جہادکے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ

’’آپ خود غور کریں کہ اگر کسی کمرے میں اندھیرا ہو اور آپ وہاں اندھیرا ختم کرکے روشنی کرنا چاہتے ہیں ۔اب اگر کوئی بھلامانس موٹا سا ڈنڈا لیکر ،غصے میں بپھرا ہوا،چہرے پر تیوریاں چڑھائے اس کمرے میں داخل ہو اور کہے میں اس ڈنڈے کے زور پر تاریکی ختم کروں گا ،ڈنڈے سے مار مار کر یہ اندھیرا بھگا دوں گا تو کیا اس طرح اندھیرا ختم ہو جائے گا اور اس آدمی کا یہ فعل عقلمندی ودانشمندی کہلائے گا یا بیوقوفی وکم عقلی؟ظاہر ہے یہ ایک ناسمجھی اور کم عقلی والی بات ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ وہاں روشنی کا انتظام کردیں،مثلاً چراغ روشن کردیں،بجلی ہو تو بلب وغیرہ آن کردیں اس طرح بآسانی روشنی کا انتظام ہوتے ہی اندھیرا خود بخود ختم ہو جائے گا۔

اسی مثال سے یہ سمجھیں کہ آج دنیا میں ہر جگہ جہالت اور دین سے دوری کا اندھیرا ہے ،کفروشرک اور بدعات ورسومات کی تاریکی نے پورے معاشرے کو تاریکی میں ڈبو رکھا ہے یہاں بھی اس تاریکی کو بھگانے اور ختم کرنے کا آسان اور دانشمندانہ طریقہ یہ ہے کہ آپ ایمان ویقین اوراعمال صالحہ دعوت الی اللہ کی روشنی کا انتظام کریں،اس روشنی کے پھیلتے ہی جہالت ودین بیزاری کا اندھیرا فوراً ختم ہو جائے گا‘‘۔

قارئین محترم!یہ وہ مضمون ہے جو آپ حضرات نے بہت سے لوگوں کی زبانی سنا ہوگا اور ممکن ہے بعض تحریروں میں بھی پڑھا ہو ۔ بظاہر یہ مضمون بہت دلکش ،عقل کے قریب اور ہر خاص وعام کے دل ودماغ میں اتر جانے والا ہے ۔ اس مضمون کے حقیقت واقعہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں مگر اس مضمون کے عمومی انطباق اور جس پس منظر وتقابل میں اسے ذکر کیاجاتا ہے وہ نہ صرف غلط بلکہ انتہائی گمراہ کن اور ایمان کیلئے خطرناک ہے۔ یہ مثال اکثر وبیشتر جہاد اور دیگر اعمال اسلام خاص کر دعوت الی اللہ جیسے مقدس کام کے ساتھ تقابل وتقاوت کیلئے پیش کی جاتی ہے۔ اس مثال میں انتہائی غیر محسوس انداز میں جہاد جیسے مقدس اسلامی فریضے کا مذاق اڑایا گیا ہے،ایک عامیانہ تمثیل کے ساتھ اس کی تضحیک کی بلکہ ایک گونہ توہین کی گئی ہے اور شیطان اس خفیہ تدبیر سے لوگوں کو اس مہلک ایمان تمثیل کو ذہنوں میں انڈیل کر جما دیتا ہے کہ بیان کرنے والے اور سننے والے دونوں میں سے کسی کا ذہن اس کے تاریک پہلو کی طرف جاتا ہی نہیں اور یوں ایک غیر محسوس انداز سے جہاد کی حقارت وتوہین اور اس کی عدم افادیت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے بلکہ وہ ایک لغو اور غیر دانشمندانہ فعل قرار پاتا ہے اور یہ سوچ ایمان کیلئے زہر قاتل ہے جو شیطان گھول گھول کر بہت سے بزعم خویش سمجھداروں کو پلا رہا ہے۔ کفر وشر ک اور کافروں کا ظلم وعدوان یقینا اندھیرا ہے اور یہ اندھیرا ایمانی روشنی سے دور ہوگا مگر یہ سمجھنا کہ جہاد محض ایک ڈنڈا ہے جس سے یہ اندھیرا دور نہیں ہوگا بالکل غلط ہے ،بلکہ جہاد بھی ایمانی روشنی کا حصہ ہے ،جہاد بھی ایمان ویقین اور دیگر اعمال صالحہ مثل دعوت الی اللہ کی طرح نور ہے اور جب تک اس ڈنڈے والی روشنی کا انتظام نہ ہوگا وہ اندھیرا کافور نہیں ہوگا۔قرآن وحدیث کی تصریحات اس بات کی شاہد ہیں قرآن مجید کا ہر حکم نور بھرا ہے ،دینی معاملات میں عقلی دخل اندازی کا یہی وہ ضلالت بھرا طرز ہے جس نے باطل قوموں کو تباہ وبرباد اور قرآن وسنت سے دور کردیا ہے یہ ایک عقل ناقص کی تقسیم کا رتو ہو سکتی ہے کہ بعض اعمال صالحہ کو تو روشنی اور نور مان لیا جائے اور کسی خاص عمل کو نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر نور اور روشنی کے بجائے ایک ڈنڈا بنا دیا جائے مگر قرآن وسنت کی یہ تعلیم وتقسیم ہرگز نہیں۔

قرآن وحدیث کی تصریحات تو واضح ہیں اگر اس معاملے کا عقلی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو معاملہ متذکرہ بالا سوچ کے برعکس نکلتا ہے اور جہاد کی ضرورت واہمیت دوبالا ہو کر سامنے آتی ہے۔ آپ غور کریں اندھیرے مختلف نوعیتوں کے ہوتے ہیں ،کسی اندھیرے میں تاریکی زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں کم،پھر کہیں تاریکی کا پھیلائو اوراحاطہ زیادہ اور کہیں کم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ صرف ایک چراغ کی روشنی کفایت کرتی ہے اور کہیں بڑی بڑی سرچ لائٹس کی حاجت پڑتی ہے اسی طرح جہالت وبددینی کی مختلف صورتیں ہیں اور ان کی تاریکی میں تفاوت وکمی وبیشی ہوتی ہے تو لامحالہ اس کے مقابلے اور خاتمے کیلئے مختلف ایمانی نورانی اعمال وافعال بقدر حاجت وضرورت ومقتضائے مقام کفایت کرتے ہیں ۔ اب جس کفریہ تاریکی کے خاتمے کیلئے شریعت مطہرہ نے جو ایمانی عمل متعین کیا ہے تو لامحالہ اس کا خاتمہ اسی سے ممکن ہوگا اور ایک مومن جو اپنے عقلی ڈھکو سلوں پر نہیں قرآن وسنت پر ایمان لایا ہواور اس پر بھروسہ کرتا ہو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اسی عمل کو اختیار کرے اور اسی عمل میں اس کی فرمانبرداری کو جانچا جائے گا اور اسی میں اس کی نجات ہوگی اب اس اصول پر جہاد کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کفریہ طاقتوں کی شان وشوکت، احکام کفروشرک کا غلبہ وحاکمیت،جہاد وقتال فی سبیل اللہ کی برکت سے ختم ہوگا اور اس کی تاریکی کو ختم کرنے کیلئے اہل ایمان جہادہی کے مکلف ہیں ۔ سورہ انفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وقاتلواہم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ
اور ان کافروں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین سارے کا سارا اللہ کا ہو جائے۔

اس آیت میں فتنے سے مراد کفر کی شان وشوکت اور غلبہ وحاکمیت ہے جس کے بل بوتے وہ مسلمانوں کو مختلف فتنوں میں ڈالتے رہتے ہیں اپنے غلبے وحاکمیت کی بنا پر آئے روز نئے سے نیا فتنہ بھڑکا دیتے ہیں ،عصر حاضر ہی میں اس کا مشاہدہ کر لیا جائے کہ آج کافروں کو غلبہ وحاکمیت حاصل ہے تو وہ کس طرح مسلمانوں کے مختلف دینی معاملات میں فتنے ڈالتے رہتے ہیں ،کہیں حجاب پرپابندی کے بل منظور کیے جا رہے ہیں،مساجد کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے،میناروں کی تعمیر ممنوعہ قرار پاتی ہے،داڑھی،پگڑی اور دیگر ظاہری شعائر اسلام کا مذاق اڑانا تو معمول کا کام ہے اور سب سے بڑھ کر نعوذ باللہ کائنات کی مقدس ترین ہستی فداہ ابی وامی نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کے باقاعدہ مقابلے منعقد کرانے سے بھی نہیں کتراتے،غرض ان فتنوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو کافر اپنے غلبہ و حاکمیت کے بل بوتے بآسانی بھڑکارہے ہیں،اب مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات انڈیلنا کہ جناب اس اندھیرے کو بھگانے کیلئے ڈنڈا لیکر غصے سے لال پیلا ہو جانا کوئی دانشمندی نہیں ہے گویا اس فتنے کی روک تھام کیلئے فریضہ جہاد ﴿محض لفظی جدوجہد نہیں بلکہ قتال﴾ کا عَلَم بلند کرنا بیوقوفی ہے ،حقیقت تو یہ ہے کہ خود یہ درس ہی بیوقوفی اور ناسمجھی ہے ۔ جب خود قرآن کریم نے اس فتنے کے خاتمے کا سبب قتال کو قرار دیا ہے اور وہ بھی پورے تسلسل کے ساتھ توپھر یہاں عقل ناقص کی دخل اندازی سے اس اہم دینی فریضے سے خود بھی محروم رہنا اور دوسروں کو محروم کرنا کس طرح دینی خدمت شمار ہو سکتا ہے؟

کفریہ تاریکی کی ایک شکل کافروں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم اور اسلامی ممالک پر قبضہ ویلغار ہے ۔ جب کفریہ طاقتیں کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کردیں،وہاں کے نظام حکومت خواہ وہ کتنا ہی لولا لنگڑا ہو،اسے درھم برھم کرکے باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیں،اسلامی مقدسات کو تباہ وبرباد اور ویران کریں،قرآن کریم کی ناقابل بیان توہین کا سرعام ارتکاب کریں،جو فسادان کے بس میں ہو اس سے دریغ نہ کریں تو اس صورتحال میں قرآن کی طرف سے دو رہنمائیاں ملتی ہیں ۔ ایک تو اس کی وجوہات اور سبب کی نشاندہی کہ اگر اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے تو کیوں؟دوسرے اب اس سے چھٹکارا پایا جائے تو کیونکر؟جواب بالکل واضح ہے کہ جب اہل ایمان نے کفریہ طاقت کو غلبے وحاکمیت سے نہیں روکا اور اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی تو اب یہ دن دیکھنا پڑے کہ جگہ جگہ فسادہی ہے ۔قرآن کریم نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے:
ولولادفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض
اگر اللہ تعالیٰ جہاد کی برکت سے کفریہ فتنوں کو دفع نہ کریں تو پوری زمین پر فساد پھیل جائے۔

قرآن کریم کی واضح پیشن گوئی حرف بحرف ہم پر صادق آرہی ہے ،مسلمانوں کے ۸۹ فیصد حصے نے جہاد ترک کررکھا ہے ،کفریہ فتنے غالب وحاکم ہیں اور زمین بھر میں فساد اور اودھم مچارکھی ہے ،کافروں سے کیا خطاب ،ہمارے مسلمان بھی جواس فساد سے نالاں ہیں وہ بھی فساد کی جڑ کو ختم کرنے کیلئے اس قرآنی نسخے پر عمل پیرا ہونے سے کترا رہے ہیں ،رہی مسلمانوں کی باہمی آویزش تو صدیوں سے جاری ہے اور ایک حدیث کے مطابق اس میں بھی مسلمانوں کیلئے خیر اور بھلائی ہے جو آخرت کے عذاب میں تخفیف اور بچائو کا سبب ہے مگر یہ عالمگیر کفریہ فساد جہاد وقتال ہی سے ختم ہوگا اور افسوس اس عمل کے مخاطب ابھی تک اس سے دور ہیں یاد رکھیں جب تک جہاد وقتال والا چراغ روشن نہیں کریں گے یہ اندھیرا کافور نہیں ہوگا۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 347198 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.