وہ بھی کیا دِن تھے!

خُون کے رشتوں کی طرح بعض بیماریاں بھی اِنسان کے مُقدر کا لازمی جُز ہوتی ہیں مگر خیر، اُن میں کچھ کچھ شِفاء بھی ہوتی ہے۔ یادوں میں گم رہنا، ماضی کو ہر وقت گلے لگائے رہنا بھی ایک ایسی ہی ”شفاءمآب“ بیماری ہے۔ یہ روگ تو وہ ہے جو کئی چھوٹے موٹے روگ ختم کردیتا ہے! یادیں بُرے حکمرانوں کی طرح ہوتی ہیں یعنی آسانی سے جان نہیں چھوڑتیں۔ کسی نہ کسی طرح، ساز باز کرکے، لوٹ آتی ہیں! یادیں بن بُلائے مہمانوں کی طرح کِسی بھی وقت وارد، بلکہ نازل ہوسکتی ہیں! گویا
دِل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی!

یعنی گھر کی کھیتی ہے، جب چاہیں اُگالیں اور کاٹ لیں!
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی!

گزرے ہوئے زمانوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وقت کا کام گزرنا ہے، گزر جائے گا۔ یہ گزرتا ہی جارہا ہے مگر دکھ اِس بات کا ہے کہ ہر گزرتا لمحہ گزرے ہوئے ادوار کو خزانوں میں تبدیل کر رہا ہے۔ آنے والا ہر پل کم مائیگی اور شدید عدم توقیر کا احساس دلا رہا ہے۔

گزرے ہوئے زمانوں پر طائرانہ سی نظر ڈالنے پر بھی دِل و دماغ کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ ہم کبھی اِن حسین ادوار سے بھی گزرے ہیں اور یہ فُسوں خیز زمانے ہماری زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں ”پاسٹ اِز ایندر کنٹری“ یعنی یہ کہ ماضی دراصل کسی اور مُلک کا نام ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ یادیں ہمیں کِسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں، اور حیرت و مسرت کا مِلا جُلا مقام یہ ہے کہ گرین پاسپورٹ کِسی مرحلے پر رُکاوٹ نہیں بنتا! اپنا ہی مُلک یادوں میں بسا ہوا دیکھیے تو کِسی اور مُلک جیسا دِکھائی دیتا ہے۔

یادیں انسان کو سُکون بھی دیتی ہیں اور سِتم بھی ڈھاتی ہیں۔ جن یادوں میں ہم راحت اور قرار ڈھونڈتے ہیں اُنہی حسین یادوں کے دامن سے دوبارہ وابستہ ہونا دِل پر تیر بھی برساتا ہے۔ کراچی میں جو زمانے گزرے ہیں وہ گزرے کہاں ہیں، بار بار گزر کر ستم ڈھا رہے ہیں۔ کبھی کبھی ماضی اِس قدر یاد آتا ہے کہ مستقبل نام کی کوئی شے دِکھائی نہیں دیتی۔ اور حال بے چارہ تو ویسے ہی اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔ یعنی تینوں زمانے مل کر صرف ایک زمانے یعنی ماضی میں تبدیل ہو جاتے ہیں!

بہت کچھ ہے جو اب صرف خواب ہوکر رہ گیا ہے۔ یادیں بچی ہیں جن میں ایک دنیا بسی ہے۔ اور جب تک یادوں کی بستی اُجڑتی نہیں، سُکون ہی سُکون ہے۔ قرار پانے کی اب یہی ایک اچھی صورت رہ گئی ہے۔ اور کون جانتا ہے یہ صورت بھی کب تک ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانے یاد کرنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی شاندار حویلی میں کوئی پُروقار اور پُرتکلف تقریب منعقد ہو رہی ہے اور ہم میلے کچیلے کپڑے پہنے اُس تقریب کا حِصّہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں! یادوں میں بسا ہوا کراچی بھی ایک ایسی ہی حویلی کے مانند ہے۔ ہم گیٹ پر کھڑے اندر کی رونق دیکھ دیکھ کر بس دِل مَسُوس کر رہ جاتے ہیں۔ یادوں کے معاملے میں ہمارا اختیار یہیں تک ہے۔

بہت سوچنے پر بھی یقین نہیں آتا کہ ہم اُسی شہر میں ہیں جس میں کبھی زندگی تھی، مسرتیں تھیں اور نفرت و خوف کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہی وہ شہر ہے جس میں لوگ دن کو رات اور رات کو دن کرنے میں زندگی کا لطف پایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ شب و روز کے گزرنے پر لوگ سُکون کا سانس لیتے ہوں کہ چلو، زندگی کا عذاب کچھ تو کم ہوا۔ اِس بستی کے لوگ زندگی کو نعمت اور موت کو اللہ کی طرف سے بُلاوا سمجھ کر قبول کیا کرتے تھے اور ہر حال میں اُس پر شاکر رہتے تھے جو اللہ بخش دے۔

آج سوچیے اور یاد کیجیے تو یقین ہی نہیں آتا کہ کراچی وہی شہر ہے جس میں شام کے 7 بجے لوگ کھا پی کر خاصے خشوع و خضوع کے ساتھ رات کے 9 بجے پی ٹی وی کا خبرنامہ سننے کے بعد خود کو نِندیا رانی کے آغوش میں دینے کی تیاری کیا کرتے تھے۔ رات دس بجے تک پبلک ٹرانسپورت بند ہو جایا کرتی تھی۔ پونے گیارہ بجے تک پی ٹی وی نشریات بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا کرتی تھیں۔ 1970 کے عشرے کے آخر تک کراچی میں رات واقعی رات ہوا کرتی تھی اور اللہ کے فرمان کے مطابق سُکون اور راحت کا سامان کیا کرتی تھی۔ آج ہم اُس رات کو ترس گئے ہیں جس میں تاریکی تھی، سنّاٹا تھا، سُکون تھا۔ یہی گلیاں تھیں، یہ سڑکیں تھیں مگر زندگی کی شکل خاصی مختلف تھی۔ دن بھر کی مشقت کے بعد لوگ رات بھر آرام کرنے پر یقین رکھتے تھے، کسی مقصد کے بغیر جاگنے اور بھٹکتے رہنے پر کسی کا ایمان نہ تھا۔ لوگ رات بھر جاگ کر خود کو اُلّوؤں کی صف میں کھڑا کرنے کے شوقین نہ تھے۔ نوجوان کرکٹ کھیلنے کے نام پر رات بھر جاگ کر اپنی صحت سے کھلواڑ کے عادی نہ تھے۔

وہ بھی کیا دن تھے کہ لوگ صبح کو گھر سے نکلتے وقت خوف محسوس نہ کرتے تھے اور دن بھر کی مشقت کے بعد شام کو گھر واپس آ جانا ”کارنامہ“ تصور نہیں کیا جاتا تھا!

نئی نسل کو کیا معلوم کہ کراچی میں ایک دور وہ بھی تھا جب سیاست تو تھی مگر اُس میں نفرت کی آمیزش لازمے کی حیثیت سے نہ تھی۔ لوگ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ذبح کرنے کے فراق میں نہیں رہتے تھے۔ کسی کے حق میں لگائے جانے والے نعرے لازمی طور پر کسی کے خلاف نہیں ہوتے تھے۔ لوگ کوئی بھی نعرہ بلند کرنے سے قبل اِتنا ضرور سوچتے تھے کہ اِس سے اُن کی بے عقلی تو ثابت نہیں ہوگی۔ یادوں کے دریچوں سے جھانکیے تو ایک ایسا دور بھی دکھائی دے گا جس میں سیاسی جماعت یا تنظیم سے وابستگی کا مطلب دیگر تمام جماعتوں اور تنظیموں کا مخالف ہو جانا نہیں تھا۔ کسی بھی تنظیم سے وابستہ ہونا مشکل تھا نہ چھوڑنا۔ سیاست کے نام پر قتل و غارت کو رواج اور ضرورت کا رُتبہ نہیں ملا تھا۔ مخالف سے نپٹنے کا واحد طریقہ اُس کے سر میں گولی مار کر لاش بوری بند کرکے پھینکنا نہیں تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب کسی کے لیے کوئی بھی علاقہ نو گو ایریا کا درجہ اختیار نہیں کرتا تھا۔ پورا شہر تمام شہریوں کا تھا۔ ہر شہری کے لیے تمام علاقے اپنے تھے، شہر میں کوئی علاقہ غیر نہیں تھا!

بچوں کی تفریح کے لیے مختص مقامات پر قبضہ کرنے کی قبیح رسم نے کراچی کا رخ بہت بعد میں کیا۔ یادوں کے نہاں خانوں میں آباد کراچی قبضہ اور بھتہ مافیا سے پاک تھا۔ علاقوں کو سیاسی اور لِسانی بنیاد پر تقسیم کرکے اُن پر قبضہ جمانے کا مقابلہ ابھی شروع نہ ہوا تھا۔ یہ منحسوس و مردود کھیل بہت بعد میں کراچی کے شہریوں کا مقدر بنا۔

ٹیچرز پڑھاتے تھے اور اِس طرح پڑھاتے تھے کہ ٹیوشن مافیا کو پھلنے پھولنے کی راہ نہیں مل پاتی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کسی بچے کا ٹیوشن لینا ٹیچر کو اپنی توہین محسوس ہوا کرتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹیوشن نہ لینے پر بھی طلباءنہ صرف پڑھ پاتے تھے بلکہ اچھے مارکس لیکر پاس ہونے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی بہت کچھ کر دکھاتے تھے!

نئی نسل کو کیسے یقین دلائیے، کس طور سمجھائیے کہ کراچی میں کبھی ایسا بھی ماحول تھا کہ راہ چلتوں کو لُٹنے کا خوف لاحق نہ رہتا تھا۔ لوگ گھر سے نکلتے وقت خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اور واپسی پر، خراب حالات کے ہاتھوں، راستوں میں پھنس جانے پر گھر سے نکلنے کے فیصلے کو کوستے نہیں تھے!

اب تو نئی نسل کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں کہ کراچی میں لوگ راتوں کو گلی اور سڑک پر چارپائیاں بچھاکر سویا کرتے تھے اور کِسی کے دل میں کِسی اندھی گولی سے مارے جانے کا خوف نہیں بسا کرتا تھا۔

کبھی اِسی شہر میں لوگ گفتگو کا فن بھی جانتے تھے اور سماعت کے تقاضوں کو بھی سمجھتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بولنے کے نام پر بھونکنا کیا ہوتا ہے! بحث کے دوران تھوک اُڑاتے اینکر پرسنز تھے نہ اپنی اپنی جماعت کو پاک پوتر قرار دینے پر تُلے ہوئے سیاسی رہنما۔

وہ زمانہ بھی اب خوابوں اور یادوں کا حصہ ہے جب سبزی والا مختلف سبزیاں خریدنے پر ہرا دھنیا، پودینہ اور ہری مرچ مفت دے دیا کرتا تھا! دودھ، انڈے، بریڈ، مکھن اور دوسری بہت سی اشیائے خور و نوش کے نرخ یومیہ بنیاد پر نہیں بڑھتے تھے۔ لوگوں کو یقین ہوتا تھا کہ وہ گھر سے جو رقم لیکر نکلے ہیں اُس کی مدد سے تمام مطلوبہ اشیاء لیکر ہی گھر لوٹیں گے! دکاندار سے کہنا نہیں پڑتا تھا کہ کم نہ تولو۔

اب تو بس یہ آرزو ہے کہ گزرے ہوئے زمانے لوٹ آئیں۔ اُن زمانوں کو تو اب لوٹ کر آنا نہیں، اللہ سے دُعا ہے کہ ہم اپنے زمانے کی کایا کچھ اِس طرح پلٹنے میں کامیاب ہو جائیں کہ دس بیس برس بعد اِس زمانے کو یاد کریں تو اپنے آپ سے شرم نہ آئے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524669 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More