لیلة القدرماہ رمضان کے آخری
عشرے کی طاق راتوںمیں ایک رات ہے ۔یوں توماہ رمضان کاسارامہینہ مبارک ہے
مگرلیلة القدرسارے رمضان پاک کی سردارہے ۔اس کی شان تقدیس بیان کرنے کے لئے
اللہ تعالیٰ نے پوری سورة القدرنازل فرمائی۔چنانچہ اللہ رب العزت اپنی پاک
کتاب قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے۔"بے شک ہم نے اس (قرآن)کوشب قدرمیں
اتاراہے اورآپ کیاسمجھے ہیں (کہ) شب قدر کیاہے ؟شب قدر(فضیلت وبرکت اوراجرو
ثواب میں)ہزارمہینوں سے بہترہے اس (رات)میں فرشتے اورروح الامین(جبرائیل ؑ)اپنے
رب کے حکم سے (خیروبرکت کے)ہرامرکے ساتھ اترتے ہیں یہ(رات)طلوع فجرتک (سراسر)سلامتی
ہے"۔ (پارہ30سورة القدر)
سورة القدرکاشان نزول
اس سورت کے شان نزول کے بارے میں حضرت امام مالک ؓ نے ایک معتبرراوی سے یہ
روایت اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ حضورﷺ نے جب پہلی امتوں کی عمروں پرتوجہ
کی تویہ بات معلوم ہوئی کہ اگلے لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں
توآپکوخیال گزراکہ میری امت کی عمریں انکے مقابلہ میں کم ہیں تو نیکیاں بھی
کم رہیں گی اورپھردرجات اورثواب میں بھی کم ہونگے تواللہ تعالیٰ نے یہ رات
آپکوعنایت فرمائی اوراسکا ثواب ایک ہزارمہینے کی عبادت سے زیادہ دینے
کاوعدہ فرمایا"۔(موطاامام مالک)سورة القدرکے شان نزول کے بارے میں ابن ابی
حاتم میں ایک روایت حضرت مجاہدسے یوں مروی ہے کہ حضورﷺنے بنی اسرائیل کے
ایک شخص کاذکرفرمایاجوایک ہزارماہ تک خداکی راہ میں جہادمیں ہتھیارباندھے
رہاصحابہ کرام کویہ سن کرتعجب ہوا تواللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ
ایک لیلة القدرکی عبادت اس شخص کی ایک ہزارمہینے کی عبادت سے افضل
ہے۔تفسیرعزیزی میں حضرت عبدالعزیزمحدث دہلوی نے سورة القدرکاشان نزول یہ
بیان فرمایاہے کہ نبی کریم ﷺ نے پہلی امتوں کی عمریں ملاحظہ فرمائیںجوبہت
لمبی تھیں اوراپنی امت کی عمریں ملاحظ فرمائیں تووہ بہت قلیل تھیں
جوبالعموم ساٹھ اورستر سال کے درمیان ہیں خیال اقدس میں آیاکہ میری امت نیک
اعمال میںپہلی امتوں کے برابرنہیں ہوسکتی اس سے چہرہ اقدس پررنج کے
آثارنمودارہوئے تورب العالمین نے اپنے محبوب کے رنج کودورکرنے اوردل اقدس
کوتسلی دینے کی خاطرسورة القدرنازل فرمائی کہ محبوب دل سے رنج نکال دو
کیونکہ تیری امت کوشب قدرعنائت کی گئی ہے اگروہ صرف اس ایک رات میں میری
عبادت کرینگے توہزارمہینوں کی عبادت سے بہترہوگی۔ حضرت عبدالعزیزمحدث دہلوی
نے اسی سورة کادوسرا شان نزول یہ بیان فرمایاہے کہ ایک دن سیدعالم ﷺ نے
صحابہ کرامؓ کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک شخص شمعون یاسمعون کاذکرفرمایاکہ
وہ عبادت گزاری اوراطاعت میں ضرب المثل تھاہزارمہینے تک روزے رکھتارات
بھرخدا کی عبادت اورنمازمیں مشغول رہتاتھادن کے وقت ہتھیارباندھ کرخداکی
راہ میں جہادکرتانیک اورغریب لوگوں کی حمایت کرتاتھا۔اسوقت صحابہ کرام نے
بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیایارسول اللہ ﷺ ہم توعبادت میں انکے
برابرنہیں ہوسکتے کیونکہ ہماری عمریں 60اور70 سال کے درمیان ہیں اورپھراس
قدرقلیل عمرمیں کچھ حصہ سونے میں اورکچھ حصہ روزی کے حصول میں اورکچھ کھانے
پینے میں اورکچھ بیماریوں میں بھی خرچ ہوجائیگاتوباقی عبادت کے لئے بہت کم
وقت رہ جائیگالہذا!وہ لوگ ثواب میں ہم سے بڑھ جائینگے آپﷺ یہ سنکرغمزدہ
ہوئے دل میں رنج وحزن پیداہواتواللہ تعالیٰ نے آپکی تسلی کے لئے یہ سورہ
القدرنازل فرمائی کہ اے میرے حبیب اگرچہ تیری امت کی عمریں قلیل ہیں مگر
میں نے سال میں انکوایک ایسی رات عنایت فرمائی کہ اگروہ صرف اس ایک رات میں
عبادت کریں تودوسری امتوں کی ہزارمہینوںکی عبادت سے افضل اوربہترہوگی ۔(تفسیرعزیزی)یہ
بہت ہی قدرومنزلت اورخیروبرکت کی حامل رات ہے قرآن کریم نے ہزارراتوں سے
افضل قرار دیاہے۔لیلة القدرامت محمدیہ کے لئے ایک خاص انعام ہے جواس امت سے
پہلے کسی امت کوعطانہیں کی گئی۔حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ
آقادوجہاں سرورکون مکان ﷺ نے ارشادفرمایا "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے
لیلةالقدرمیری امت ہی کوعطاکی اورتم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفرازنہیں
کیا"۔شب قدر کے بارے میں حضرت سیدعبدالقادرجیلانی کاارشادہے کہ
سیدالبشرحضرت آدمؑ ہیں اورسیدالعرب حضور ﷺہیں اورحضرت سلمان فارسی تمام اہل
فارس کے سردارتھے اسی طرح سیّدالروم حضرت صہیب الرومی ؓ سیّدالحبش حضرت
بلال حبشی اسی طرح تمام بستیوں میں سروری مکہ مکرمہ کووادیوں میں سب سے
برتری وادی بیت المقدس کوحاصل ہے دنوں میں جمعة المبارک سیّدالایام ہے
راتوںمیں شب قدرکوسروری حاصل ہے کتابوں میں قرآن کریم کواورقرآن پاک کی
سورتوں میں سورہ البقرہ کواورسورة البقرہ میں آیت الکرسی کوسب آیات میں
بزرگی اور سرداری حاصل ہے پتھروں میں سے حجراسودتمام پتھروں میں بزرگ ہے
اورماہ زمزم کاکنواں ہرکنویں سے افضل ہے حضرت موسیٰ ؑ کاعصاہر عصا سے
برترتھااورجس مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس ؑرہے تھے وہ تمام مچھلیوں میں
افضل تھی حضرت صالح ؑ کی اونٹنی تمام اونٹنیوں میں افضل تھی اوراسی طرح
براق ہرگھوڑے سے افضل تھاحضرت سلیمان ؑ کی انگشتری تمام انگشتریوں سے
برتراورافضل تھی اور ماہ رمضان تمام مہینوں کاسردارااوران سے بزرگ وافضل ہے
اس سے معلوم ہواکہ لیلة القدر،سیداللیالی یعنی تمام راتوں کی سرداررات ہے ۔
اس رات کوباقی راتوں پرچندوجہ سے بزرگی حاصل ہے اول تویہ کہ اس رات میں شام
سے لیکرصبح تک تجلی الٰہی بندگان خدکیطرف متوجہ ہوتی رہتی ہے ۔دوسرے یہ کہ
اس رات میںروح الامین اور ملائکہ آسمان سے صالحین اورعبادت کرنے والوں کی
ملاقات کے لئے زمین پراترتے ہیں اورانکے آنے اورحاضرہونے کی وجہ سے عبادت
میں وہ لذت اورکیفیت پیداہوتی ہے جودوسری راتوںکی عبادت میںپیدانہیں ہوتی
تیسری یہ کہ قرآن مجیداسی رات میں نازل ہوا،چوتھے یہ کہ فرشتوں کی پیدائش
اسی رات میں ہوئی پانچویں یہ کہ اسی رات بہشت میں باغات لگائے گئے ۔یہ ایک
ایسی مبارک رات ہے کہ جس میں دریائے شورکاکڑواپانی میٹھاہوجاتاہے ۔حضرت
عثمان بن العاصؓکے ایک غلام نے جوکئی سال ملاح رہاہے آپکوبتایاکہ میں نے
دریامیں ایک عجیب بات دیکھی ہے جس سے عقل حیران ہے وہ عجیب بات یہ ہے کہ
سال میںایک ایسی رات آتی ہے جس میں دریائے شورکاکڑواپانی میٹھاہوجاتاہے ۔حضرت
عثمان بن العاصؓنے اُسے فرمایاکہ جسوقت وہ رات آئے تومجھے اطلاع دیناتاکہ
میں معلوم کروں وہ کونسی رات ہے جب ستائیسویں رات رمضان پاک کی آئی توغلام
نے اپناآقاکوبتلایاکہ یہ وہ رات ہے جس میں دریائے شورکاپانی
میٹھاہوجاتاہے۔(بحوالہ تفسیرعزیزی)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آقاعلیہ
الصلوٰة والسلام نے فرمایا"جوشخص لیلة القدرمیں حالت ایمان اورثواب کی نیت
سے قیام کرتاہے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں"۔
درج بالاحدیث پاک میں لیلة القدرمیں عبادت کی تلقین کی گئی ہے ۔اوراس بات
کی طرف بھی متوجہ کیاگیاہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی
مقصودہودکھاوااورریاکاری نہ ہواورآئندہ گناہ نہ کرنے کاعہدکرے اس شان سے
عبادت کرنے والے کے لئے یہ رات سراپامغفرت بن کرآتی ہے لیکن وہ شخص محروم
رہ جاتاہے جواس رات کوپائے اورعبادت نہ کرسکے ۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت
ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کی آمدپرحضورﷺنے ارشادفرمایا۔"یہ ماہ
جوتم پرآیاہے اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات
سے محروم رہ گیاگویاوہ ساری خیرسے محروم رہااوراس رات کی بھلائی سے وہی شخص
محروم رہ سکتاہے جوواقعتاََمحروم ہو"۔یہ رات کتنی عظمت والی ہے ۔واقعی وہ
انسان کتنابدبخت ہے جواتنی بڑی نعمت کوغفلت کی وجہ سے گنوادے۔ہم معمولی
معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتے ہیں تواَسّی80سال کی
عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگناکوئی زیادہ مشکل کام تونہیں"۔حضرت
انسؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے لیلة القدرکی فضیلت بیان کرتے ہوئے
ارشادفرمایا"جب لیلة القدرہوتی ہے توجناب جبرائیلؑ ملائکہ کے جلوے میں آتے
ہیں اورہراس بندے کے لئے بخشش کی دعاکرتے ہیں جوکھڑے ہوکریابیٹھے ہوئے اللہ
کی عبادت میں ہوتاہے اورجب بندوں کی عیدیاافطارکا دن ہوتاہے تواللہ تعالیٰ
بڑے فخرونازسے فرماتاہے اے فرشتو!اس مزدورکے لئے کیاہے جواپناکام مکمل کرتا
ہے َتوفرشتے عرض کرتے ہیں اے رب کریم!اسکاصلہ پوری مزدوری ہے جواسکواداکی
جائے تب رب کریم فرماتاہے کہ میرے بندوں اوربندیوں نے اپنے اوپرلازم عمل (فریضہ)
کوپوراکرلیااوراب وہ مجھے پکارتے ہوئے اوردعاکرتے ہوئے عیدگاہ کی طرف نکلے
ہیںمیرے عزت وجلال کرم اورعلومرتبت کی قسم! میں انکی دعاقبول کرونگااس وقت
تک اللہ پاک فرماتاہے واپس ہوجاﺅمیں نے تمہیں بخش دیاہے تمہارے گناہوں
کونیکیوں میں تبدیل کردیاہے اس بات کونقل کرتے ہوئے نبی ﷺنے فرمایاکہ جب یہ
لوگ اپنے گھروں کولوٹتے ہیں توانکے گناہ بخشے جاچکے ہیں ۔(بیہقی)حضرت ابن
عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاہے کہ"جب لیلة القدرہوتی ہے
تواللہ تعالیٰ جبرائیل ؑکوحکم دیتاہے اوروہ حسب الحکم فرشتوں کی جماعت کے
ساتھ زمین کی طرف اترتے ہیں انکے پاس سبزپرچم ہوتاہے جسے وہ کعبے کی چھت
پرنصب کردیتے ہیں حضرت جبرائیل ؑ کے سوپرَہیں جن سے وہ دوپرصرف اسی رات
پھیلاتے ہیں جومشرق ومغرب سے آگے تک تجاوزکرجاتے ہیں حضرت جبرائیل امین
فرشتوں کوحکم دیتے ہیں کہ امت مسلمہ میں پھیل جاﺅتوفرشتے ہرنمازی ،عبادت
گزاراورذکرالٰہی کرنے والے کوسلام کرتے ہیں خواہ وہ بیٹھاہویا کھڑاہوان سے
مصافحہ کرتے ہیں اوردعاکے وقت ان کے ساتھ آمین کہتے ہیں یہاں تک صبح ہوجاتی
ہے پھرجب صبح ہوجاتی ہے توجبرائیل امین ؑ فرشتوں کوآوازدے کرکہتے ہیں بس اب
چلوفرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے جبرائیل!اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے مومنوں
کی حاجتوں کے بارے میں کیافیصلہ فرمایاہے ؟جبرائیل امین جواب دیتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے انھیںنظررحمت سے سرفرازفرمایاہے اورانہیں معاف کردیاہے
اوربخش دیا ہے سوائے چارشخصوں کے صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے عرض
کیایارسول اللہﷺ وہ چاراشخاص کون ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایاعادی شراب خور،والدین
کانافرمان رشتے توڑنے والا اورمشاحن ہم نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ مشاحن کون
ہے توآپ نے فرمایاکہ جومصارم ہویعنی دل میں بغض رکھتاہے۔(غنیة
الطالبین)حضرت ابوسعیدخدریؓ روایت کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہﷺنے ابتدائے
رمضان کے پہلے عشرے کااعتکاف کیاپھردوسرے عشرے کااعتکاف چھوٹے خیمہ میں
کیااس اعتکاف کے دوران سرمبارک خیمہ سے نکال کرفرمایامیں نے پہلے عشرہ
کااعتکاف کیاتومیں لیلة القدرکو تلاش کرتارہاپھرمیں نے دوسرے عشرے کااعتکاف
کیاتومجھ سے ایک فرشتہ نے آکرکہاکہ لیلة القدرتورمضان کے آخری عشرہ میں ہے
اب جومیری سنت کے اتباع اعتکاف کاارادہ رکھتاہے اسکوچاہیے کہ آخری عشرہ
میںاعتکاف کرے مجھے یہ رات خواب میں دکھائی گئی ہے لیکن بعدمیں اسکاخیال
میرے ذہن سے محوکردیاگیااورصبح کومیں نے دیکھاکہ میں گیلی کیچڑجیسی زمین
میں محوسجدہ ہوں لہذا!تم اس (لیلة القدر) کوآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلا
ش کروراوی کہتے ہیں کہ اس وقت بارش ہوئی تھی اورمسجدنبوی کی کھجورکے پتوں
سے بنی ہوئی چھت کے ٹپکنے کی وجہ سے فرش پرکیچڑہوئی تھی اورمیں نے رسول
اللہ ﷺکی پیشانی مبارک پرپانی اورمٹی کااثردیکھاتھااوریہ اکیسویں تاریخ کی
صبح تھی۔حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے چنداصحاب نے خواب
میں شب قدرکورمضان کی آخری سات راتوں کودیکھااس سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ نے
فرمایامیں تمہارے خوابوں میں مماثلت دیکھتاہوں تم میں سے شب قدرکوتلاش کرنے
والاماہ رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے ۔(مسلم شریف)حضرت زربن جیشؓ
نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے کہاکہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے
ہیں کہ جوشخص سال بھرمیں راتوںکوقیام کریگاوہ لیلة القدرکوپائے گاآپ نے
فرمایااللہ تعالیٰ ان پررحم کرے شایداس میں انکاارادہ ہوکہ لوگ اسی
پربھروسہ نہ رکھیں وہ جانتے ہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے اوریہ رات
ستائیسویں رمضان کی ہے پھراس بات پرحضرت ابی بن کعبؓ نے قسم کھائی میں نے
پوچھاآپ کویہ کیسے معلوم ہواجواب دیاکہ ان نشانیوں سے جوہم کوبتائیں گئی
ہیں کہ اس دن سورج شعاعوں کے بغیرنکلتاہے اورروایت میں ہے کہ حضرت ابی بن
کعب ؓ نے کہااس خداکی قسم جسکے سواکوئی معبودنہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی
ہے آپ نے اس پرانشاءاللہ بھی نہیں فرمایااورپختہ قسم کھالی پھرفرمایا مجھے
خواب معلوم ہے کہ وہ کونسی رات ہے جس میں قیام کرنے کارسول اللہﷺکاحکم ہے
یہ ستائیسویں رات ہے اسکی صبح کوسورج سفیدرنگ کا نکلتا ہے اورتیزی زیادہ
نہیں ہوتی۔حضرت معاویہ ابن ابی سفیانؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ
نے لیلة القدرکے بارے میں فرمایاکہ وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔(ابوداﺅد)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت عمرؓ کی خدمت میں
حاضرہواوہاں دیگرصحابہ کرام بھی تشریف فرماتھے حضرت عمرؓ نے ان سے سوال
کیاکہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان "شب قدر "کورمضان کے آخری عشر ے کی طاق
راتوں میں تلاش کرواس کے بارے میں تم لوگوں کاکیاخیال ہے وہ کونسی رات
ہوسکتی ہے؟کسی نے کہااکیسویں،کسی نے کہاپچیسویں،کسی نے کہا ستائیسویں،میں
خاموش بیٹھاتھاحضرت عمرؓ نے فرمایابھائی تم بھ کچھ بولومیں نے عرض کیاجناب
آپ ہی نے توفرمایاتھاکہ جب یہ بولیں توتم نہ بولناآپ ؓ نے فرمایابھائی
تمہیں تواسی لئے بلوایاگیاہے کہ تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاکہ میں نے
سناہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات چیزوںکاذکرفرمایاہے چنانچہ سات آسمان پیدا
فرمائے سات زمینیںپیدافرمائیں انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی انسان
کی غذازمین سے سات چیزیں پیدافرمائیں(اس لئے میری سمجھ میں تویہ آتاہے کہ
شب قدرستائیسویں شب ہوگی)حضرت عمرؓ نے فرمایاجوچیزیں تم نے ذکرکی
ہیںانکاتوعلم ہمیں بھی ہے یہ بتلاﺅجوتم کہہ رہے ہوکہ انسان کی غذازمین سے
سات چیزیں پیدافرمائیں وہ کیاہیں؟میں نے عرض کیاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس
ارشادمیں موجودہیں (ترجمہ) ہم نے عجیب طورپرزمین کوپھاڑاپھرہم نے اس میں
غلہ اورانگوراورترکاری اورزیتون اورکھجوراورگنجان باغ اورمیوے اورچارہ
پیداکیا میں نے عرض کیاکہ حد ائق سے مرادکھجوروں درختوں اورمیوﺅں کے گنجان
باغ ہیں اوراَبّ سے مرادزمین سے نکلنے والاچارہ ہے جوجانور کھاتے ہیں انسان
نہیں ۔حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ تم سے وہ بات نہ ہوسکی جواس
بچہ نے کہہ دی جس کے سرکے بال بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے بخدامیرابھی یہی
خیال ہے جوکہہ رہاہے۔(شعب الایمان جلد۳صفحہ 330) حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی
ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاشب قدرکورمضان کے آخر ی عشرہ کی طاق راتوں میں
تلاش کرو۔ (بخاری شریف)حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے
حضورﷺسے لیلة القدرکے متعلق سوال کیاتوآپ ﷺ نے فرمایا"وہ رمضان میں ہے سوتم
اسے آخری عشرہ میں تلاش کرولیلة القدراکیسویں یاتئیسویں
یاپچیسویںیاستائیسویں طاق راتوں میں ہے یارمضان کی آخری رات ہے جس شخص نے
لیلة القدرمیں حالت ایمان اورطلب ثواب کی نیت سے قیام کیاپھراسے ساری رات
کی توفیق دی گئی تواسکے اگلے اورپچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔رسول اللہ
ﷺنے فرمایاکہ شب قدر کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ چمکداراورکھلی ہوتی ہے
صاف وشفاف گویاکہ اس میں چاندواضح ہوتاہے معتد ل ہوتی ہے نہ سردنہ گرم اس
رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کونہیں مارے جاتے اوراسکی نشانیوں
میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعدصبح کوآفتاب شعاعوں کی تیزی کے بغیرطلوع
ہوتاہے اوراس طرح ہوتاہے جیساکہ چودھویں کاچاندشیطان کے لئے روانہیں کہ اس
دن کے سورج کے ساتھ نکلے۔(مسندامام احمد)شب قدرتلاش کرنے کاخاص طریقہ
اعتکاف ہے یعنی رمضان کے آخری عشرہ میں کسی مسجدمیں اللہ کویادکرنے کے لئے
بیٹھ جائے ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے (ایک
دفعہ)آقاﷺسے عرض کیایارسول اللہ ﷺاگرمیں لیلة القدرکو پالوںتواس میں
کیادعاکروں؟آپ ﷺ نے ارشادفرمایایوں کہو۔
اَللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ’‘تُحِبُّ العَفوَفَاعفُ عَنِّی اے اللہ توبہت
معاف فرمانے والاہے اوردرگزرکرنے کوپسندکرتاہے پس تومجھ کومعاف فرما
عبادت شب قدر
1. حضرت عبداللہ بن انیسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض
کیایارسول اللہ ﷺ میں جنگل میں رہتاہوں اوراللہ کے فضل کرم سے وہیں مصروف
عبادت رہتاہوں آپ مجھے ایک رات بتادیں تاکہ اس رات میں مسجدمیں
حاضرہوجایاکروں توآپﷺ نے فرمایاتم رمضان کی تئیسویں تاریخ کومسجدمیں
آیاکرو(راوی کہتے ہیں)جب جناب عبداللہ کے بیٹے سے معلوم کیاگیاکہ تمہارے
والدکس طرح عمل کرتے تھے توانہوں نے بتایاکہ وہ عصرکی نمازکے بعدمسجدمیں
آجاتے تھے اوراسکے بعدکسی ضرورت کے علاوہ مسجدسے نہیں نکلتے تھے جب تک
فجرکی نمازسے فارغ نہیں ہوتے نمازسے فارغ ہونے کے بعداپنی سواری مسجدکے
دروازہ پرپاتے اوراس پربیٹھ کرجنگل چلے جاتے تھے
2.حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ آخری عشرہ آتاتورسول اللہ ﷺ
اپناتہبند مضبوط باندھ لیتے(تیارہوجاتے)راتوں کوخودبھی جاگتے
اورگھروالوںکوبھی جگاتے۔ (بخاری شریف)
3.تفسیریعقوب چرخی سے منقول ہے کہ اس رات میں دورکعت نفل اس طرح پڑھیںکہ
ہررکعت میں سورة الفاتحہ کے بعدسورة الاخلاص سات مرتبہ پڑھیں نوافل پڑھنے
کے بعدیہ وظیفہ سترمرتبہ پڑھیں انشاءاللہ اس نمازکے پڑھنے والے اپنے مصّلے
سے نہیں اٹھیں گے کہ اللہ پاک ان کے اورانکے والدین کے گناہ معاف
فرماکرمغفرت فرمائے گااوراللہ تعالیٰ فرشتوںکوحکم دے گاکہ اس کے لئے جنت
آراستہ کرواور فرمایا کہ وہ جب تک تمام جنتی نعمتیں اپنی آنکھ سے نہ دیکھ
لے گااس وقت تک موت نہ آئے گی مغرت کے لئے یہ نمازبہت افضل ہے۔
"اَستَغفِرُاللّٰہَ العَظِیمِ الَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّاھُوَالحَیُّ
القَیُّومُ وَاَتُوبُ اِلَیہِ"۔
4۔جوشخص دورکعت نوافل یوں پڑھے کہ ہررکعت میں الحمدشریف کے
بعداِنَّاانزلناہ ایک بارقُل ہوُاللہ احدتین بارپڑھے تواللہ تعالیٰ اسکوشب
قدرکاثواب عطاکریگااوراسکے نفل قبول فرمائے گااوراسکوحضرت ادریس اورحضرت
شعیب اورحضرت ایوب اورحضرت داﺅداورحضرت نوح ؑ کی عبادت کاثواب عطافرمائے
گااوراسکوجنت میں مشرق سے مغرب تک ایک شہرعنایت فرمائے گا ۔
5۔ 27شب قدرکوبارہ رکعت نمازتین سلام سے پڑھے ہررکعت میں بعدسورة الفاتحہ
کے سورة القدرایک ایک مرتبہ سورة الاخلاص پندرہ پندرہ مرتبہ پڑھنی ہے
بعدسلام کے ستر مرتبہ استغفارپڑھے اللہ تعالیٰ اس نمازکے پڑھنے والے
کونبیوں کی عبات کاثواب عطافرمائے گا۔
6۔ جوکوئی 20رکعت نوافل اس طرح پڑھے کہ ہررکعت میں سورة الفاتحہ کے بعداکیس
بارسورة الاخلاص پڑھے وہ اپنے گناہوں سے اسطرح پاک ہوجائے گاجیسے ابھی ماں
کے پیٹ سے پیداہواہو۔ (تذکرة الواعظین)
7۔اس رات صلوة التسبیح پڑھنابہت افضل ہے حدیث مبارک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ
نے حضرت عباس سے فرمایااے چچا!کیامیں آپکوعطانہ کروں آپکے ساتھ احسان نہ
کروں ایک روایت میں ہے کہ آپکے ساتھ نیک سلوک نہ کروں آپکونفع نہ
پہنچاﺅںانہوں نے عرض کیایارسول اللہﷺ !کیوںنہیں(ضرورنوازیے)آقاﷺنے فرمایاکہ
نمازکے پڑھنے والوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں آقاعلیہ
الصلوة والسلام نے فرمایااسکوروزانہ پڑھواگرایسانہ ہوسکے توجمعہ کے دن
پڑھویہ بھی نہ ہوسکے تواس نمازکومہینہ میں ایک بار پڑھواگریہ بھی نہ ہوسکے
تواس نمازکوسال میں ایک بارپڑھویہ بھی نہ ہوسکے تواسکوعمرمیں ایک بارپڑھ لو
طریقہ نماز!اللہ اکبرکہہ کرنیت کرکے ثناءپڑھیں پھرپندرہ مرتبہ سبحان اللہ
والحمدللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبرپڑھے اسکے بعدالحمد اورسورة پڑھ
کرپھردس باریہی کلمہ پڑھیں اسکے بعدرکوع کریں رکوع کی تسبیحات کے بعدپھراسی
کلمہ کودس باررکوع میںپڑھیںپھررکوع سے سر اٹھائیں تسبیح تحمیدکے بعددس
باریہی کلمہ پڑھیں پھرسجدہ کریں اورسجدہ کی تسبیحات کے بعددس باریہی کلمہ
پڑھیں اسکے بعدسجدہ سے سراٹھائیں جلسہ میں بیٹھ کردس باریہی کلمہ پڑھیں
پھردوسراسجدہ کریں تسبیحات کے بعدپھراسی کلمہ کودس بارپڑھیں یادرکھیں
ثناءکے بعدپندرہ مرتبہ اسکے علاوہ دس دس مرتبہ کلمہ پڑھناہے۔اسی طرح ہررکعت
میں 75مرتبہ یہی کلمہ پڑھناہے۔ٹوٹل چاررکعت میں300بارپڑھناہے۔ |