حکیم صاحب بڑی خوبیوں کے مالک
اور خدا ترس انسان تھے۔اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔شفا کے
علاوہ انسانوں سے محبت کرنے والا درد بھرا دل بھی عطا فرمایا تھا۔یہی وجہ
تھی کہ وہ غریب اور مستحق مریضوں سے فیس نہیں لیتے تھے اور دوا بھی مفت
فراہم کرتے تھے۔مگراسکی کسر وہ مالدار اور خوشحال مریضوں سے پوری کر لیتے ۔ایک
شام حسب معمول حکیم صاحب اپنے مطب پر بیٹھے مریض دیکھ رہے تھے۔دسمبر کی یخ
بستہ سردی شروع ہو چکی تھی۔شام کے وقت مطب پر مریضوں کا رش مزید بڑھ جایا
کرتا تھا۔ایک شام حکیم صاحب ایک مریض کو دیکھ رہے تھے،جو بڑا سرکاری
ٹھیکیدار تھا۔کہ اچانک ایک بوڑھی عورت مطب میں پریشان زدہ چہرے پر ہوائیاں
اڑ رہی تھیں،وہ سہمی سہمی حکیم صاحب کے قریب آکر چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔وہ کچھ
کہنا چاہتی تھی مگر الفاظ اسکے ہونٹوں پر آ کر لرز کر رہ جاتے۔
’’محترمہ آپ اس کرسی پر اطمینان سے بیٹھ جائیں۔اس مریض سے فارغ ہو کر میں
آپ کی بات سنتا ہوں‘‘حکیم صاحب نے بڑے نرم اور تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ان
کے لب ولہجہ کی نرمی سے بڑھیا کو حوصلہ ہوا تو اس نے کانپتی ہوئی آواز میں
کہا۔’’بیٹھنے والی بات نہیں ہے جی۔‘‘
’’آپ کھل کر بتائیں آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘‘حکیم صاحب کا لہجہ مزید نرم اور
تسلی بخش تھا۔
حکیم صاحب!آپ میرے ساتھ چلیں۔اس کا اجر آپ کو خدا دے گا،میری بیٹی بہت
بیمار ہے۔آپ اسے میرے گھر چل کر دیکھ لیں۔
’’کیا وہ یہاں نہیں آ سکتی؟‘‘ٹھیکیدار مریض بڑی تلخی سے بولا۔شاید اسے ایک
غریب بڑھیا کے مقابلے میں اپنے آپ کو نظر انداز کروانا بہت ناگوار گزرا تھا۔
بڑھیا کی آنکھوں میں بے بسی،بے چارگی اور نا امیدی کے بادل سے امڈ آئے۔وہ
اس امیر زادے کے تلخ لہجہ سے خوف زدہ ہو گئی تھی۔حکیم صاحب فوراً اٹھ کھڑے
ہوئے اور مال دار موٹی اسامی سے معذرت کرتے ہوئے یہ کہہ کر ’’آپ انتظار کر
سکتے ہیں تو تشریف رکھیں‘‘بڑھیا کے ساتھ چل دیے۔گندگی اور غلاظت بھری گلیوں
سے گزر کر وہ بڑھیا کے ساتھ ایک ایسی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں داخل ہوئے جو
شاید جانوروں کے رہنے کے قابل بھی نہ تھی۔بڑھیا نے ایک کونے کی طرف اشارہ
کیا،پہلے تو اندھیروں کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا۔جب آنکھیں اندھیرے سے کچھ
مانوس ہوئیں تو فرط غم سے حکیم صاحب جیسے زمین میں گڑ گئے ہوں۔ننگے فرش پر
اس بڑھیا کی نوجوان بیٹی آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی اور اس نے اپنے جسم
کو اس سخت سردی میں پرانے اخبار کے کاغذوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔لباس نام کی
ایک دھجی بھی اسکے بدن پر نہ تھی۔حکیم صاحب نبض دیکھے بغیر ہی بات کی تہہ
کو پہنچ گئے۔مسلسل فاقوں اور سردی سے حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نیم جان
ہو چکی تھی۔اور وہ جانتے تھے کہ بھوک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یہ
کمزوری کتنی جان لیوا ہوتی ہے۔آدمی لمحہ لمحہ مرتا ہے اور ہر لمحہ رگ رگ سے
جان کھنچتی محسوس ہوتی ہے۔
حکیم صاحب نے بوڑھی عورت سے دوا لانے کے بہانے اجازت لی اور بازار جا کر
حسب استطاعت مناسب لباس اور خوراک کا بندوبست کر کے واپس لوٹے۔پوچھنے پر
حکیم صاحب کو معلوم ہوا کہ ماں،بیٹی کو یہ تک یاد نہیں کہ انہوں نے آخری
بار کب کھانا کھایا تھا۔
یہ حقیقی واقعہ کم وبیش پون صدی قبل کا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس عرصے میں
انسانی تہذیب و تمدن نے بڑی ترقی کر لی ہے۔غلامی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔آزادی
رائے کا حق دنیا نے تسلیم کر لیا ہے۔اقوام عالم کی ہزار ہا تنظیموں نے
غریبوں کے لئے اربوں روپے کے فنڈ اکھٹے کر رکھے ہیں۔غربت تقریباً اختتامی
دوراہے پر کھڑی ہے۔ہمارے اپنے ملک میں بھی خوشحالی کے دریا بہہ رہے ہیں۔اسی
وجہ سے ہمارے خوشحال ملک کے صدر صاحب کے صرف حال ہی میں تعمیر شروع کیے
جانے والے ’’باورچی خانہ‘‘ کا خرچہ کروڑوں میں بتایا جا رہا ہے۔رواں ہفتے
اخبارات کی زینت بننے والی اس خبر کو پڑھ کر مجھے چنداں حیرت نہ ہوتی اگر
میں نے کبھی اس ملک کے پوش اور بلندو بالا عمارتوں کے بغل میں بنی کثیر
تعداد میں جھگیاں اور ان میں رہنے والی مخلوق نہ دیکھی ہوتی۔مجھے کبھی ایسے
’’شاہی کچن‘‘کی خبر پڑھ کر افسوس نہ ہوتا،اگر میں نے کبھی چولہے پر ’’پانی
پتی‘‘چائے پکا کر سوکھی روٹی سے ٹکڑے چبانے والوں کو نہ دیکھا ہوتا۔مجھے
صدر کی اس عالمگیر’’خوشحالی‘‘پر خوشی ہوتی،اگر میں نے کبھی تیل سے چکٹ کپڑے
پہنے کسی گاڑی کے نیچے لیٹے بچے یا میز پر ٹاکی مارتے کسی چھوٹے ،کہر کی
سردی میں ناکافی لباس کی وجہ سے ٹھٹھرتے کسی نونہال اور گندگی کے ڈھیر سے
رزق تلاش کرتے کسی معصوم کو نہ دیکھا ہوتا۔مجھے یہ خبر پڑھ کر لگا جیسے ہم
بے درد انسانوں نے اس جنگل کو مزید درندگی سے بھر دیا ہو۔
آج پون صدی بعد بھی بقول ان کے انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کے باوجود نہ
جانے کیوں آج بھی مزدوری کر کے لوٹنے والے کی جیب سے چند سو روپے چھیننے کی
خاطر گولی مار دی جاتی ہے اور اس کی غریب بوڑھی ماں اپنے مزدور بیٹے کے لئے
انصاف مانگتے مانگتے قبر میں اتر جاتی ہے۔غریب عوام کے درد میں گھلی جانے
والے لیڈر کی کار کے ٹائروں میں خون اور انسانی گوشت کے ٹکڑے نظر آتے
ہیں۔نہ جانے کیوں!پون صدی بعد بھی چیتھڑوں میں ملبوس ،بھوکے پیٹ اور ننگے
بدن بے شمار ہیں۔نہ جانے کیوں پون صدی بعد بھی بے شمار جسم سخت سردی میں
جسم پر اخبار لپیٹے کپکپاتے نظر آتے ہیں۔آج پون صدی بعد بھی لا تعدادجسم
بھوک کی شدت سے تڑپتے تڑپتے ساکت ہو جاتے ہیں۔آج بھی بہت سے لوگ پانی کی
ایک صاف بوندپر لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔آج پون صدی بعد بھی
بھوک و افلاس کا مقابلہ کرتے کرتے بہت سے لوگ خود کو آگ لگاکر موت کے منہ
میں چلے جاتے ہیں۔آج بھی بہت سی مائیں ایسی ہیں جو اپنے معصوم بچے کو عید
پر نیا سوٹ نہ لے کر دے پانے کی وجہ سے پھندے سے جھول جاتی ہیں۔نہ جانے
کیوں آج پون صدی بعد بھی کچے گھروں اور ٹوٹی دیواروں میں کوئی فرق نہیں آیا
۔دنیا کے قیمتی ترین ’’شاہی کچن‘‘والے ملک میں آج بھی ایسے گھر بے شمار
ہیں،جن کی چھتوں سے بارش کا پانی ایسے زوروں سے ٹپکتا ہے کہ گھر کے مکین
چھت گرنے کے خوف سے صحن میں بیٹھ کر بارش میں بھیگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
۔ماننا پڑے گا کہ آج پون صدی بعد دنیا وہیں کی وہیں کھڑی ہے ۔وہی ننگے
بدن،بھوکے پیٹ،بخار میں تڑپتے جسم کی خاطر دوائی کے لئے بھیک مانگتے
ہاتھ،سردی سے کپکپاتے اور پھرساکت ہوتے بدن،سب کچھ وہی ہے ۔فرق ہے تو بس
اتنا کہ آج اپنے سے کمزوروں کا لہو نچوڑنے والی مشینیں زیادہ ہو گئی ہیں۔
انسانیت کے اس جنگل میں درندوں کی تعداد اب لا تعداد ہو گئی ہے ۔
اقتدار میں بیٹھے ان بے حس اور سنگدل لوگوں کے لئے اپنے بنگلے کا صرف
ڈیزائن تبدیل کرنے کے لئے دو چار کروڑ معمولی بات ہے اور اپنی ناجائز
خواہشات کی تکمیل کیلئے اربوں،کھربوں کی گنتی کسی شمار میں نہیں۔کاش ہمارے
ارباب اختیار اس بات کا احساس کر لیں تو نہ جانے کتنوں کا بھلا ہو جائے۔ |