پاکستانی میڈیا بالخصوص
الیکٹرانک میڈیاکی جانب سے نان ایشوز میں ضرورت سے زیادہ اُلجھے رہنے کا
موجودہ رویہ اور رجحان غیر پختہ ذہن کی علامت ہے،کہ وہ نان ایشوز کو ضرورت
سے زیادہ اُچھالتا ہے اور پھر اسے غیر فطری انداز سے دبا دیا جاتا ہے۔اسی
وجہ سے وہ ایشوز جس سے پوری قوم اور ملک دوچار ہیں وہ پس پردہ چلے جاتے
ہیں،جوکہ نہ صرف ملک اور عوام کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ پیشہ ورانہ نااہلی
اور نالائقی کے زمرہ میں بھی آتا ہے۔جس کے باعث ملک کے اصل ایشوز میڈیا کی
اُس توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے جو ان کا حق ہے۔کسی بھی مسئلے کو آسمان تک
اُچھالنے سے پہلےاس کا اچھی طرح جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے آیا کہ یہ معاملہ
حقیقت پر مبنی بھی ہے ،اور اس سے ملک و قوم کو کیا فائدہ و نقصان ہو سکتا
ہے۔لیکن ہمارے میڈیا میں اس روش کا ابھی تک فقدان نظر آرہا ہے ،چونکہ ہمارا
الیکٹرانک میڈیا ابھی نیا ہے اور اسے بتدریج سفر جاری رکھ کر بہتری کی طرف
جانا ہے۔
میرے معزز قارئین ہمیں آج کے کالم میں مفاہمتی سیاست کے نام پر ظہور پذیر
ہونے والی اس حکومت کے کارنامے، خوبیاں اور خامیوں کا ملک و عوام کے مفاد
کے تناظر میں موجودہ حکمرانوں کی جانب سے کیے گیئے فیصلوں اور اختیار کی
گئی پالیسوں اور اعداد و شمار کے جائزے کے بعد موجودہ حکومت اپنے دعووں اور
منشور میں کس حد تک کامیاب اور ناکام رہی ہے،لیکن اس سے پہلے یہ جاننا بہت
ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کیا واقعی کام اور نام کے اعتبار سے جمہوریت کی
تعریف پر محیط ابھی اُترتی ہے کہ نہیں؟ عام فہم اور سادہ لوح تعریف کو ہی
لے لیجئے کہ عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے حکومت اور عوام کیلئے حکومت ،
جمہوریت کی اس تعریف میں کسی بھی جمہوری حکومت کیلئے ان پہلوں کے اعتبار سے
پورا اُترنا ضروری ہے۔ آئیے اس دور اقتدار میں لیئے گئے فیصلوں اور اختیار
کی گئی پالیسوں اور اعدادو شمار کے ذریعے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے
ہیںکہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کہاں کھڑی ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ عوام کے
ووٹوں کے ذریعے یہ حکومت منتخب ہوئی اس میں آزادانہ ووٹ کا حق استعمال ہوا
یا نہیں اس سوال سے قطع نظر کچھ وقت کیلئے یہ مان بھی لیا جائے کہ عوام کے
ووٹوں سے منتخب ہونے کے باعث اسے عوام کی حکومت کس حد تک کہا جا سکتا ہے۔
لیکن غیر جانبدار انداز میں اس کی پالیسوں اور فیصلوں کا تجزیہ کیا جائے تو
اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ نہ تو یہ عوام کے ذریعے حکومت معلوم ہوتی ہے
اور نہ ہی عوام کیلئے لگتی ہے کیونکہ جو حکومت عوام کیلئے ہوتی ہے اس کے
فیصلوں سے عوام دوستی کی جھلک نظر آتی ہے نہ کہ عوام دشمنی پر مبنی،۔اسی
طرح عوام کے ذریعے حکومت کا مطلب ہے کہ فیصلوں اور پالیسیوں کے دوران عوامی
خواہشات کو نظر انداز کیا جائے۔مگر اس حکومت کے فیصلے پارلیمنٹ کے ایوان
میں نہیں بلکہ اس سے بالا بالا کہیں اور ہی ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس بنا
پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت جمہوریت کی سادہ اور عام فہم تعریف
پر بھی پورا نہیں اُترتی۔ملک کی اقتصادی صورت حال روز بروز نا گفتہ بہ ہوتی
جا رہی ہے اور عوام کا معیار زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے۔برطانوی ادارے
لیگالم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی عالمی معیار زندگی کی جائزہ رپورٹ کے مطابق
معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان اب 106 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے ،ایتھوپیا
سے صرف 4نمبر آگے۔آمدنی اور روز گار کے موقع کے اعتبار سے کستان کاان چند
سالوں میں گراف بری طرح گرا ہے۔پاکستان میں روزگار کے مواقع کی دستیابی کے
حوالے سے86 ویں،معیشت و صحت میں 96 ویں اور عام آدمی کے تحفظ میں 110 ویں
نمبر پر ہے۔110 ممالک کی درجہ بندی میں ایتھوپیا ،زمبابوے اور صرف وسطی
افریقہ کا گراف پاکستان سے نیچے ہے،اور اس رپورٹ کے مطابق پاکستان ان میں
ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔پاکستان اس وقت گڈ گورننس کے لحاظ سے
98ویں سوشل کیپٹل میں 100 ویں،شخصی آزادی میں 104 ویں،تعلیم میں 105ویں
جبکہ ایک عام آدمی کے تحفظ میں 109 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ادارے کے مطابق
پاکستان کی ان شعبوں میں غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجوہات معاشی عدم
استحکام،جدید ٹیکنالوجی تک عدم رسائی، آمدنیوں میں عدم مساوات،سیاسی نظام
کا احتساب نہ ہونا،صحت عامہ پر خرچ کی جانے والی محدود رقم،نہ گفتہ بہ
تعلیمی معیاراور سماجی آزادیوں پر پابندی بتائی گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ جب یہ جمہوری حکومت وجود میں آئی تو اس وقت ملک کو بے پناہ اندرونی اور
بیرونی مسائل کا سامنا تھا،جن میں محترمہ کی شہادت کے بعد قیادتی بحران ،
دہشت گردی،امن و امان کی صورت حال،سیلاب کی تباہ کاریاں،مخدوس اوتصادی صورت
حال کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر مسائل بھی سرراہ تھے۔ حکومت جہاں مختلف شعبوں
میں مسلسل مشکلات سے دوچار ہ ہوئی وہاں پر کچھ ایسے کام بھی اس حکومت نے
کیئے ہیںجن کو سراہا جانا ضروری ہے۔اگر ہم جمہوریت کے چار سال کی نظر سے نہ
سہی فی الحال پاکستان پیپلز پارٹی کی چار سالہ حکومت کے تناظر میں دیکھیں
تو یہ چار سال برئے زیادہ اور اچھے کم لیکن اچھے اور برئے کا ایک ملغوبہ
نظر ا ٓتے ہیں۔ مجھے جے پی جے ایم کے عوامی مسائل کے حوالے سے نکتہ نظر سے
تھوڑا سا اختلاف بھی ہے جس کے مطابق حکومت ان چار سالوں میں حکومت ملک اور
عوام کیلئے کوئی بھی ایسی پالیسی نہیں لا سکی جس سے عام آدمی کو ریلیف مل
سکے۔ اس عرصے کے دوران موجودہ حکومت سے جہاں بے شمار فضول کام سر زد ہوئے
وہاں کچھ اچھے کام بھی اس کے کھاتے میں جاتے ہیں جن کو نظر انداز کرنا قرین
انصاف نہیں ہو گا ۔جن میں 1973ءکی کافی حد تک اصل صورتحال میں
بحالی،اٹھارہویں اور بیسویں ترمیم کی متفقہ منظوری،این ایف سی ایواڑ کا
معاملہ،صدر کے اختیارات کی پارلیمنٹ کو منتقلی ،پہلی بار قبائلی علاقوں میں
سیاسی سر گرمیوں کا آغاز گلگت بلتستان میں اصلاحاتی پیکج کا اعلان، بر طرف
ملازمین کی بحالی،بلوچستان پیکج،توانائی کے منصوبے نیلم اور جہلم بھاشا ڈیم
پراجیکٹ ،ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبوں پر پیش رفت ایسے اقدامات ہیں
جنہیں مستقبل میں ملک اور عوام کیلئے خوش آئندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔لیکن
جہاں تک عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے حکومتی فیصلوں کو سیکھا جائے تو یہ
کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے یہ چار سال جمہوریت کے نہیںبلکہ عملایہ
عوام کی مجبوریت کے تھے۔جس کے مطابق حکومت کی جانب سے مسلسل عوام دشمن
پالیسیاں ہی سامنے آئیں۔ اس دور میں وطن عزیز میں مہنگائی، غربت،لاقانونیت
بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے بلوں اور قیمتوں
میں اضافہ کے نتیجہ میں تقریباہر ماہ منی بجٹ دے کر ایک عام آدمی کی زندگی
کو مشکل سے مشکل تر بنایا جاتا رہا۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں
افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح12 فیصد رہی جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے
مطابق مہنگا ئی کی شرح اس سے دوگنی یعنی 25 فیصد کے قریب ہے ۔ہمارئے پڑوسی
اور دنیا کے دیگر ممالک میں مہنگائی کی شرح پر نظر دوڑائی جائے تو بھارت
میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد،بنگلہ دیش میں یہ شرح 7 فیصد ،سری لنکا اور چین
میں یہ شرح 4 فیصد،بھوٹان عراق اور لیبیا میں یہ شرح 3 فیصد فرانس اور
امریکہ میں 1.1 فیصد،تائیوان میں 1فیصد،جاپان میں 0.7فیصد اور جبکہ آئرلینڈ
میں 1.7فیصد ہے۔اس جمہوری اور عوامی مجبوری کی حکومت کی آمد سے پہلے روزمرہ
کے استعمال کی ان اشیاءکی قیمتیں اور ان میں ہونے والے اضافے سے بخوبی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود کو عوامی حکومت کہنے والوں نے عوام کے حق
میں کتنے فیصلے کیئے اور کس قدر ریلیف دیا۔ان اعدادو شمار کو دیکھنے کے بعد
اس چار سالہ دور حکومت کو جمہوری نہیں بلکہ عوام کہ مجبوری کا چار سالہ دور
ہی کہا جا سکتا ہے۔ |