درخواست برائے استثنیٰ

بخدمت جناب صدرپاکستان محترم آصف علی زرداری صاحب، جناب وزیراعظم محترم سیّد یوسف رضا گیلانی صاحب!

نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ بندہ ناچیز آپ کی چار سالہ حکومت کے دوران غربت کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ چکا ہے ۔ مہنگائی نے کمر توڑ اور مروڑ کر رکھ دی ہے۔ سر پر اتنا بالوں کا بوجھ نہیں ہے جتنا قرضوں کا بوجھ ہے۔ اور مزید کسی بھی قسم کی نئی آفت اور مصیبت برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔مکان کا کرایہ بچوں کی فیس ۔ پانی، بجلی اور گیس کا بل سب ملا کر مہینے کی تنخواہ سے کئی گنابڑھ جاتے ہیں۔ہر مہینے ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے کسی نہ کسی سے اُدھار رقم لینا پڑتی ہے اور اب تو اپنوں نے بھی اُدھار دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اور مجبوراً بچوں کی سکول کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو سکول بھیجنا بھی بند کر دیا ہے۔گیس کا میٹر تو پہلے ہی اُتر چکا ہے کل واپڈا والے بجلی کا کنکشن بھی بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کاٹ کر چلے گئے ہیں۔

میں ایک پرائیوٹ ادارے میں ملازمت کرتا ہوں۔ بہت معمولی سی تنخواہ ہونے کے باوجود بھی وقت پر نہیں ملتی اور جو ملتی ہے اُس میں سے بھی کوئی نہ کوئی کٹوتی ہو جاتی ہے کبھی چند منٹ لیٹ دفتر پہنچنے کی کٹوتی تو کبھی کسی مجبوری کے تحت کی گئی چھٹی کی کٹوتی۔ آجا کے جو تنخواہ بچتی ہے اُس میں سے مکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعداتنے پیسے نہیں بچتے کہ مہینے بھر کا راشن خرید سکوں۔مہینے میں ایک آدھ بار کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو اُس کے علاج تک کے لیئے میرے پاس پیسے نہیں ہوتے۔اُدھار مانگ مانگ کر اب تو میں اتنا ڈھیٹ ہو گیا ہوں کہ اب مجھے کسی بھی قسم کی کوئی بے عزتی محسوس نہیں ہوتی۔اب تو میرے ہمسائے بھی مجھ کو نفرت اور حقارت بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اگر کسی سے مجبوراً اُدھار مانگنے چلا بھی جاﺅں تو مجھے حسب معمول مایوسی کے علاوہ ٹکے ٹکے کی باتیں بھی سُننے کو ملتی ہیں۔

اگر کوئی خدا ترسی کر بھی دے تو اُس کی ڈیمانڈ یہی ہوتی ہے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اُس کے پیسے واپس مل جانے چاہیے۔اب میں بھلا پہلی تاریخ کو اُدھار کی رقم کیسے واپس لوٹا سکتا ہوں جبکہ مجھے تنخواہ ہی مہینے کے درمیان میں ملتی ہے۔

اب ایسی صورت حال میں جناب صدر اور جناب وزیراعظم آپ ہی مجھے کوئی مشورہ عنائیت فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

آخر میں بھی انسان ہوں ۔ مجھے بھی کمبخت ایک بھاری بھرکم پیٹ لگا ہوا ہے جسے بھرنے کے لیئے روٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہی روٹی جس کا آپ کی پارٹی ہر بار وعدہ کرکے مکر جاتی ہے۔ میری بھی ایک فیملی ہے جس کی کفالت کی ذمہ داری میرے اُوپر عائد ہے۔ میری بھی خواہشات ہیں میرے بھی ارمان ہیں۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے پاس اپنا گھر ہو ۔ میرے بھی بچے کسی اچھے سے پرائیوٹ سکول میں تعلیم حاصل کریں۔ میرے پاس بھی ایک پرانی سی کھٹارا سائیکل کی بجائے ایک امپورٹڈ گاڑی ہو۔ مختلف کمپنیوں میں شیئرز بھی ہوں۔ میرے بھی سوئس بنک میں اکاﺅنٹ ہوں۔فیکٹریوں ، ملوں اور کارخانوں کا مالک بننے کا مجھے بھی بڑی حد تک شوق ہے۔عرض کرنے کا مقصد ہے کہ مجھے بھی سیاست میں آنے کا موقع دے دیا جائے اور میں آپ کو پورا پورا یقین دلاتا ہوں کہ میں سب کے سب سیاسی تقاضے پورے کروں گا۔ سیاست کے کسی بھی موڑ پر آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ میں آپ کو یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ میں بھی ایک کرپٹ قسم کی سوچ کا مالک ہوں اور ہر قسم کی کرپشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ وعدہ کر کے ایسے مکر جاتا ہوں کہ جیسے کبھی کیا ہی نہ ہو۔ بس آپ مجھے ایک بار ملک اور عوام کی دولت لوٹنے کا موقع عطا فرما دیںپھر میں جانوں اور میرا کام۔ رہی بات قانون کی۔۔۔ قانون نے اب تک کسی سیاسی شخصیت کا کیا بگاڑ لیا ہے جو میر ا کچھ بگاڑ لے گا۔۔۔جیسے جیسے میں جرم کی سیڑھیاں چڑھتا جاﺅں گا ۔۔۔قانون کی پہنچ سے دور ہوتا جاﺅں گااور اگر میں آپ جناب کی نظر کرم سے کوئی چھوٹا موٹا وزیر ٹائپ بن گیا تو ۔۔۔پھر تو بس ۔۔۔قانون تو کیا قانون کا باپ بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔کروڑوں نہیں اربوں کی کرپشن کروں گا اور وہ بھی اپنا حق سمجھ کر۔۔۔

ڈیل کے مطابق آپ کو آپ کا طے شدہ حصہ باقائدگی سے ملتا رہے گا۔بس آپ مجھے ایک بار استثنیٰ دلوادیںپھر دیکھنا میں کرتا کیا ہوں۔۔۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109691 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.