اب غلطی کی گنجائش نہیں

بنوں جیل پر شدت پسندوں کے حملے اور سینکڑوں قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کررکھ دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سول انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی اور پولیس رسپانس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس حملے میں 500 سے زائد شدت پسند وں نے راکٹ لانچروں اور بموں سے لیس ہوکر حصہ لیا اور مشرف حملہ کیس کے ملزم عدنان رشیداور اہم طالبان کمانڈروں سمیت 386 قیدیوں کو چھڑا کر کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر اطمینان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جیل سے بھاگنے والے قیدیوں میں انتہائی خطرناک دہشت گردوں کے علاوہ پھانسی کے منتظر 22 قیدی بھی شامل ہیں۔ جیل انتظامیہ اور پولیس دہشت گردوں کے اس جم غفیر کی مذاحمت تو کیا سامنا بھی نہ کرسکے البتہ خود ان کی فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ضرور ہوئے۔ حملہ آور جو گاڑیوں میں سوارتھے سینٹرل جیل کے مین گیٹ کو راکٹ سے تباہ کرنے کے بعد جیل کے اندر داخل ہوئے اور جیل کے دوسرے اور تیسرے گیٹ کو بھی بم سے اڑانے کے بعد جیل عملے کو یرغمال بنا کر پھانسی گھاٹ اور بیرکوں کے اندر تک پہنچ گئے۔حملہ آوروں نے جیل میں موجود تمام ریکارڈ کو بھی آگ لگائی اور ایک گھنٹہ 30 منٹ تک جیل کے اندر فائرنگ کرتے رہے اور قیدیوں کو چھڑاتے رہے۔حملے کے وقت جیل میں 104 پولیس اہلکاروں میں سے ڈیوٹی پر 35 اہلکار موجود تھے۔ حملہ آور پرویز مشرف حملے کے ملزم عدنان رشید کو چھڑانے کے بعد جلوس کی شکل میں اپنے ساتھ لے گئے اور جیل کے اندر ہی اس کی دستار بندی کی۔

وزارت داخلہ کو موصول ہونے والے حملے کی ابتدائی رپورٹ میں اس واقعہ کو پولیس کی غفلت اور انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جیل میں تعینات 93 اہلکاروں میں سے 63 غیر حاضر جبکہ 20 غیر مسلح تھے اور حملہ آوروں نے دو گھنٹے تک جیل میں کارروائی کی۔ رپورٹ میں اس امر پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایک کلو میٹر سے کم فاصلے پر ایک تھانہ جبکہ چار کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر دو پولیس تھانے واقع ہیں اس کے باوجود پولیس بروقت کارروائی کے لئے موقع پر نہ پہنچ سکی۔تحریک طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاہے کہ حملے کی منصوبہ بندی کئی ماہ سے جاری تھی ۔ طالبان کے ایک کمانڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ قیدیوں کو فرار کرانے کی غرض سے بنوں جیل پر حملے کے لئے دو کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ مقامی لوگوں کی حمایت کی وجہ سے آپریشن کامیاب رہا۔ طالبان کمانڈر نے بتایا کہ ان کے پاس پورے علاقے اور جیل کا مکمل نقشہ بھی تھا۔

بنوں جیل میں ہونے والے اس ڈرامائی حملے نے حکومت کی رٹ کو شدید قسم کی دھچکا پہنچایا ہے اوردہشت گردی پر قابوپانے کے دعوﺅں کی یکسرنفی کردی ہے ۔ اس واقعہ کی پلاننگ تو شاید چند لوگوں نے کسی خفیہ مقام پر بیٹھ کر کی ہوگی جس کا سراغ نہ لگایا جاسکتا ہو مگر حیران کن امر ہے کہ 500افراد کا جم غفیر ، گاڑیوں کا بندوبست، اسلحہ اور پھر محفوظ روانگی حتیٰ کہ منزل تک پہنچنے کی ذرا بھی بھنک سیکورٹی کے اداروں کو نہ ہوسکی۔ اس پہلو نے پوری پاکستانی قوم کوبے چینی کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے۔چلیں یہاں غفلت ہوگئی لیکن جب یہ دہشت گرد بنوں جیل کے دروازے توڑتے ہیں تواس وقت بھی انہیں کسی قسم کی مذاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ وہ باآسانی پھانسی گھاٹ پر پہنچ کر تسلی سے اپنے ٹارگٹ حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف پر حملہ کیس کے ملزم کی دستاربندی بھی کرتے ہیں، مگر پولیس کے جوابی حملے کی کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ بہت سے قیدی فرار ہوجاتے ہیں۔ حملہ آور بھی اپنے ساتھیوں کو گاڑی میں بٹھاتے ہیں اور ایک جلوس کی شکل میں شمالی وزیر ستان روانہ ہونے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ راستے میں کوئی بھی حکومتی ادارہ انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ دور دور تک مزاحمت کے آثار نہیں ہوتے اور وہ ہماری سول انتظامیہ اور حکومتی رٹ کا منہ چڑاتے ہوئے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد حکومت اوراس کے ادارے دہشت گردوں کے خلاف تو کچھ نہ کرسکے البتہ اس واقعہ کی ذمہ اداری ایک دوسرے پر ضرور ڈالتے نظر آئے۔ غفلت جیل انتظامیہ سے ہوئی خفیہ ایجنسیوں سے سرزدہوئی یا پھر پولیس سے اب ہر کوئی ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔صوبائی حکومت اور وزارتِ داخلہ نے بھی اپنی روایتی کارروائی کرتے ہوئے کمشنربنوں عبداللہ خان محسود ،آئی جی جیل خانہ جات ارشد مجید مہمند، ڈی آئی جی پولیس رینج بنوں محمدافتخار خان اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل محمد زاہد کو ان کے عہدے سے ہٹا نے کے احکامات صادر کرکے خود کو بری الذمہ قراردینے کی کوشش کی ہے۔

خفیہ ایجنسیوں والے تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے کہ ہم نے تو اس واقعہ کے بارے میں پہلے ہی اطلاع دے دی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوہاٹ اور بنوں کے علاقوں میں طارق جیدار گروپ کے کمانڈر عسکری کی دھمکی کے بعد ممکنہ دہشت گردحملوں کے بارے میں متعلقہ حکام کو جنوری میں ہی آگاہ کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا تھا کہ دہشت گرد کوہاٹ پی اے ایف بیس، کوہاٹ کنٹونمنٹ ایریا ، پولیس اسٹیشن لاچی اور بنوں جیل پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تاکہ اپنے ساتھیوں کو چھڑا سکیں۔ ذرائع کے مطابق بنوں جیل حملہ انٹیلی جنس ناکامی نہیں کیونکہ صوبائی اور وفاقی اہلکاروں کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی ۔

سوال یہ ہے کہ اگر واقعی خفیہ ایجنسیوں نے متعلقہ احکام کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا تو اس کے باوجود صوبائی حکومت اور وزارت ِ داخلہ نے ایسے حملے کو ناکام بنانے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو عوام اپنے ان ”محافظوں“ سے پوچھنا چاہتے ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر بھاری تنخواہیں اور مراعات تو وصول کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان کی کارکردگی صفر ہے اور وہ صرف اور صرف غفلت کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ بنوں جیل کے واقعے نے عوام میں عدم تحفظ کے احساس کو دو چند کردیا ہے۔ اگر فوری طورپر ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی نہ کی گئی تو غفلت کا عفریت عام ہوجائے گا اور نتیجہ کے طور پر حکومت کی رٹ اتنی کمزور ہوجائے گی کہ ریاست پر ایک چھوٹا سا گروپ بھی آسانی سے حاوی ہوجائے گا اور اس طرح خانہ جنگی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ اب ہمارے پاس مزید وقت نہیںہے۔مزید غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔ خدارا، بے بسی، مایوسی ، لاچارگی، سردمہری اور خود غرضی کے خول سے باہر نکل آئیں ، ورنہ ہم اپنے وطن اور آئندہ نسلوں کو غلامی کی تاریک راہوں میں ہمیشہ کے لئے دھکیل دیں گے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69604 views Columnist/Journalist.. View More