سانحہ کورال۔۔۔!
طیارہ بے نظیر انٹر نیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوچکا تھا
۔کراچی سے اسلام آباد پرواز کے لیے اُڑان بھرنے والی یہ نجی فضائی کمپنی ”
بھوجا ائیر لائن “ کی پہلی پرواز تھی لیکن بدقسمت پرواز منزل پر پہنچ نہ
سکی اور کچھ ہی فاصلے پر المناک حادثے کی نظر ہوگئی ۔ بوئنگ 737 کراچی سے 5
بج کر پانچ منٹ پر روانہ ہوا ۔ جبکہ جہاز نے اسلام آباد ائیر پورٹ پر 7 بجے
لینڈ کرنا تھا۔ اسلام آباد کی حدود میں پہنچنے کے بعد پائیلٹ کو کنٹرول روم
ٹاور نے طیارے کی لینڈنگ کے لیے گرین سگنل دیا۔ لیکن 06:40 پر طیارے کا
رابطہ کنٹرول ٹاور سے ٹوٹ گیا۔ اور شاید یہی وہ وقت تھا کہ راولپنڈی کے ایک
عینی شاہد نے آگ کا ایک گولہ زمین کی جانب آتے دیکھا۔اور بوئنگ 737کے ٹکڑے
کرال کے قریب گاؤں حسین آباد میں چاروں جانب بکھر گئے اور تباہ شدہ طیارے
کے ملبے سے کافی دیر تک دھواں اٹھتا رہا۔ عملے کے 9 افراد سمیت 127, 126,
یا 121 مسافر زندگی کی بازی ہار گئے ۔ جن میں پانچ شیر خوار بچے بھی شامل
تھے ۔
حادثے کے وقت اسلام آباد میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہورہی تھی ۔ حادثے کے
بعد راولپنڈی ، اسلام آبادکے اسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی ۔ صدر
زرداری نے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزارتِ دفاع کو تحقیقات کا
حکم دے دیا۔ وزیر اعظم گیلانی نے امدادی کاموں کے لیے تمام وسائل بروئے کار
لانے کی ہدایات کردی، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی جائے حادثہ پر
امدادی ٹیمیں روانہ کردیں اور حادثے کے متعلق آپریشنل روم تھانہ کورال میں
قائم کر دیا گیا۔دوسری جانب رحمان ملک نے ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کے
احکامات جاری کرتے ہوئے فضائی کمپنی کے مالک ” فاروق بھوجا“ کا نام بھی ’
’ECL“ (ایگزٹ کنٹرول لسٹ ) میںشامل کر دیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ طیارے
حادثے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی جس کے لیے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل
دے دی گئی ہے ۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سر براہ کیپٹن مجاہد الاسلام ہونگے۔
اسلام آباد میں بھوجا ائیر لائن کے جہاز کو پیش آنے والا حادثہ اندرونِ ملک
مسافر بردار طیاروں کو پیش آنے والا 36 واں حادثہ ہے ، اس سے قبل 35 فضائی
حادثات میں 705 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ اسلام آباد میں بھوجا ائیر
لائن کا حادثہ پاکستان میں کسی نجی فضائی کمپنی کا تیسرا حادثہ ہے ۔ اس سے
پہلے 28 نومبر 2010 ءکو کراچی میں ایک چھوٹا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھاجس
میں بارہ افراد جاںبحق ہوئے تھے ۔ ہوائی حادثات کے عالمی ریکارڈکے مطابق
پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ 28 جولائی 2010 ءکو اسلام آباد
میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر ائیر بلیو کی پرواز کو پیش آیا تھا جس میں 152
افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ۔ اس سے قبل 10 جولائی 2006 ءکوپی آئی اے کا
فوکر طیارہ ملتان ایئر پورٹ سے تھوڑی دور گر کر تباہ ہواجس میں 45 افراد
موت کے منہ میں چلے گئے ۔ اس حادثے کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال روک دیا
گیا ، پی آئی اے کو اب تک اندرون ملک گیارہ حادثے پیش آچکے ہیں جن میں سے
پانچ فوکر طیاروں کے تھے۔
امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے پاکستان میں طیارے کے حادثے پر افسوس کا
اظہار کرتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کی پیش کش کی ہے ۔ بیان میں کہا گیاہے
کہ بوئنگ کمپنی حادثے کی تحقیقات میں سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان کی فنی
معاونت کرنے کو تیار ہے ۔ یہ معاونت امریکی نیشنل ٹرانسپورٹیشن سینٹی بورڈ
کے ذریعے فضائی حادثات کی تحقیقات کے بین الاقوامی پروٹوکول کے تحت کی جائے
گی ۔جبکہ دوسری جانب بایو میٹرک سسٹم (نادرا سے فنگر پرنٹ اسکیننگ سسٹم )کے
ذریعے تقریبا 48 لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے جن میں سے 35 کے قریب لاشیں
ورثاءکے حوالے کردی گئی ہیں۔
فضائی حادثوں کی تفتیش میں کارآمد ثابت ہونے والے آلے ” فلائٹ ڈیٹا
ریکارڈر“ کو بلیک باکس کہا جاتا ہے ۔ بلیک باکس کسی بھی جہاز کے دورانِ
پرواز ۔ تیکنیکی کار کردگی ، جہاز کی بلندی ، جہاز کا رخ ، انجن کی حالت
اور کسی بھی حادثے کی صورت میں کئی چھپے ہوئے شواہد سامنے لانے میں مددگار
ثابت ہوتا ہے ۔اس باکس میں دوران پرواز اہم تیکنیکی معلومات اور کاک پٹ میں
ہونے والی گفتگوریکارڈ کی جاتی ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں تفتیش کے عمل
میں بلیک باکس سے مدد لی جاسکے۔
یہ طیارے کے پچھلے حصے میں نصب ہوتا ہے جو جہاز کا مضبوط ترین حصہ سمجھا
جاتا ہے ۔ حادثہ ہونے کی صورت میں طیارہ مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود
بلیک باکس محفوظ رہتا ہے ۔ اور یہ 30منٹ تک دو ہزار فارن ہائیٹ تک کی حِدّت
برداشت کرتا ہے ۔ اس باکس میں ریکارڈنگ کے لیے اسٹیل کی ٹیپ استعمال کی
جاتی ہے اور اس ٹیپ کو موٹائی المونیم فرائل کے برابر ہوتی ہے۔ابتداء میں
بلیک باکس کے تصور کو پزیرائی نہیں مل سکی ۔ لیکن 1956ءمیں بلیک باکس کا
پہلا نمونہ تیار کیا گیا جو مسلسل چار گھنٹے کی ریکارڈنگ کرسکتا تھا۔ اور
اب جدید بلیک باکس دنیا بھر کے طیاروں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں طیاروں کے کئی دیگر حادثات کے علاوہ امریکہ میں 9-11 کے واقعے
کی وجوہات جاننے میں بھی بلیک باکس کی ریکارڈنگ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باکس کالے رنگ کا نہیں ہوتا بلکہ اسے نارنجی رنگ دیا
جاتا ہے اس غرض سے کہ وہ دور سے باآسانی نظر آسکے۔ اس کانام بلیک باکس اس
طرح پڑا کہ روئل ائر فورس کے پائلٹوں نے کاک پٹ میں اس کی گفتگو ریکارڈ
کرنے کی خوبی کے سبب اس کا نام بلیک باکس رکھ دیا۔ جو مستقلاً اس کے ساتھ
وابستہ ہوگیا۔
بے نظیر انٹر نیشل ایئر پورٹ خطرناک ترین ایئر پورٹوں میں شمار ہوتا ہے
چاروں سمت سے گنجان آبادی ہونے کے پیش نظر۔ جبکہ بعض اوقات رن وے اور اس سے
متصل علاقے کی سڑک میں پائلٹ کے لیے فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بھوجا طیارے
کے المناک حادثے کا موجب کہیں رن وے اور متصل علاقے کی سڑک میں عدم ِ
امتیاز تو نہیں؟دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ حادثے کے وقت اسلام آباد میں
گرج چمک کے ساتھ بارش ہورہی تھی تو کہیں موسم کی خراب صورتحال کے باعث تو
یہ حادثہ رونما نہیں ہوا؟ اگر موسم کی خراب صورتحال سے آگاہ کیے بنا ہی
پائلٹ کو اڑان بھرنے کے لیے گرین سگنل دیا گیا تو اتنی سنگین غلطی کے مرتکب
مجرموں کو بھی عوامی عدالت میں پیش کیا جائے گا؟کیا تفتیش کے اہم ستون ”
بلیک باکس“ کی مدد سے پائلٹ اور جہاز کے عملے کی رکارڈڈ گفتگوکو بھی عوام
کے سامنے لایا جائے گا؟
عثمانی اسکرین کی ایک جانب فضائی حادثے میں جان جاںِ آفرین کے سپرد کرنے
والوں کے لواحقین کو شدتِ غم سے نڈہال ہوتے اپنے پیاروں کے جسدِ خاکی لینے
کے انتظار میں تڑپتا دیکھ رہا تھااور دوسری جانب ملک کی لگاموں کو تھامے
بلند وبانگ دعوؤں کے عادی عالی جناب صدر ، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ، وزیر
اعلیٰ پنجاب اور دیگر حکام بالا کی جانب سے اظہار ہمدردی ، امدادی کاموں کے
لیے تمام وسائل کو بروئے کار لانے کی ہدایات ، تین رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل
دینے کے فوری احکامات ، شفاف تحقیقات کروانے کی یقین دہانیوں کے رٹے رٹائے
بیانات بریکنگ نیوزکی صور ت میں دیکھتے ہوئے سوچ کی وادیوں میں سرگرداں تھا
کہ ۔ یہ سب کچھ تو ریاست کا فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا
ریاست اپنے اس فرض منصبی کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی؟ کیا ذمہ دار عناصر
کو کیفر ِ کردار تک پہنچایا جائے گا؟ کیا اب تک ملک میں رونما ہونے والے
کسی فضائی یا زمینی حادثے کی کوئی شفاف تحقیق ہوئی ؟ مجرموں کو عدالت کے
کٹہرے میں لایا گیا؟ پورے ملک کو سوگ کی بے رحم فضاؤں میں چھوڑکر جانے والے
پاک باز انسان جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤں کے استاذ الحدیث
مولانا عطاءالرحمن ، جامعہ بنوریہ سائٹ کے فاضل مولاناعثمان رشید ، جماعت ِ
اسلامی کے التمش خان ، ملیر ماڈل کالونی کے اسٹیشن کمانڈر برگیڈیئر جاوید
اختر ملک، اسی جہاز کی میزبان ایئر ہوسٹس گلستانِ جوہر کی رہائشی غزالہ
سمیت وطنِ عزیز کے 127 فضائی شہیدوں کے لہوں کی
چھینٹوں کو کس کے دامن پر تلاش کیا جائے ؟عثمانی چشم تصور میں خود سے ہی
سوالات کرتا اورخود ہی اس کی نفی کر کے وقتی بلبلوں کی مانند حکام ِ بالا
کے ان احکامات کو فضاءمیں تحلیل ہوتا دیکھتا ہی رہ گیا! |