تحریر: ڈاکٹر صلاح سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
شامی عوام کی جدو جہد کے ایک سال بیت چکے ہیں۔ اس پورے عرصے میں ان کاصبر،
احتساب، پامردی، امید اور فرقہ پرست، ظالم، اور سرکش نظام کے خاتمہ کے لیے
استقلال لوگوں کے سامنے آچکا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ آزمائش طویل
ہو، نئے نئے طریقوں اور مختلف سمتوں سے آزمائش آئے۔ شام کا ہر شہر دھواں
دھواں ہے۔ خشکی ہو یا تری، میدانی علاقے ہوں یا پہاڑی کہیں کوئی گوشہ، کوئی
علاقہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں اس ظالم اور فاشسٹ حکومت کے خلاف انقلاب کی آگ
نہ بھڑک رہی ہو۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ اس قوم کے مدفوں خزانے میں انتہائی قیمتی متاع
موجود ہے۔ یہاں کے مرد و خواتین، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں وہ جوہر ہے
جس کے بارے میں ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آزادی کے معرکہ کے لیے ان
کی صفوں کو متحد کر رہا ہے۔
شامی انقلاب کے اندر کچھ ایسی خاص باتیں ہیں جو کسی دوسرے انقلاب میں نہ
تھیں۔ اور اسی وجہ سے جب ہم عالم عرب کے موسم بہار سے اس کا موازنہ کرتے
ہیں یہاں کی سرزمین ہمیں صرف دھواں دھواں دکھائی دیتی ہے۔ شام کے اندر ایک
فرقہ کی حکومت ہے جبکہ تیونس، مصر،لیبیا اوریمن میں ایک خاندان کی حکمرانی
تھی، ان ممالک میں کاغذی طورپر جمہوری نظام تھا پر حقیقت میں یہ شاہی
حکومتیں تھیں۔ اصول فقہ کے علماء کا کہنا ہے کہ "معاملات میں مقاصد اور
حقائق کا اعتبار کیا جائے گا، الفاظ اور ظاہر میں نظر آنے والی چیزوں کا
نہیں"۔ لیکن علوی حکومت میں دونوں ہی برائیاں جمع ہیں، ایک طرف تو یہاں ایک
خاندان اور نصیری علوی فرقہ کے حکمرانی ہے جس کے بارے میں علماء کا متفقہ
فیصلہ ہے کہ یہ کافر ہیں کیونکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ سربراہ کی ذات کے
اندر اللہ تعالیٰ کی ذات کا حلول ہوتا ہے۔ تعالى الله عن ذلك علوًا كبيرًا
اسی بنیاد پر شامی عوام مبلائے عذاب ہے۔ وہ صرف اس لیے ظلم کی چکی میں پیسے
جا رہے ہیں کہ وہ "لا إله إلا بشار" جیسا کفریہ کلمہ کا اعتراف کریں۔ تعالى
الله عن ذلك علوًا كبيرًا۔ تیونس اور مصر کے انقلاب میں عوام پر فوج کا
حملہ نہیں ہوا تھا۔ لیبیا اور یمن میں فوج کی کچھ ٹکڑیوں نے عوام پر قہر
برسایا تھا۔ اول روز سے بہت بڑی تعداد میں فوج اور سپاہی ان سے کنارہ کش ہو
گئے تھے۔ لیکن اسد کی فوج کے 80% افسران اورفوجی، علوی فرقہ سے تعلق رکھتے
ہیں اسی وجہ سے افسروں اور فوجی کی بڑی تعداد ابھی تک حکومت سے نہیں کٹی
ہے۔
علی عبد اللہ فاسد امریکیوں کی مدد سے اپنی عوام پر فوجی حملے کر رہا تھا،
اس نے جمہوری فوج کے کچھ عناصر کو بھی اپنے بھائیوں کے قتل کے لیے میدان
میں اتاراتھا۔ بہت سے فوجی ان سے الگ ہو کر انقلابیوں کے ساتھ آملے تھےاس
کی وجہ سے فوج کی صفوں میں کمزور پیدا ہوئی اور ظالم کی صف میں انتشار پیدا
ہوا لیکن فرقہ شام میں فرقہ واریت اور داخلی رعب نے اس فرقہ کی صف کے اندر
مزید استحکام پیدا کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَالَّذينَ
كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ
فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ) [الأنفال: 73]( جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ
ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا
فساد برپا ہو گا).
یہی وجہ ہے اسد قصائی کی گرتی حکومت کو بچانے کے لیے کہ لبنان کی لات
پارٹی، عراقی شیعوں کے بدر اور دیگر دستے اور ایرانی شیاطین کے پاسداران
انقلاب بلکہ یمن کے حوثی بھی میدان میں اتر گئے ہیں کہ اس ظالم اور قاتل کو
سہارا دیں جس کے سر پر کم از کم ستر ہزار جانوں کا خون ہے۔ اس کی وجہ سے
حکومت کی عمر طویل ہو رہی ہے، یہ مدد ان کے لیے اس آکسیجین کے پائپ کی طر ح
ہے جو بند ہوتی اور ختم ہوتی حرکت ِ قلب جو عارضی طور پر سہارا دیتا ہے۔ اس
سے پہلے کسی انقلاب میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیرونی فرقہ پرست جماعیں آکر
اندرونی طور پر حکومت کو مستحکم کریں۔
عالم عرب اور عالم اسلام میں مصر کے وزن کی وجہ سے مغربی دنیا کو اس کی فکر
تھی، لیبیا کا پٹرول ان کی توجہ کا مرکز تھا، یمن پر اس لیے ان کی توجہ تھی
کہ جنوب کی طرف سے ارزاں قیمت پر ان کو پٹرول فراہم کرنے والی پائپ لائنیں
محفوظ رہیں۔ تیونس کے بارے میں دنیا کو یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہاں
کوئی ایسا انقلاب بھی آسکتا ہے جو قاہر، مستبد اور زبردست حکومت کو بدل
ڈالے۔ دنیا کی آنکھ تو اس وقت کھلی جب یہ خبر عام ہوئی "بن علی بھاگ چکا
ہے"، "بن علی بھاگ چکا ہے"۔ لیکن شام ان ممالک سے مختلف ہے۔ یہ صہیونیوں کی
سرح پر واقع ہے اور ن کے اکابر مجرمین کے ہر تجزیہ کی رو سے قابض صہیونیوں
کے تحفظ کے لیے سب سے بہتر حکومت اس کی حکومت ہے۔ اس کے باپ برباد اسد نے
جنگ سے پہلے ہی گولان کا علاقہ صہیونیوں کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بیٹے
نے صہیونیوں کی طرف آج تک کوئی ایک بھی گولی نہیں چلائی بلکہ اس نے انقلاب
حق کے لیے اٹھنے والی عوام کو پیسنے کے لیے اپنی فوج کو لگا دیا ہے۔
صہیونی وجود کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ وہ دو جبڑوں یا چکی کے دوپاٹوں
کے درمیان یعنی مصر اور شام کے سنی مسلمانوں کے درمیان اپنے کو گھرا ہوا
پائے۔امریکی حکومت تو صہیونی تھوتھنی سے ہی سانس لیتی ہے، شامی قتل عام پر
اس کی آنکھوں میں آنے والے مگر مچھ کے آنسو صرف اس لیے ہے کہ وہ اپنی
پوزیشن بچائے۔ عرب دنیا نے اسے جان لیا ہے، اب یہاں امریکی حکومت کو طمانچے
ملنے لگے ہیں۔ یہ بھی تو ایک طمانچہ ہے کہ لیبیا کی عبوری کونسل نے امریکی
چہیتے کو وزیر اعظم بنانے سے انکار کر دیا ہے۔
ہیلری کلنٹی ہنگامی طور پر امریکی فرمان اور لازمی وصیت لے کر آئی تھی لیکن
اس کے امید وار کو کوئی ووٹ نہ ملا۔ انہوں نے ایک ملکی شخص کو منتخب کیا،
کسی ایجنٹ کو نہیں۔ مصری مجلس عوام نے بھی طمانچہ لگایا کہ امریکی امداد رد
کر دی، ان کی یہ رقم امداد نہیں ہے بلکہ آزمائش ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے: (مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ
وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن
رَّبِّكُمْ) [البقرة: 105] (یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار
کر دیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے
کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو)۔ اس صورت حال کے بعد
کیا اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ امریکی حکومت انقلابیوں کی کامیابی کو
پسند کرے گی۔ میرا تو خیال ہے کہ شام میں بہنے والے خون میں امریکہ کا ہاتھ
روس اور چین سے بڑھ کر اور قطعی طور پر ایران سے کم ہے۔
لیکن۔۔ بدخواہوں کی توقعات کے برعکس۔۔ اللہ تعالیٰ نے تیونس کی عوام کو
انقلاب کے لیے اٹھنے کی توفیق دی، اللہ نے حسنی مبارک کے جبر کو ختم کرنے
میں مصری عوام کی مددکی، اللہ نے قذافی کو اس کے تمام وسائل اور ملینوں کی
رقم سے خریدے گئے اس کے غنڈوں کے باوجود اس کو تباہ کیا اور اللہ نے اہل
یمن کی مدد کی اور وہ جاہل ترین عرب حکمراں، ظالم اور سرکش کو ہٹانے میں
کامیاب ہوئے، وہ اللہ واحد ہے جس نے اپنے بارے میں کہا ہے: (إِنَّ اللّهَ
يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ) [المائدة: 1] (اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے)،
(وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ
يَعْلَمُونَ) [يوسف: 1](اللہ اپنے معاملہ میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں
جانتے).
میرے بھائیوں اور بہنوں! تم خیر کی امید رکھو وہ تمہیں مل کر رہے گا، آنے
والا کل شامی عوام کا ہوگا ، اللہ تعالیٰ قصائی اسد، اس کے درندروں، اور
کارندوں کے مقابلے میں انہیں فتح عطا کرے گا لیکن آپ سے یہ امید کروں گا کہ
آپ وہ کام کریں جو اللہ کو خوش کرنے والا ہو۔ |