کپتان کے لئے....

بالآخر ”سونامی“ جلتے ہوئے بلوچستان سے جا ٹکرایا اور قتل و غارت گری کی گرمی کو کسی حد تک ایک فرحت بخش ٹھنڈک میں بدلنے میں کامیاب رہا۔ بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ کوئٹہ میں اتنی تیز اور موسلا دھار بارش ہو کہ ہر طرف پانی ہی پانی پھیل جائے اور تحریک انصاف وہاں لوگوں کو اکٹھا نہ کرپائے۔ تعداد کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بات خوشی کی ہے کہ جہاں ہر طرف خون کی آندھیاں چل رہی تھیں، پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے نعرے لگ رہے تھے اسی فضاءمیں ”پاکستان زندہ باد“ اور ”پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔ لا الٰہ الا اللہ “کے فلک شگاف نعرے گونجتے رہے۔ بلاشبہ عمران خان اور تحریک انصاف سے زیادہ کوئٹہ کے باسی لائق تحسین ہیں جنہوں نے بم دھماکوں کی افواہوں، قتل و غارت اور موسلا دھار بارش کے باوجود جوق در جوق اس جلسہ میں شامل ہوکر حب الوطنی کا مظاہرہ کیا۔ یہ صرف عمران خان یا تحریک انصاف کی کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی کی نوید ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اور ”خود ساختہ رہبران وطن“ عقل و شعور کا مظاہرہ کرتے تو بلوچستان میں یہ نوبت ہرگز نہ آتی۔ بلوچستان کے لوگ کسی بھی دیگر پاکستانی کی طرح ہی محب وطن ہیں بلکہ شائد اس سے بھی کچھ زیادہ کہ پینسٹھ سال ہونے کو آئے ہیں کہ ان کو ان کے جائز و قانونی حقوق سے کوسوں دور رکھا جارہا ہے، ان پر مسلط مقامی لوگ بھی صرف اپنے ”پاپی پیٹوں“ کو بھرنے کے لئے دن رات محنت و مشقت کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے اکثر لوگوں نے آج تک آزادی یا علیحدگی کی بات نہیں کی، یہ چند لوگ ہی ہیں جو اپنے معاملات ٹھیک کرنے کی بجائے دوسروں کے آلہ کار بن کر علیحدگی کے نعرے بھی لگا رہے ہیں اور ہتھیار بھی اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں بطور قوم یہ بات اب مان لینی چاہئے کہ پاکستان کے اکثر عام لوگوں کے ساتھ زیادتیاں روا رکھی گئی ہیں اور آج تک رکھی جارہی ہیں لیکن بلوچستان کے عام لوگ اس کا قدرے زیادہ شکار رہے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا یا سندھ و گلگت بلتستان کے عام لوگ بھی محرومیوں کا شکار ہیں لیکن بلوچستان کے عوام سے قدرے کم....! کوئی دشمن اس وقت تک کسی کے ”گھر“ میں نقب نہیں لگا سکتا، سازشوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا اگر تمام گھر والے یکجان اور متحد ہوں، کپتان نے کوئٹہ میں اتحاد کا آغاز کردیا ہے، اللہ کرے کہ پورا پاکستان اس میں شامل ہوجائے۔

کوئٹہ میں ایک شاندار جلسہ عام منعقد کرکے عمران خان نے باقی سیاسی قیادت کو ایک سبق دیدیا ہے کہ اگر جمہوری نظام میں رہنا ہے، اگر جمہوریت کو کامیاب بنانا ہے اور اگر مستقبل میں کسی بھی آمریت کا راستہ روکنا ہے تو عوام کی مدد سے اور ان کو اعتماد میں لے کر ہی کیا جاسکتا ہے، صرف زبانی بیانات سے کام نہیں چلنے والا۔ جہاں عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں وہیں اب انہیں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ کے کامیاب جلسے کے بعد بلوچستان کو بھول نہیں جانا بلکہ وہاں پورے پاکستان سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے، وہاں کے جلے ہوئے اور زخمی دلوں پر پھاہے رکھنے اور مرہم لگانے کی ضرورت بہت شدید ہے، میری یہ رائے ہے کہ جہاں عمران خان پورے پاکستان میں دورے کرتے ہیں، وہیں ہر ماہ کم از کم تین چار روز بلوچستان میں گذاریں، کراچی اور اندرون سندھ کے بھی مسلسل دورے کریں، وہاں کے عوام میں رہیں ، وہاں کی مقامی سیاسی قیادت سے از سر نو بات چیت کریں،اے پی ڈی ایم کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش کریں، تحریک انصاف کی مقامی تنظیموں کو بھی متحرک کریں، دوسری جماعتوں اور ان کے قائدین پر تنقید کم کرکے اپنا پروگرام پیش کریں اور کوشش کریں کہ اس پروگرام کے لئے لوگ ان کے ساتھ ملیں، حقیقی تبدیلی تبھی آئے گی جب لوگ آپکے پروگرام کو قابل توجہ اور قابل عمل سمجھ کر آپکا ساتھ دینے کی ٹھان لیں گے، بے خوف رہیں لیکن اپنی اور ان لوگوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے بھی چوکنا رہیں۔ یہ سچ ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، موت کے مقررہ وقت میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑ سکتا لیکن اس کے باوجود دنیاوی لحاظ سے جو احتیاط ہوسکتی ہے وہ ضرور کرنی چاہئے خصوصاً حالات کی نزاکت کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے۔ پاکستان ایک ایسے شخص کو کھونا برداشت نہیں کرسکتا جو صحیح معنوں میں چاروں صوبوں کی زنجیر بنتا جارہا ہے، اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔ مجھے حقیقی معنوں میں کپتان کی پرواز دیکھ کر اس کی سلامتی کی فکر لاحق ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں اور کارکنان کو بھی اس بارے میں ضرور احتیاط کے تقاضوں کے مطابق سکیورٹی کا مناسب اور حسب حال انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔

کپتان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ قوم شائد آخری بار کسی سیاستدان پر بھروسہ کررہی ہے، اس بھروسے اور اعتماد کو اگر ایک بار پھر سے توڑ دیا گیا، اس کا خون کردیا گیا تو دوبارہ کوئی سیاستدان اس قوم کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکے گا، کپتان سے یہ قوم مطالبہ کرتی ہے کہ چاہے دوسرے اور تیسرے درجے کی سیاسی قیادت آپکے ساتھ ہو لیکن کرپشن سے پاک ہو، لوٹے اور لٹیرے اگر آپکے بھی سٹیج پر اسی طرح بیٹھیں گے جس طرح باقی سیاسی جماعتوں کے سٹیج پر بیٹھتے ہیں تو ہمیں تبدیلی کا احساس نہیں ہوگا، ہر شعبے کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جائے اور ہوم ورک کرکے، عرق ریزی کرکے، محنت و مشقت کرکے سیاسی پروگراموں کے علاوہ اس قوم کو درپیش فوری مسائل مثلاً مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس و پٹرولیم مصنوعات کی عدم دستیابی، تعلیم و صحت کے لئے قابل عمل پروگرام پیش کریں، ممبر سازی مہم کے بعد ”ون مین شو“ ختم کریں، شیڈو کابینہ بنائیں، ملکی سطح سے شروع کرکے، صوبائی، ڈویژنل، ضلعی، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک اپنے متوقع نمائندے قوم کے سامنے پہلے ہی پیش کریں تاکہ لوگ ان کی ایمانداری اور کرپشن فری ہونے کو جانچ سکیں۔ یہ کام مشکل ضرور ہیں لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ یقینا آپ کے پاس بے شمار ذہین دماغوں والے لوگ موجود ہیں، ان سے بھرپور کام لیں اور جب آئندہ الیکشن کا ڈول ڈالا جائے تو ان سے ٹکٹوں کے اجراءکے وقت کسی بھی قسم کی کرپشن میں شامل نہ ہونے اور اسے روکنے کاحلف بھی لیں۔ موجودہ سیاسی و انتخابی نظام ہم پر ٹھونسا گیا ہے اور ہمارے جیسے نیم خواندہ معاشرے کے لئے زیادہ مناسب نہیں کیونکہ اس نظام کے فائدے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اٹھاتی ہیں جبکہ اس کے نقصانات کا شکار عوام الناس کو ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے لئے متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام موجودہ نظام سے بہت بہتر ہے لیکن جب تک ہم کسی اور نظام کو آزما نہیں سکتے، تب تک اس کی خوبیوں سے زیادہ سے زیادہ عوام کو فائدہ پہنچانے اور نقصانات سے بچانے کے لئے تحریک انصاف جیسی جماعت زیادہ موزوں ہے جو موروثی سیاست پر یقین نہ رکھتی ہو لیکن اس کے لئے عمران خان اور ان کی ٹیم کو بہت زیادہ اورجان توڑ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں، اس ملک کے عوام کو یقین ہے کہ عمران خان کی کپتانی میں ہم بطور قوم انشاءاللہ بہتری کی جانب رواں دواں ہوسکتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.