سانحات میں گھری قوم کا واحد سہارا

20اپریل کی شام اسلام آبادائرپورٹ پر سینکڑوں مردوخواتین جمع تھے ان سب کو کراچی سے پانچ بج کر پانچ منٹ پر روانہ ہونیوالی بھوجاائرلائن کی پرواز نمبرB4_213کا انتظار تھاکیوں کہ اس میں اُن کے پیارے اُن سے ملنے آرہے تھے جوں جوں وقت گزرتا جارہاتھا ائرپورٹ پر جوش و خروش بڑھتا جارہاتھا اور آخرکار یہ انتظار ختم ہوا اور ائرپورٹ استقبالی سائرنوں سے گونج اُٹھا جس کا مطلب تھاکہ اب طیارہ بس پہنچنے ہی والا ہے تمام لوگ استقبال کی تیاری کرلیں اس کے ساتھ ہی سب لوگوں کی نظریں آسمان کی جانب لگ گئیں کہ کب اُن کا مطلوبہ طیارہ ائرپورٹ پر اترتا ہے لیکن قدرت کے کھیل ہی نرالے ہیں ان اپنے پیاروں کے منتظر بے چاروں کو کیا معلوم تھا کہ کاتبِ تقدیراُن کو کس امتحان میں ڈالنے والا ہے چنانچہ کچھ ہی دیر بعد انہیں یہ روح فرسا خبر ملی کہ بھوجاائرلائن کی یہ پرواز اسلام آبادائر پورٹ آنے کی بجائے اسلام آباد کے قریب ایک گاؤں حسین آباد میں جاگری ہے اس کے بعد ان کے دلوں پہ جو گزری ہوگی اس کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا ان میں سے کس نے سوچا ہوگا کہ جن کے وہ منتظر ہیں وہ اب اُن کے پاس کبھی نہیں آئیں گے ،کس کو یہ معلوم تھا کہ جن کے استقبال کیلئے وہ اتنے بے چین ہوئے جارہے ہیں کچھ ہی دیر بعد اُن کیلئے انہیں تابوت خریدنا پڑیں گے بہرحال طیارے میں مسافروں اور جہاز کے عملے سمیت کل تعداد 127تھی اور اتنی بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ایک بہت بڑا سانحہ ہے قوم ابھی 7اپریل کو سیاچن میں برفانی تودے تلے دب جانیوالے 139جوانوں کے صدمے سے ہی نہیں نکل پائی تھی کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں ایک اور آزمائش میں مبتلاکردیااس سے قبل 28جوالائی 2010ءکواسلام آباد ہی کے قریب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی حادثہ اُس وقت رونما ہواتھا جب ایک نجی ائر لائن ائر بلیو کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرایا یہ عجیب اتفاق ہے کہ پونے دوسالوں میں اوپر تلے پیش آنیوالے ان بڑے سانحوں میں موسم کا کردار کلیدی رہا ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو امتحانوں اور آزمائشوں میں مبتلا کرتا رہتا ہے لیکن اپنے طور پر احتیاطی تدابیر اختیارکرنا بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے چنانچہ اس ضمن میں ان رپورٹس کا منظرِ عام پر آنا کہ گزشتہ دس برسوں میں سب سے زیادہ حادثات کاسبب بننے والے ان بوئنگ طیاروں کو متروک الاستعمال اور ''فلائٹ کفن''قرار دیاجاچکا تھا لیکن اس کے باوجودپاکستان میں اس کی پروازیں جاری تھیں اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ 23سال 9ماہ پرانے اس بوڑھے طیارے کا انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم بھی خراب تھا اور سول ایوی ایشن نے پائلٹ نوراللہ آفریدی کے لائسنس پر بھی اعتراضات لگارکھے تھے اور یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک عرصہ پہلے ناقص کارکردگی کی بنا پر گراونڈ کردئے جانیوالے اس طیارے کو اب کلیئرنس کس نے اور کیوں دی ؟ اگرچہ اس حادثے کے بعدحکومت نے کیپٹن (ر)مجاہداالسلام کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمیٹی کس حد تک آزادانہ طور پر تحقیقات کرکے اس حادثے کے ذمہ داران کا تعین کرکے اس کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا کردارادا کرتی ہے یا اس کا انجام بھی ائربلیو حادثے کی تحقیقات کرنیوالی کمیٹی جیسا ہوتا ہے جس نے ایک سال کی تحقیق کے بعد ایک مبہم سی رپورٹ جاری کردی تھی۔آخر میں ہم پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس حادثے میں جاں بحق ہونیوالے تمام مسافروں کیلئے مغفرت کی دعاکے ساتھ ساتھ اللہ کی بارگاہ میں جھک جائے کہ سانحات میں گھری قوم کا واحد سہارا اللہ کریم کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں ۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.