرمندگی کا اسٹاک ضائع کریں؟

یونیسکو نے ایک بار پھر جاپان، امریکہ، برطانیہ، چین، جرمنی، جنوبی کوریا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثال دیکر ہمیں نیچا دِکھانے اور سُکون سے ہمکنار کرنے والے خوابوں کی دنیا سے باہر لانے کی کوشش کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین میں 15 لاکھ 92 ہزار، امریکہ میں 14 لاکھ 12 ہزار، جاپان میں 8 لاکھ 90 ہزار، برطانیہ میں 3 لاکھ 77 ہزار اور جرمنی، فرانس، فن لینڈ، ہالینڈ، ناروے، ہنگری، سوئیڈن، روس، جنوبی کوریا اور دیگر معاشروں میں بھی لاکھوں محققین اور ان کے معاونین رات دن تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔

اگر بین الاقوامی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ پس ماندہ معاشروں میں تحقیق کی روایت دم توڑ چکی ہے تو یہ اُن کی خام خیالی ہے، لاعلمی ہے۔ ہم جن معاملات میں دادِ تحقیق دیتے ہیں اُنہیں ترقی یافتہ معاشرے تسلیم نہیں کرتے۔ اب کیا یہ بھی ترقی یافتہ معاشرے طے کریں گے کہ ہمیں کِن معاملات پر اور کِس طرح تحقیق کرنی چاہیے؟ بات یہ ہے صاحب کہ ہم نے تحقیق کو تحقیقات کی منزل تک پہنچاکر سُکون کا سانس لیا ہے اور یہ بات دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں سے ہضم نہیں ہو پارہی! ہم یہ سمجھنے کی کئی بار ناکام کوشش کرچکے ہیں کہ وہ ہمیں کچھ بھی سمجھانے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں!

جاپان، چین، امریکہ، برطانیہ، سوئیڈن، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھرپور تحقیق کے ذریعے جو کچھ تیار کرتے ہیں وہ جب آسانی سے ہمارے بازاروں میں دستیاب ہے تو پھر اِس قدر ”ماتھا پھوڑی“ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہی سبب ہے کہ ہم ریسرچ سے زیادہ سرچ پر یقین رکھتے ہیں! آج کی دُنیا میں جب کسی بھی نئی ٹیکنالوجی سے بنائی ہوئی اشیاءآن کی آن میں دُنیا بھر کے بازاروں کی رونق بڑھانے لگتی ہیں تو پھر زیادہ دِماغ لڑانے اور تحقیق کے نام پر اپنا انتہائی قیمتی ضائع کرنے کی ضرورت ہے!

ترقی یافتہ اقوام کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ اُس کے محققین کیمرے اور دوسرا تان توبڑا لیکر جنگلوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور تحقیق کے نام پر بے زبان جانوروں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ تحقیق اچھی چیز ہے مگر اِس کی آڑ میں حیوانات کی زندگی میں دخل در معقولات کسی طور مستحسن فعل نہیں! نیشنل جیوگرافک والوں سے ہم صرف اِتنا عرض کریں گے کہ پہلے ہم جیسے اِنسانوں کو تو سمجھ لیں، جانور کون سے کہیں بھاگے جارہے ہیں؟ ویسے جن انوکھے طریقوں سے نیشنل جیو گرافک والے جانوروں کی زندگی کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں اُسے سے جانور محظوظ ہوتے ہوں! یہی سبب ہے کہ وہ اِن محققین کو کبھی کچھ نہیں کہتے اور اِن کی اوٹ پٹانگ حرکات پر برہم ہونے کے بجائے ہنستے ہوئے اپنے ”معمولاتِ درندگی“ میں مصروف رہتے ہیں!

اگر مغرب کے محققین کے پاس تحقیق کے لیے موضوعات ختم ہوگئے ہیں تو ذرا ہماری طرف آئیں، ہم بتائیں گے کہ اب کرنا کیا ہے۔ درندوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے نیشنل جیوگرافک کے محققین اب کیمرے وغیرہ اُٹھائیں اور کراچی چلے آئیں۔ یہاں اُنہیں اندازہ ہوگا کہ معاشرے میں رہتے ہوئے درندگی کا بازار کس طور گرم رکھا جاتا ہے، بالباس جانور کیسے ایک دوسرے کو برہنہ کرنے پر تُلے رہتے ہیں اور کس طرح معاشی مفادات کے نام پر اِنسان ایک دوسرے کو بھنبھوڑ سکتے اور بھنبھوڑتے ہیں! آج کے کراچی میں تحقیق کے ایک اچھا موضوع یہ بھی ہے کہ عام آدمی گھر سے نکل کر کام کے مقام پر کس طرح پہنچتا ہے اور شام کو گھر واپس کیسے آتا ہے! اِس امر پر تحقیق کی جاسکتی ہے کہ ہنسنے سے بھی خوف کس طرح آتا ہے اور شدید خوف کے باوجود کس طور ہنسا جاسکتا ہے! ”کیا یہ کُھلا تضاد نہیں“ فیم سہیل وڑائچ کبھی ”ایک دن کراچی کے ساتھ“ کرلیں تو ہمیں یقین ہے کہ پھر کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہیں گے!

تحقیق کی منزل تو بعد میں آئے گی، ہمارے ہاں اب تک اِس امر پر تحقیق ہو رہی ہے کہ ہمارے لیے تحقیق ضروری ہے بھی یا نہیں! جو تھوڑے بہت لوگ کسی نہ کسی طرح دِل مار کر دادِ تحقیق دینے کا ارادہ کر بیٹھے تھے وہ اب 2012 کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مایا کیلینڈر کی رُو سے دنیا 21 دسمبر 2012 کو بوریا بستر لپیٹ لے گی۔ اگر دنیا کو ختم ہو جانا ہے تو خواہ مخواہ تحقیق کے نام پر اپنا اور دوسروں کا دِماغ کیوں خراب کیا جائے! یار دَم سادھے بیٹھے ہیں کہ دُنیا اگر 2012 کے بعد بھی اپنا سفر جاری رکھے تو وہ تحقیق کی شاہراہ پر گامزن ہوں!

ہمارا کام تحقیق کرنا نہیں بلکہ تحقیق میں رہ جانے والی خامیوں کو دور کرنا ہے۔ لتا منگیشکر، محمد رفیع، نور جہاں، مہدی حسن، مکیش اور کشور کمار کے گانوں میں جو کسر رہ گئی تھی وہ ہم نے جھنکار ڈال کر پوری کی۔ بالکل اِسی طرح بین الاقوامی برانڈز میں جو خامی یا ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے وہ ہم اپنے اسٹائل سے پوری کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے مشہور کولڈ ڈرنک کا دو نمبر برانڈ بنایا۔ ایک بوتل ہمیں پلائی۔ ہمیں نیا ذائقہ محسوس ہوا۔ ہم نے چند توصیفی کلمات ادا کئے تو وہ صاحب کہنے لگے ”ذائقے میں یہ نیا پن کھاری پانی نے پیدا کیا ہے!“ یعنی ”ریسرچ کا فنڈا“ .... پیو ٹھنڈا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525325 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More