شریکِ جُرم نہ ہوتے تو مُخبری کرتے

وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے جب اپنے عہدے کے فرائض سنبھالے تو ان کو اپنا مکان ایسے ہی پسند نہ آیا جیسے الیکشن جیت جانے کے بعد سیاستدانوں کو اپنا حلقہ زہر لگتا ہے۔اور وہ اس سے ایسے ہی دور بھاگتے ہیں گویا تمام تر مہلک بیماریاں اسی شہر سے ہی ان کو اثر انداز کریں گی ۔بہرحال جان بچانا بھی تو فرض ہے ۔وہ تو عوام سے بچا لیتے ہیں مگر عوام ان کی دی گئی مہنگائی اور ان کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل سے بچ نہیں پاتے۔ہمارے ساستدان جب ملک سے باہر جائیں تو دل کھول کے اخراجات کرتے ہیں کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے پاکستان کے لوگ بخل سے کام لیتے ہیں۔ملک کی عزت اور وقار کو بچانے کے لیے ہمارے بڑے بڑے عہدیداراپنی ذات پربڑے پیمانے پر اخراجات کرتے ہیں۔ اگر کبھی غلطی سے بین الاقوامی دوروں سے واپس آبھی جائیں،تو نہ جانے کیوں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس پیسے سے وہ عیاشی کر آئے ہیں ہیں یہ ان کی عوام کو ملنے والی بھیک کا حصہ ہے۔اور سب کو اس کا برابر حصہ ملنا چاہیے ۔لیکن وہ ایسا نہیں کرتے خود ہی قابض رہتے ہیں۔اگر ایسا ہے بھی تو اس میں تعجب یا غصے والی تو کوئی بات نہیں کیوں کہ وہ بھی تو عوام کے نمائندے ہیں۔ان کا اس پیسے کو فضول خرچی میں ضائع کرنا ان کی عقل مندی میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اچا نک سے دولت کو دیکھ کر عوام کے ذہن میں شرارت نہ آجائے ۔اور ایسا نہ ہو کہ عوام اشتعال میں آجائے کہ پاکستان بننے سے اب تک پیسا اپنی جیب سے بر آمد نہ ہو پایا ۔ اگر اب ہو ہی گیا ہے تو اسے آپس میں بانٹ لیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہ لڑ جھگڑبھی سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس مسئلے کے پیش نظر ساستدان خود اس پیسے کو عوام کی پہنچ سے اس طرح دور رکھتے ہیں جیسے زمین سے چاند۔ کہ اسے دیکھا اور سوچا تو جا سکتا ہے مگر چھوا نہیں جا سکتا۔میں بات کر رہا تھا وزیر اعظم صاحب کے گھر کی مگر علم کی کمی اور پریشانیوں کی ذیادتی نے میری گفتگو کا رخ موڑ دیا ۔دیکھنے سے تو خرچہ لاکھوں میں لگتا تھا مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس پر کروڑوں کے حساب سے لاگت آرہی ہے۔عربوں بھی آجائے تو دنیا کا کوئی بھی شخص اعتراض نہیں کر سکتا کیوں کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں جس کو ہر سال بھیک مانگنا پڑتی ہے مگر پھر بھی بھیک ہمیں عربوں میں ملتی ہے ۔اے کا ش کہ وزیر اعظم کا کوئی نمائندہ ان کو گورنمنٹ ہائی سکول ٹھٹھی میانوالی کے دورے کا مشورہ دیتا اور وہاں آکر وہ اس کی حالت دیکھتے کہ اس میں بچے کس ماحول میں پڑھ رہے ہیں؟اگر کروڑوں روپے ہمارے بنائے ہوئے عہدیداراپنے گھروں کی سجاوٹ پر لگا سکتے ہیں تو پھر ان سکولوں پر کیوں نہیں۔ہماری ملت کے مقدر کے ستارے جس آسماں پر چمکنا چاہتے ہیں ہم ان کو اس سے کوسوں دور رکھے ہوئے ہیں۔ملک بھر میں نئے تعلیمی ادارے کھولے جا رہے ہیں مگر موجودہ کی خستہ حالی کسی کی نظر سے بھی نہ گزر رہی ہے نہ ہی ہماری اس چیخ و پُکار سے ہمارے عہدیداروں کے کان پر جُوں رینگتی ہے۔ تنگ آکر مظلوم بھی فریاد چھوڑ دے گا۔ ا اور اگر ایسا ہو ا تو تا یخ کے آنے والے ادوار ہمیں کبھی بھی معاف نہ کریں گے ۔کیوں کہ اگر ہم مخبری کرنے سے باز آگئے تو یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ ہم بھی شریک جُرم ہیں۔عوام کو چاہیے کہ اب وہ اپنی حیثیت سے واقف ہوں۔ اور اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں کیوں کہ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہمارا ملک بڑے لوگوں کا احتساب کر پائے گا ۔ورنہ تو احتساب کے سارے قانون اس ملک میں غریب لوگوں کے کیے ہی بنتے ہیں۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51524 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More