بڑے میاں صاحب کے نام ایک اہم پیغام
(Zia Ullah Khan, Mianwali)
کہتے ہیں کہ دنیا بے وفا ہے یا
یوں کہہ لیں کہ خود غرض ہے ۔محبت کے بڑے بڑے قصے دنیا میں سامنے آئے۔کئی
وعدے وفاءہوئے مگر کئی بار طلبگار دیکھتے رہ گئے اور اُن کے سامنے کاسے توڑ
دیے گئے۔اب دنیا کافی تبدیل ہوگئی ہے فرحت عباس شاہ صاحب نے کہا تھا نہ "چاہت
میں ہم نے طور پُرانے بدل دیے" سچ کہا تھا شائد۔جنگ کے طریقے بدل گئے تو
پھر محبت کے طورکیسے جدت سے محروم رہتے ۔اب عشق میں کروٹ بھی جدید ہے۔میاں
صاحب کو ہی دیکھ لیں کہ اُن کا پُرانہ تعلق بھارت سے بتایا جاتاہے ۔ اِس
میں تعجب کی بھی کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ تب سب کے سب ایک ہی علاقے کے
رہائشی تھے ۔مگر بڑے میاں صاحب کو میں ایک بات بتانا چاہوں گا جو مجھے بھی
میرے کُچھ اساتذہ کرام نے بتائی تھی کہ ایک صاحب ہوا کرتے تھے محمد اقبال
جن کا ذکر اکثر کتابوں میں ہے۔اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمیں (ایمان والوں
کو)الگ رہ کر آزادی سے اپنے رب کی پیروی کرنے چاہیے۔اور اس قید و بند فرقہ
واریت اور علاقائی تعصب سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔اس مقصد کے لیے اُنہوں نے
ایک لائحہ عمل پیش کیا تھا۔ایک اور نامی گرامی وکیل ہوا کرتے تھے محمد علی
جناح ۔اُنہوں نے عوام کی پُرزور فرمائش اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے
اقبال محترم کے کام کو آگے بڑھایا۔کمیشن بنے ۔لیگیں بنیں۔قتل و غارت
ہوا۔عزتیں لُٹیں۔گھر چھُوٹے۔ماں باپ، بیٹے ،بہنیں،بھائی ،خاوند ،بیوی کسی
کا کیا رشتہ جُدا ہو گیا کسی کا کیا۔مگر سب کے سب اللہ کے دین کی سربلندی
اور آزادی کی خواہش دل میں لیے نئی ریاست بنانے چل نکلے۔بے یار و مددگار،بے
آسرا ،بے گھر مگر جذبوں سے سرشار لوگ ایک نیا خطہ اُستوار کرنے میں کامیاب
ہوگئے۔جن لوگوں کے ساتھ رہتے تھے اُن سے کافی مزاحمت کا سامنہ بھی کرنا پڑا
دنیا میں بھی اپنا وقار منوانا پڑا۔جنگیں لڑیں جانیں دیں۔نہ جانے کیا کیا
مسائل سہنے کے بعد آج اس حالت میں آئے کہ اپنا ایک الگ نام ایک پہچان اور
خاص طور پر اپنا رُعب بنا سکے۔آج بڑے میاں صاحب نے کُھلے الفاظ میں ہتھیار
پھینکنے میں پہل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ میاں صاحب خود بھی ایک لیگ چلا رہے
ہیں۔میں تو آج تک یہ سمجھتا آیا کہ ملک میں بننے والی پارٹیاں اپنے نام کا
تقدس اور اس کا عوام کے لیے منشورجانتی ہوں گی۔مگر میاں صاحب کا یہ بیان سن
کر دل کو کافی تکلیف ہوئی۔کہ اب جب منزل کے نشان نظر آنے لگے تو میاں صاحب
نے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔اب اگر مُجھ جیساکوئی اَن پڑھ اور کم عقل انسان جب
کارگل کو ذہن میں لائے گا تو اُس کی سوچ وہم و گُماں میں مُبتلا ہو جائے
گی۔میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ علم اور عقل دونوں کم ہیں۔خیال
رہے کہ یہ جمُلہ میں نے اپنے لیے استعمال کیا ہے۔بہر حال جہاں تک بڑے میاں
صاحب کی بات ہے تو میری اُن سے اتنی گزارش ہوگی کہ جناب ہمارے حال پر رحم
کرنے کے لیے تھوڑا سا اقبال صاحب جسے دنیا علامہ اقبال کہتی ہے اور تھوڑا
سا اُس وکیل جسے دنیا قائد اعظم کہتی ہے کے متعلق پڑھ لیں کیونکہ محبت اس
علاقے ان لوگوں سے ضرور ہوتی ہے جہاں کچھ وقت گزرا ہو مگر جہاں کا کھا رہے
ہوں پی رہے ہوں اور جہاں کے مالک بنے بیٹھے ہوں وہاں کا بھی سوچنا
چاہیے۔اور اپنے پُرانے محبوب سے صاف صاف کہنا چاہیے کہ
مُجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ |
|