خبر ہے کہ افغانستان میں
قیدیوں پر امریکی افواج کے نئے مظالم کا انکشاف۔ قیدیوں کو سخت سردی میں
رکھنے،ذلت آمیز تلاشی لینے اور روشنی سے محرو م رکھ کر نیٹو سپلائی کی بندش
کا بدلہ ان مظلوم قیدیوں سے لیا جا رہا ہے۔
امریکہ کے یہ بزدل فوجی اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ان کے اس فعل سے
ان کی بزدلی اور کم ہمتی اور شکست کا اعتراف مزید واضح ہوتا ہے۔دنیا کی سب
سے بزدل ترین فوج کا اعزاز انہی کو دے دینا چاہیے۔دنیا کے سامنے ان کی
بہادری کے چرچوں کے پول کھل چکے ہیں۔دنیا کی نام نہاد سب سے طاقتور فوج کا
افغانستان میں ’’بیڑا غرق ‘‘ہو چکا ہے۔اپنی بیرکوں سے باہر نکلنا ان کے
نزدیک موت کے منہ میں جانا بن گیا ہے۔اس لئے یہ اندر ہی اندر جل بھن کر
کمزور اور نہتے قیدیوں پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔لیکن نہ جانے کیوں یہی بات
ہمارے ارباب اقتدار کو سمجھ نہیں آتی ۔وہ ’’بزدل ترین فوج ‘‘کو ’’بہادر
ترین‘‘ کہہ کر بہادری کی توہین کرتے ہیں۔ امریکہ کا نام آتے ہی ان کے چہرے
پر خوف کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔اب بھی ان کے ہاں صرف دنیا میں ’’انکل
سام‘‘کی خوفناکیاں اور دہشتیں ہیں۔
امریکہ کے سب سے بہادر بقول ہمارے ملک صاحب ’’ انتہائی ‘‘ تربیت یافتہ فوجی
میرین کہلاتے ہیں۔ ان کے دل اور جگر ے کا اندازہ اس واقعہ سے لگا لیں۔ جیکب
آباد کے ایریا میں واقع کسی پٹرول پمپ پر ایک فوجی ٹرک آ کر رکا۔جس میں
کوئی دو درجن میرین ’’بہادر‘‘ سوار تھے۔ ٹرک میں پیٹرول ڈالا جا رہا تھا۔
کہ اتفاقاً ٹرک کا ٹائر پھٹ گیا۔ اس اچانک دھماکے سے سارے کے سارے میرین بے
ہوش ہو کر لمبے ہو گئے۔ پٹرول پمپ پر موجود لوگوں نے انھیں ہوش میں لانے
کیلئے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے۔ خوب خوب جھنجھوڑا۔ بڑے جتن اور بڑی محنت
کی۔ وہ ہوش میں آ تو گئے۔ لیکن ان کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی اور چہروں پر
مردنی چھا گئی تھی۔ ایک دم نڈھال اور لاچار۔گویا برسوں کے بیمار ہوں۔ ٹائر
پھٹنے کے اس دھماکے کو انھوں نے خود کش حملہ سمجھا تھا۔ انھیں ہوش میں لانے
کی اس ساری کاروائی کے دوران یقیناً لوگ اپنی بے اختیار ہنسی کو منہ میں
کپڑے ٹھونس ٹھونس کر روکتے رہے ہوں گے۔
امریکہ اور اس کے حواری جو طالبان کو ختم کرنے کیلئے افغانستان میں آ ئے
تھے۔ ان کی حالت اب یہ ہے کہ اگر ان کو باہر جانا بھی پڑے۔ تو پورے بندوبست
کے ساتھ نکلتے ہیں ۔ جدید ترین ہتھیار بند اور بکتر بند گاڑیوں میں بند ہو
کر نکلتے ہیں۔ پورے بندوبست کامفہوم یہ ہے کہ ہر ایک بہادر پیمپر بند بھی
ہو۔ کیونکہ وہاں صورتحال ہی کچھ ایسی ہے کہ کسی لمحہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
کوئی دھماکہ ہی پتلون کا آلودہ یا گیلا ہو جانا معمولی بات ہے۔ چلو ایسا
کچھ نہ بھی ہو تو گھنٹوں بکتر بند گاڑی میں بند رہنے والا وہ آخر انسان ہی
تو ہوتا ہے۔ جو کھاتا ہے ، پیتا ہے تو فطری نظام کے ہاتھوں بھی مجبور ہوتا
ہے۔ ایسی ضرورت پر گاڑی سے باہر نکلنا نری حماقت بلکہ خود موت کو دعوت دینا
ہی تو ہو گا۔ سب کو پورے یقین کی حد تک خوف ہوتا ہے۔ کہ بس باہر نکلے اور
مارے گئے۔
اب کچھ دنوں سے پاکستان کے راستے نیٹو اور امریکن افواج کا سامان ضرورت
پہنچنا بند ہے۔جس کا غصہ وہ مظلوم قیدیوں پر نکال رہے ہیں۔ انتہائی ضروری
اشیاء میں پیمپر بھی شمار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بھی نہیں پہنچ رہا۔ امریکی
اور اتحادی فوجی دہائی دے رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع استعمال ہو رہے ہیں۔
’’انسانی ہمدردی ‘‘ کے واسطے دیے جا رہے ہیں۔ فوجی ایک پیمپر کے پچاس پچاس
ڈالردینے کو تیار ہیں۔
میرا تو مشورہ ہے کہ مشرف پاکستان نہ آئے،جیسا کہ اب اسکا اپنا بھی ارادہ
یہی ہے ﴿ ویسے بھی۔ کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی﴾۔
بلکہ فوراً ہی افغانستان چلا جائے اور وہاں پیمپر دھونے کی لانڈری کھول لے۔
بیٹھے بیٹھے طبلہ بجائے اور پانچ ڈالر فی پیمپر کمائے۔ بعد میں نئے پیمپر
تیار کرنے کی فیکٹری لگا لے۔ ڈالر جمع کرنے کا شوق بھی پورا ہوتا رہے گا
اور آقا کی خدمت گاری بھی جاری رہے گی۔ دوہرے فائدے ہی فائدے۔ آم کے آم اور
گٹھلیوں کے دام۔ بس اتنا خیال رہے کہ وہاں طالبان بھی ہوں گے۔
٭.٭.٭
عمران خان نے کہا ہے کہ’’تحریک انصاف کا سونامی جلد بلوچستان میں داخل ہو
گا‘‘
بلوچستان بھی اب بن بلائے سونامی سے محفوظ رہنے والا نہیں ہے۔بلوچستان کے
لوگ بے چارے پہلے ہی بہت پریشان ہیں اور یہ سونامی والا خان صاحب اپنے ساتھ
انہی لوگوں کو لا رہا ہے جس کی وجہ سے آج وطن عزیز اس حال کو پہنچا ہے۔لیکن
چونکہ خان صاحب بڑے وضع دار آدمی ہیں اس لئے گھر آئے مہمان کو دھتکار بھی
نہیں سکتے ۔خان صاحب نے مزید کہا ہے کہ’’ حکمرانوں نے عوام کا جینا مشکل کر
دیا ہے‘‘جی جی بالکل خان صاحب آپ بھی یہ سعادت حاصل کرنے میں حق بجانب
ہیں۔رہی سہی کسر تو آپ نکال ہی سکتے ہیں۔کیونکہ بے چاری عوام کی قسمت میں
یہی کچھ لکھا ہے اور قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔
نہ جانے ان کو کب احساس ہو گا کہ مشکل میں کون ہے.
کوئی جماعت’’سونامی‘‘لانے کی بات کر رہی ہے تو کوئی’’زلزلے‘‘کی.
کوئی ’’انقلاب‘‘کی بات کر رہا ہے تو کوئی ملک کے سسٹم بدلنے کی.
بھوک،افلاس ،مسائل اور بحرانوں میں گھری عوام کو اچھی خبر بھی برے انداز
میں سننے کو ملتی ہے۔سیاست دانوں کو اپنی سیاست چمکانے سے فرصت نہیں
اوردشمن پاکستان کے ساتھ مسلسل ہاتھ کیے جا رہے ہیں۔دشمن کسے کہا
جائے،ہمسایہ ممالک کو یا آستین کے سانپوں کو؟بھارت تیزی سے پانیوں پر قبضہ
کر رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کی سرحد غیر محفوظ ہے۔کوئی نہ کوئی کسی
نہ کسی شکل میں پاکستان کے حصے کا سورج ،پانی اور ہوا کھا رہا ہے۔جبکہ
ہمارے حکمران ،سیاستدان سب کے سب اپنے مفادات اور قد کاٹھ بچانے کے چکر میں
صبح و شام ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔
قومی اداروں میں ٹکراؤ ہو یا اختیارات کی کھینچا تانی کی جنگ چھڑی ہو ،ایک
دوسرے پر الزامات کا سلسلہ چل رہا ہو یا حکومت گرانے کی باتیں ہو رہی
ہوں۔اس سب کشمکش میں اگر صرف نقصان ہو رہا ہے تو صرف عوام کا۔اس جنگ کے
نتائج کس کے حق میں ہوں گے یہ فیصلہ ہونے تک اتنا نقصان ہو چکا ہو گا کہ
کسی کے ہاتھ مطلوبہ نتائج نہ آ سکیں گے۔
عدلیہ آزاد ،غیر جانبدار اور انصاف پسند ہے یا نہیں؟
حکومت بے قصور،جمہوریت کی خادم ہے یا نہیں؟
بجلی اور گیس کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا یا تھم جائے گا؟
وسائل کی چوری رک جائے گی یا نہیں؟
کرپشن کے بے شمار کیسز کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
مقدمات اور جرائم کم ہوں گے یا نہیں؟
ان سب سوالوں میں گھری عوام کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔قوم بند گلی میں
پہنچ چکی ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔
کیمیا گر تھی جس قوم کی نظر کبھی
ہے اندھوں کی تقلید میں بھٹک رہی آج
مشکل میں کون ہے.؟
حکومت،عدلیہ،فوج،سیاسی جماعتیں یا قوم..
جواب ہے ..قوم |