اسلام آباد ائیرپورٹ کے انٹرنیشنل فلائٹس
کے لاؤنج میں اپنے پٹھان دوست کے پیچھے داخل ہوگیا - مزے کی بات جس وقت
دروازہ کھول کر داخل ہورہا تھا اس وقت بھی ایک پٹھان سیکورٹی گارڈ نے کہا
کہ سامان چیک کرواؤ - مجھ سے پہلے میرے دوست کو روکا گیا اور اس سے پاسپورٹ
لیا اس دوران ان کی گفتگو شروع ہوئی میں دور تھا لیکن سمجھ نہیں آیا کہ
دونوں کے درمیان کیا بات ہورہی ہے جس وقت میری باری آئی تو اسی بندے نے
میرا پاسپورٹ لیا اور پوچھا کہ کہاں جارہے ہو میں نے جواب دیا کہ تھائی
لینڈ `پھر پوچھا کس لئے جارہے ہوں کیا کرو گے میں نے جواب دیا کہ ٹریننگ
کیلئے جارہا ہوں پھر اسی نے سوال کیا کہ کیا کرتے ہوں میں نے جواب دیا کہ
صحافی ہوں اور ٹی وی کیساتھ وابستہ ہوں - دوران گفتگو متعلقہ سیکورٹی گارڈ
کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے میں اس کا غلام ہوں لیکن جب میں نے اپنا تعارف
کروایا تو مجھے کہا کہ "ٹھیک ہے ٹھیک ہے جی آپ جائیں " جب میں نے سوال کیا
کہ میرے اس دوست کو کیوں روکا ہے تو مجھے کہا کہ تم چلے جاؤ - یہ آجائینگے-
میں نے اپنا بیگ اٹھا لیا اور تھائی ائیر لائنز کے کاؤنٹر پر چلا گیا وہاں
بہت رش لگی ہوئی تھی ایک سیکورٹی اہلکار نے بڑی رعونت سے مجھے کہا کہ کدھر
جارہے ہوں اور کونسے کلاس میں ہو- میں نے جواب دیا کہ تھائی ائیر لائنزمیں
بنکاک جانا ہے اور غریب صحافی ہوں اتنی اوقات نہیں کہ بزنس کلاس میں جاؤں
اس لئے اکانومی کلاس میں جارہا ہوں -پھر اس نے جواب دیا کہ اچھا جاؤ پھر
اکانومی کلاس کے لائن میں کھڑے ہو جاؤ -
جس وقت تھائی ائیر لائنز کے کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں دولڑکیاں بیٹھی تھی جو
بورڈنگ کارڈ دے رہی تھی میرا پاسپورٹ مجھ سے لے لیا اور پوچھا کہ پہلے کبھی
تھائی لینڈ گئے ہو یا پہلے بھی گئے ہوں -آنکھیں اس کی چینی لوگوں کی طرح
چھوٹی اور ماتھا چوڑا تھا یعنی تھائی لینڈ والوں نے بھی پاکستان میں ڈھونڈ
ڈھانڈ کر ایسی لڑکیاں بھرتی کی تھی جیسے ان کے آباؤ و اجداد تھائی لینڈ سے
تعلق رکھتے ہوں - ایک محترمہ نے سوال کیا کہ کس لئے جارہے ہوں میں نے رٹا
رٹایا جواب دیا کہ ٹریننگ سیشن کیلئے جارہا ہوں پھر پوچھا گیا کہ کتنے ڈالر
ہیں میں نے جواب دیا کہ جتنے ضروری ہیں اتنے لے کر جارہا ہوں -پھر محترمہ
نے سر اٹھا کر مجھ سے سوال کیا کہ ہوٹل کی بکنگ ہے میں نے نفی میں جواب دیا
کریڈٹ کارڈ کے بارے میں پوچھا گیا اتنے سوال کرنے کے بعد بھی محترمہ نے مجھ
سے کہا کہ ایک منٹ میں صاحب سے پوچھ کر آتی ہوں اسی وقت وہ صاحب بھی کاؤنٹر
پر آگئے محترمہ نے میرا پاسپورٹ ان کو دیا اور ایسے انداز میں کہا کہ " یہ
صاحب پہلی مرتبہ تھائی لینڈ جارہے ہیں " انداز ایسے تھا جیسا کہ " شکل سے
بھوکا لگنے والا یہ بندہ پہلی مرتبہ تھائی لینڈ جارہا ہے کہیں غائب نہ
ہوجائے " اس صاحب نے میری طرف دیکھا میں نے چہرے پر معصومیت لانے کی کوشش
کی حالانکہ صحافی ہونے کی وجہ سے یہ کام مشکل تھا لیکن شائد میں اس کوشش
میں کامیاب ہوا اور اس صاحب نے کہا کہ اوکے بورڈنگ کارڈ جاری کرو- اس چھوٹی
آنکھوں والی محترمہ نے بورڈنگ کارڈ جاری کردیا میں سمجھا کہ بڑا تیر مار
لیا ہے میں نے اپنے پٹھان دوست کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ نظر نہیں
آئے-اس وقت چھوٹے بھائی کا فون آگیا کہ امیگریشن سے نکل گئے ہو کہ نہیں میں
نے کہا کہ نہیں ابھی یہاں ہوں-
پاسپورٹ چیکنگ کا عمل شروع ہوا تو ایک عورت جو نام کی عورت تھی لیکن اللہ
بچائے اتنی موٹی عورت میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھی یہ الگ بات کہ اب
ایک خاتون وزیر جو کہ اچھی خاصی صحت کی حامل ہے کے مقابلے کی تھی نے
انتہائی نخوت بھرے لہجے میں پاسپورٹ لیا پوچھا کہاں جارہے ہوں جواب تو دیا
لیکن اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا کہ یہ عورت کیسے اٹھتی ہوگی کیسے اس کا
ْمیاں ہوگا وہ اس کیساتھ کیسے گزارا کرتا ہوگا -اس وقت میں نے اللہ کا شکر
ادا کیا کہ اگر میری بیوی ایسی ہوتی تو اللہ توبہ - یکدم اس عورت نے مجھے
کہا کہ واپس جاؤ اگر وہ ایف آئی اے والے ہمارے بڑے افسر آپ کو کہیں تو تب
آپ جاسکتے ہیں ورنہ نہیں -پھر واپس آگیا اور ایک اور صاحب سے ملا اس سے
تعارف کروایا سوال و جواب کا پندرہ منٹ کا سیشن ہوا پھر مجھے اوکے رپورٹ
ملی- میں اس وقت دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کیسا عمل ہے کیوں اس
طرح ہورہا ہے لیکن خاموشی سے ہر حکم پر عمل کرتا رہا دوبارہ اسی موٹی عورت
کے پاس گیا اسے کہا کہ تمھارے صاحب نے اوکے رپورٹ دی ہے تبھی اس نے میرے
پاسپورٹ پر مہر لگا دیا اور مجھے کہا کہ اندر چلے جاؤ-
پھر سکیننگ کا عمل شروع ہوا بیگ کی تلاشی کے بعد میری تلاشی تین مرتبہ
جسمانی اور کمپیوٹر کے ذریعے لی گئی پینٹ کی بیلٹ تک اتار لی گئی شکر ہے کہ
اتنے تک رہے یہاں سے فارغ ہو کر اوپرلاؤنج میں چلا گیا اور ایک کرسی پر
بیٹھ گیا تقریبا پینتالیس منٹ ان لوگوں نے اس عمل میں خوار کیا اور پھر
رویہ بھی ان کا ایسا تھا کہ جیسے "اپنے کھیت میں دوسرے کا جانور پکڑ و اور
اس کو مارمار کر بھگا دو "یعنی اس طرح کا عمل میرے ساتھ کیا گیا -میں ابھی
لاؤنج میں لوگوں کو دیکھ رہا تھا کہ کچھ وقت بعد میرا پٹھان دوست بھی میرے
پیچھے لاؤنج میں داخل ہوگیا-
میں نے پوچھا کہ خیریت ہے کیونکہ اس کے ماتھے پر بارہ بج رہے تھے اور منہ
سے پشتو میں وہ "خوبصورت گالیاں" نکل رہی تھی جس کو سننا بھی بڑے دل گردے
کی بات ہے میں نے کہا کہ پانی پی لو پھر بات کرو لیکن اس نے جواب دیا کہ یہ
" کتے " مجھ سے 100 ڈالر مانگ رہے تھے اس دوست کے بقول میرا گناہ کیا ہے کہ
میں 100 ڈالر آپ کو دوں تو ایف آئی اے والوں کا موقف تھا کہ تم سیر کرنے
جارہے ہوں تو ہمارا بھی کچھ تو حق ہے لیکن میرے پٹھان دوست نے کہا کہ میں
تو نہیں دے رہا آخر مجبور ہو کر ایف آئی اے والوں نے اسے چھوڑ دیا - یہ سن
کر میرا دماغ کا پارا بھی گھوم گیا کہ یہ "حرام کھانے والے "کیسے کیسے
طریقوں سے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں پھر مجھے بھی احساس ہوا کہ مجھے آگے پیچھے
دوڑانے کا مطلب بھی یہی تھا کہ "خوچہ کچھ خرچہ نکالو " لیکن ہمارا بھی دماغ
پٹھانوں والا ہے سب کو اپنی طرح سمجھ رہے تھے - افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی
آیا کہ کیا ان لوگوں کو تنخواہ نہیں ملتی جو اس طرح کررہے ہیں میرے اس دوست
کے بقول یہاں ہر ایک کی اپنی دکانداری ہے اور ہزاروں روپے اسی چکر میں
مسافروں سے نکلوائے جاتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں -
کچھ وقت تو ہم دونوں ملکی صورتحال پر بات کرتے رہے جب غصہ ذرا ٹھنڈا ہوگیا
تو ائیر پورٹ لاؤنج کی طرف دیکھا تو پتہ چلا کہ زیادہ تر تھائی لینڈ کے لوگ
ہیں جو نئے سال کی آغاز میں اپنے گھر جارہے ہیں میرا دوست نماز کیلئے چلا
گیا اور میں نے ایک شخص جو کہ لاؤنج میں تین کرسیوں پر سامان رکھ کر چار
کرسیوں پر لیٹ گیا تھا سے سوال کیا کہ بھائی کیا ہوا ہے کہ تم یہاں لیٹے
ہوں تو اس نے قومی ائیر لائن کی شان میں وہ " گلکاریاں " کی کہ چھ گھنٹے
لیٹ ہے اور ابھی بھی پتہ نہیں کس وقت جائے سو یہاں لیٹ کر اپنا وقت گزارنے
پر مجبور ہیں-بقول اس مسافر کہ میں دوسرے ائیر لائنز کی جہازوں میں سفر
کرتا ہوں لیکن اس دفعہ قومی ائیر لائن کی محبت جاگ اٹھی تھی جو ٹکٹ لیا
لیکن اب ایسا عمل ہوا کہ میرے آئندے آنیوالے تین نسلوں کی بھی توبہ کہ میں
نے قومی ائیر لائن کی جہاز کا ٹکٹ لوں-
دو گھنٹے بعد آواز آئی کہ تھائی لینڈ والے مسافر لائن میں لگ جائے یہ آواز
سننا تھا کہ سب لوگ جو خاموش بیٹھے تھے ایک دم بھاگ دوڑ میں لگ گئے میں
سمجھا کہ جہاز میں سیٹ کم ہیں اس لئے ہر کوئی ایسے بھاگ رہا ہے ہر پاکستانی
دوسرے پاکستانی کو کچل کر آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ جو غیر ملکی
کھڑے تھے وہ قطار میں کھڑے تھے میں نے اپنے پٹھان دوست کو آواز دی اور لائن
میں کھڑے ہوگئے اس چھوٹی آنکھوں والی محترمہ نے بورڈنگ کارڈ لیا نصف کرکے
مجھے واپس کیا اور میں جہاز کی طرف جانے کیلئے ائیرپورٹ ٹرمینل میں چلنے
والی گاڑی میں پہنچ گیااس وقت رات کا ایک بج رہا تھا اور میں سوچ میں اپنے
گھر پہنچ گیا کہ اس وقت اگر گھر میں ہوتا تو آدھی نیند کی ہوتی - |