مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس

آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا دوروزہ 22واں اجلاس گزشتہ ہفتہ و اتوار(21و22 اپریل) ممبئی میں منعقد ہوا۔ اس کی جوتصویریں اور رپورٹیں اردو اخباروں میں شائع ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے اس میں شرکت کی اور مختلف موضوعات پر بورڈ رہنماﺅں کے موقف کی پرزور تائید کی۔عوام کی ایسی تائید و حمایت بڑی بات ہے۔اس پہلو سے منتظمین کو یہ حق ہے کہ اس اجلاس کو کامیاب قراردیں ۔ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ ’قومی‘ میڈیا نے اور خصوصاً چوبیسوں گھنٹے خبریں نشر کرنے والے نیوز چینلز نے اس پرہجوم اجلاس کواہمیت نہیں دی۔حالانکہ ابھی چند ماہ قبل اسی شہر میں ٹیم انا کے فلاپ شو کو زبردست کوریج ملی تھی۔جن اخباروں اور چینلز نے اجلاس کو کوریج دی اس کی آواز خود اپنوں تک محدور رہ جاتی ہے، بڑے حلقے تک نہیں جاتی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیںہوا جب ملّت کے آزار سے میڈیا بیزارو بے سروکاررہا۔ابھی اگر کہیں دس بیس نام نہاد مسلمان جمع ہوکر مسلم پرسنل لاءبورڈ یا شرعی قوانین کے خلاف زہر افشانی کاارادہ کریں، تو پھر دیکھئے یہ میڈیا کیسا چاق و چوبند نظر آتا ہے۔

صرف میڈیا کا ہی نہیں دانشورں کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے ایک غیر مسلم دوست نے ’لولاک ‘ عنوان سے سیرت رسول پرایک طویل نظم شائع کی جس کوبجا طور پر قومی ادب میں ایک نادر اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ان کی یہ کاوش ملک کو مطلوب فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا بھی ایک مضبوط استعارہ ہے، مگر ادبی میلوں میں نہ مصنف کی پذیرائی ہوئی اور نہ میڈیا میں اس کتاب کا نام اجاگر ہوا،جب کہ سلمان رشدی اورتسلیمہ نسرین پر فدائیت کے کیا کہنے!مسلمانوں کے جذبات، احساسات، مطالبات اور شکایات کے تئیں یہی رویہ اس نوکر شاہی میں بھی نمایاں ہے جو حکومت کو چلاتی ہے، جس کی گونج بورڈ کے اس اجلاس میں بھی سنائی دی۔

ہم نے قوم کی رگوں میں دوڑتی پھرتی اس رو کا مشاہدہ بارہا کیا ہے۔ اس پر اظہار ملال و خفگی بھی کیاہے، مگر سب بے سود۔ ایسے میں ذہن میںایک سوال اٹھتا ہے، جس کا اظہار کرتے ہوئے اندیشہ بے ادبی ہے، مگر پھربھی گستاخی کو جی چاہتا ہے کہ ملّت کی اس قیادت سے جو خیر سے ہمارے دین و ایمان کی پہریدار بھی ہے پوچھ ہی لیا جائے کہ ہم ایسے بے بس کیوں ہوگئے کہ ہماری کوئی صدا دوسروں کے دلوں پر دستک نہیں دے پاتی؟یہ ہماری بے بسی ہے یا کسی ایسی تدبیر سے بے توجہی جو اس صورت حال کواس طرح بدل سکتی ہے کہ ہمارا درد پوری قوم کا درد بن جائے اور دوسرے بھی اس محسوس کرنے لگیں؟ خاکم بدہن، شاید یہ سوچنے کا ہمارے پاس وقت نہیں کہ بحیثیت امت محمدی ہمارا مقام و مرتبہ یہ نہیں کہ ہم اپنے مسائل کا مداوا دوسروں سے چاہیں،حالانکہ ہمارے پاس وہ نسخہ کیمیا ہے جس میں پوری انسانیت اور پوری قوم کے درد کاعلاج موجودہے ۔ اس کا اولین نکتہ یہ بتایا گیاہے کہ کانٹا اگر غیر کے پیر میں بھی لگے تو چبھن اس کی ہمارے دل میں بھی محسوس ہو ، اور اس کی مدد کو بیچین ہوجائیں۔اپنا دکھ درد بھلا دیں اور اس کی غم گساری کو دوڑپڑیں۔

ہم جانتے ہیں کہ مسائل صرف مسلمانوں کو ہی درپیش نہیں، وطن کی دیگر اقوام بھی مظالم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ کیا ہم ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے پابند عہد نہیں؟ کیا ہم کبھی انسانیت کے ناطے اللہ کے ان بندوں کی مدد کےلئے بھی پکار لگاتے ہیں ؟کیا ان کی مدد کو بھی اپنے خزانوں کا منھ کھولتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا یہ ہمارا دینی فریضہ نہیں ، کیا یہ حکمت کا تقاضا نہیں کہ ہندستانی مسلمان غیرمسلم مظلوموں کی آواز اپنے پلیٹ فارم سے بلند کرکے ان کے دلوں پر دستک دیں؟ یہ غیر مسلم جو اس ملک میں بستے ہیں، ہمارے پڑوسی ہیں اور سچ پوچھئے تو چند پشت اوپر جاکر ہمارے پرکھے ایک ہیں ، خاندان ایک ہیں، نسلیں ایک ہیں، پھر اگر اللہ نے اپنی رحمت سے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازدیا ہے تو کیا ہمارایہ فرض نہیں کہ ان سے اپنے خون کے رشتے کا حق ادا کریں اور ان کی مدد کو آگے آئیں؟ اب اگر ہم نے ہی اس درس کو بھلادیا جو نبی رحمت سے ہمیں پہنچا ہے تو ہم کس منھ سے دوسروں سے مطالبہ کریں کہ ہمارے لئے شریعت محمدی کی حفاظت کریں ،جب ہم خودآپ کے اسوہ مبارکہ کی حفاظت میں کوتاہ ہیں؟ اللھم حفظنا۔

بورڈ کے اجلاس کی جو رودادیں اردو اخباروں میں شائع ہوئی ہیں ان سے پتہ نہیں چلتا کہ دیگر غیر مسلم بھائیوں پر جو مظالم ہورہے ہیں، ان کے گھروں میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کا کوئی ذکر اس اجلاس میں ہوا ہو، حتیٰ کہ کرپشن کی اس عفریت پر بھی سناٹا رہا جو آج پوری قوم کےلئے مصیبت بنی ہوئی ہے۔ صارفیت ، عریانیت، بے حیائی ، جنسی ہوس رانی کی جس طغیانی نے پوری قوم کو گھیررکھا ہے اس پر کوئی صدائے احتجاج سنائی نہیں دیتی۔ ممکن ہے کسی مقرر نے سرسری طور پر کچھ کہا ہو جسے میڈیا نے نظرانداز کردیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ایک قرار داد خاص ان مسائل پر پیش ہوتی جن کا شکار پوری قوم اورخاص طور سے برادران وطن ہورہے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر ایسی قراردار سے امید ہے کہ ان کے کان ہماری آواز کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کے دلوں میں ہمارے لئے عناد کی جگہ اپنائیت ،عزت و احترام کا جذبہ اور وہ ہمارے مسائل کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا۔

دہلی کے اردو اخباروں میں جو رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ان سے ایک تکلیف دہ تاثر یہ ملتا ہے کہ ہوش سے زیادہ جوش کی باتیں ہوئیں۔ خداکرے یہ تاثر صحافتی سنسنی خیزی کا نتیجہ ہو اور قیادت کی بالغ نظری میں یہ احساس رہا ہو کہ مسلم اقلیت میں احساس محرومی ، احساس مظلومی اور احساس تنہائی کو مہمیز دینا مسائل کا حل نہیں ہے۔ایک اخبار نے لکھا ہے، ’علماءنے انتہائی جذباتی تقریریں کیں‘ ، شرکاءنے عہد کیا کہ ’وہ اپنے سروں کے قطب مینار لگوادیں گے۔‘ایک کلیدی مقرر کا یہ جملہ نقل کیا گیا، ’ہم اپنی جانیں قربان کرسکتے ہیں۔‘ہمیں صرف عرض یہ کرنا ہے کہ ملّت اسلامیہ پہلے ہی جذباتی ہے اورجذبات کی رو میں بہہ کر اس کے اپنے ہی مختلف طبقے آپس میں بھڑ جاتے ہیں، چنانچہ جذبات کواشتعال دلانا مسئلہ حل نہیں۔ جمہوریت میں سروں کے قطب مینار نہیں ، سروں کا صحیح استعمال درکار ہے۔ بیشک کسی مسلمان کےلئے شریعت میں مداخلت ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی ، لیکن تحفظ شریعت کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔مسلمانوں کو کس نے روکا ہے کہ وہ ورثہ کی تقسیم اصول شریعت کے مطابق کریں اور بہنوں اور بیواﺅں کو ان کا جائز حق دیں؟ یہ کام تو ریاست کی مداخلت کے بغیر محض رضائے الٰہی کےلئے ہوناچاہئے۔بہت سے خاندانوں میںہوتا بھی ہے۔ ازواج کے حقوق کی پامالی بھی عام ہے۔خاص طور سے طبقہ علماءمیں آج بھی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو گلا گھونٹ کر رکھا جاتا ہے۔اسی طرح شادی،بیاہ کے موقعوں پر مراسم کے نام سے سنت طریقے کی اندیکھی ہوتی ہے۔بے حجابی کو اسطرح انگیز کرلیا گیا ہے اچھے اچھے مسلم گھرانوں کی شادیوں میں باپردہ خواتین کےلئے اہتمام کو ضروری نہیںسمجھا جاتا۔ اسی طرح اندھی عقیدتوں اور مذموم رسوم کا معاملہ ہے۔ نمود و نمائش، بے حجابی، ہوس زر ، تلک اور جہیز کے تباہ کن رجحانات خصوصاً خوشحال اور متوسط گھرانوں میں بڑھتے جاتے ہیں۔سب سے زیادہ بہار کے مسلم گھرانوں کو ان قباحتوں نے گھیر رکھا ہے۔ مہر کی ادائیگی سے غفلت حد درجہ پر ہے۔ ان حق تلفیوں پر بھی جیسی توجہ مطلوب ہے نہیں دی جاتی۔ کیا یہ چیزیں شریعت سے انحراف اور مداخلت فی الدین کے زمرے میں نہیں آتیں؟آتی ہیں ، مگر ان پر سیاست نہیں کی جاسکتی۔

اجلاس کی روداد میں شکوہ کی گونج تو ہے، جوا ب شکوہ کا ذکر نہیں۔ہم آج جس حال کو پہنچ گئے اس میں کچھ خطا ہماری بھی تو ہوگی! ہندستان کی جدوجہد آزادی میں ہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مگر جیسے جیسے آزادی کا سورج طلوع ہونے کے آثار نظر آنے لگے، ہم احساس عدم تحفظ میں گرفتار ہوتے چلے گئے، نتیجہ جو نکلا ہو ہمارے سامنے ہے۔ آزادی کے بعد بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عدم تحفظ کا احساس ہے ۔ حکمرانوں کو اس کی فکر نہیں۔ سیاست داں ہندستان کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ افسران اس ملک کو بے حیائی اور آوارگی کی اس تہذیب کا نمونہ بنادینا چاہتے ہیں جس میں یوروپ گرفتار ہے۔ چنانچہ ہم جنس پرستی کی زبردست پیروی ہورہی ہے۔ بغیر شادی بچے پیدا کرنے کی راہ ہموار کردی گئی ہے ۔ اسی راہ کو آسان بنانے کےلئے بچے کی وراثت میں ماں کا نام لکھے جانے کی تیاری ہوچکی ہے۔ شادی کرکے گھر بسانے کی راہ میں سماجی رکاوٹیں پہلے ہی کچھ کم نہیں تھیں، اب لازمی شادی رجسٹریشن اور طلاق کی صورت میں جائداد میں نصف حصہ جیسی رکاوٹیں کھڑی کرکے حکومت بھی یہی چاہ رہی ہے شادی رچانے کے بجائے معاشرہ جنسی بے لگامی کو اختیار کرلے۔چنانچہ باہمی رضامندی سے زنا کو حلال کرلیا گیا ہے اور اِدھر ُادھر منھ مارتے پھرنے کو آئینی حق قرار دیا جارہاہے۔۔ میڈیا کے ذریعہ جو اباحیت پھیلائی جارہی ہے اس کے نتیجہ میں کمسن بچے بھی جنس زدہ ہوگئے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب جبر کی کوئی ایسی خبر نہ آتی ہو جس میں کمسن بچے ملوث نہ ہوں۔ یہ سیلاب ایسا نہیں جس کی زد میں صرف اکثریتی فرقہ ہی آرہا ہو۔ ایک دن یہ ہمیں بھی لے ڈوبے گا۔ یہ اور ایسے ہی ہزاروں مسائل ایسے ہیں جن کے خلاف ہم دوسروںکے ساتھ مل کرآواز اٹھا سکتے ہیں، محاذ بناسکتے ہیں۔ ایسی سیاسی جماعتوں کے قیام اور استحکام کی فکرتو کی جارہی ہے جن کی قیادت ہمارے ہاتھوں میں ہو مگر شریک دوسرے لوگ بھی ہوں۔ اسی طرز پر سماجی اصلاحی تحریکات کی بھی بنا ڈالی جاسکتی ہے۔ تبھی ہمارے مخصوص مسائل پرقوم متوجہ ہوگی اور ان کے حل کی سبیل نکلے گی۔

اس جلسے میں مولانا سجاد نعمانی صاحب کا پیغام لائق توجہ ہے ؛” مسلمانوں یہاں سے دفاعی مزاج لے کر جانے کے بجائے انسانیت کی حفاظت کا عزم لے کر جاﺅ ۔خود احتسابی کرواور پورے مسلمان بنو۔ “مولانا نعمانی کا یہ پیغام ہی اصلاً کرنے کا کام ہے ۔ مسلم پرسنل بورڈ اور تمام مسلم تنظیموں کی تحریک کا محور یہی ہونا چاہے کہ فرزندان توحید اپنے اصل مقام اور مرتبہ کو پہچانیں اور اس پر قائم ہوں، جو اس کے سوا کچھ نہیں کہ فرقہ بندی سے بلند ہوکر انسانیت کے محافظ بنیں۔ اسی میں ہماری بھی فلاح ہے۔

اس جلسے نے حکومت کو ایک سیاسی اشارہ بھی دیا ہے۔ ایک مقرر نے فرمایا:” یہ عزم لیکر اٹھو کہ اب تم اس حکومت کو سبق سکھاﺅگے جس نے تمہارا یہ حال کیا ہے اور اس کو اکھاڑ پھینکو گے۔ “جلسے میں اکھلیش یادو کی دبے لفظوں میں تعریف کی گئی اور یہ امید ظاہر کی گئی کہ ان کی سرکار مسلمانوں کی شکایات کو رفع کرنے کےلئے اقدام کریگی۔ بورڈ کے ایک ذی وقار رکن کو اہم سرکاری مناصب دیکر، جس سے وہ واقعی اہل بھی ہیں ،اکھلیش نے بورڈ کے ساتھ ایک رشتہ قایم کرلیا ہے۔ ملائم سنگھ یادوپہلے ہی مسلمانوں سے اپیل کرچکے ہیں کہ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ جامع مسجد دہلی کے امام سید احمد بخاری کی بھی ان کو مشروط تائید مل رہی ہے۔ اب اگر واقعی ایس پی سرکار نے کچھ مثبت اقدام کئے ، پارلیمنٹ میں بھی مسلمانوں کی آواز اٹھائی تو یہ قیاس دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اپنی سابقہ روایات کو بالائے طاق رکھ کر بورڈ کے محترم ارکان اگلے پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں کو کیا پیغام دیتے ہیں؟ اس امکان سے مرکزی سرکار چونکتی ہے اور چوکنا ہوتی ہے یا نہیں ، یہ بھی اہم ہوگا۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180646 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.