بندر نامہ

بھارت میں قومی سلامتی کے اداروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے دیگر اُمور کے ساتھ ساتھ شاید یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کِسی بھی معاملے میں پاکستان کا ہاتھ کِس حد تک تلاش کیا جاسکا ہے! خفیہ اداروں کی سرگم خواہ کِسی سَپتک سے شروع ہو، تان پاکستان پر ٹوٹتی ہے! ایسے میں مُمبئی پولیس سے ایک سنگین غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خبر آئی کہ ممبئی کے نواح میں واقع بسی پٹھانا کے پولیس اسٹیشن کو بندروں نے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ہمیں عجیب لگا کہ پولیس اہلکاروں کے ہوتے ہوئے بندروں کو الگ سے یلغار کرنے کی کیا ضرورت تھی! غریبوں سے اَٹے ہوئے ملک میں توانائی اور وسائل کا ایسا ضیاع برداشت نہیں کیا جانا چاہیے! خیر، بسی پٹھانا پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او چاند سنگھ نے ریاستی محکمہ جنگلات کو درخواست دی ہے جس میں کہا ہے کہ بندروں نے کام کرنا دوبھر کردیا ہے۔ پولیس اسٹیشن کی عمارت کو بندر ہر وقت گھیرے رہتے ہیں اور آنے جانے والوں پر چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ بسا اوقات اہلکاروں کو تھانے کے اندر بند رہنا پڑتا ہے!

ہم نے سوچا اگر ممبئی میں پولیس اہلکاروں کے خوف کا یہ عالم ہے تو بندروں کو وردی پہناکر ڈیوٹی سونپنے میں کوئی ہرج نہیں! اور ساتھ ہی ذہن میں یہ خیال بھی اُبھرا کہ ممبئی پولیس جب بندروں سے اس قدر ڈرتی ہے تو غیر ملکی دہشت گردوں کی آمد اور حملے کا سُن کر اُس کا کیا حال ہوتا ہوگا! پھر اگر اُن کے دِل و دِماغ پر پاکستانی ”آتنک وادیوں“ کا خوف سوار رہتا ہے تو حیرت کی کیا بات ہے؟

چاند سنگھ نے محکمہ جنگلات سے درخواست کی ہے کہ بندروں کے ”آتنک واد“ پر قابو پانے کے لیے لنگور بردار افسران تعینات کئے جائیں۔ ”تشویش“ کی بات صرف یہ ہے کہ چاند سنگھ نے اپنی درخواست میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ ممبئی میں بندروں نے جو ہاہا کار مچایا ہوا ہے اُس میں آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے! محکمہ جنگلات کو بندروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قبل چاند سنگھ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کہ سرکاری اہلکاروں کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے وہ ملبہ آئی ایس آئی پر ڈالنا کیسے بھول گیا!

محکمہ جنگلات کے افسران تربیت یافتہ بندر لیکر ریاست میں مختلف مقامات پر تعینات رہتے ہیں۔ بندروں کو لنگور سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ خاصے بڑے ہوتے ہیں اور بندروں کو مار ڈالتے ہیں۔ اِنہیں دیکھتے ہی بندر راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ فاریسٹ آفیسرز عوام کی آسانی کے لیے تربیت یافتہ لنگور کو زنجیر سے باندھ کر رکھتے ہیں تاکہ عوام کو افسر اور لنگور کا فرق معلوم ہو!

ایک ممبئی پر کیا موقوف ہے، بھارت بھر میں بندروں نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ ہنومان جی کی کرپا سے بندروں کو مذہبی تقدس حاصل ہے یعنی جو جی میں آئے، کرتے پھریں۔ پورے بھارت میں بندروں کو ہر قسم کی کارروائی سے استثنٰی حاصل ہے! اور صاحب! ایک بھارت پر کیا موقوف ہے، دُنیا بھر میں ہر طرح کے سیاسی و غیر سیاسی بندروں کو تمام اقسام کی قلابازیاں کھانے کی بھرپور آزادی حاصل ہے اور وہ بے خوف ہوکر اُچھلتے کودتے پھرتے ہیں! یہ دُنیا ہے ہی ایسی۔ جو لُوٹے، جھپٹا مار کر سب کچھ چھین لے اور لات مارے اُسے سلام کرتی ہے۔

بھارت کے بندر خاصے سیاسی ہیں۔ جی بھر کے لوٹ مار کرتے ہیں، چھینا جھپٹی کرتے ہیں اور جب کارروائی کی بات آتی ہے تو چہرے پر جہاں بھر کی معصومیت سمیٹ کر ہنومان جی کا روپ دھارتے ہوئے صاف بچ نکلتے ہیں! پل میں بندر، پل میں بھگوان۔ یہ تو خاصی جانی پہچانی روش معلوم ہوتی ہے۔ بھارتی قیادت بھی خطے میں چھینا جھپٹی کرنے کے بعد معصومیت کا بندرانہ ڈھونگ رچانے کی عادی اور ماہر ہے! صرف یہ طے کرنا رہتا ہے کہ کِس سے کِس سے اکتساب کیا ہے!

مرزا تنقید بیگ کو بھارت میں بندروں کے راج پر ذرا بھی حیرت نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بالی وُڈ والے کئی عشروں سے رقص کے نام پر جو بندرانہ اُچھل کود مچائے ہوئے ہیں اُس کے نتیجے میں بالآخر بھارت کے کونے کونے میں بندروں ہی کو جلوہ افروز ہونا تھا! ہم نے مرزا کو بتایا کہ چھ سال قبل جب ہم ممبئی گئے تھے تب ہمیں تو وہاں زیادہ بندر دِکھائی نہیں دیئے تھے۔ مرزا نے جواب دیا ”آپ کے جلوے کی تاب نہ لاتے ہوئے اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں گے! ویسے بھی ایک نیام میں دو تلواریں اور ....“ ہمارے چہرے پر پنجابی فلموں کے ولن کے سے تاثرات اُبھرتے دیکھ کر مرزا نے جملہ ادھورا چھوڑنا بہتر سمجھا۔

صریح گستاخی کو دوستی کے نام پر برداشت اور نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے اگلا سوال کیا کہ بالی وُڈ کی مہربانی سے جب ممبئی میں پہلے ہی دو ٹانگوں پر اُچھلنے کودنے والے ”سیلیبرٹی بندر“ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں تو اصلی تے نسلی بندروں کو اِس شہر میں رونق افروز ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ مرزا نے کہا ”اصلی تے نسلی بندر شاید اپنی روایتی اور جبلّی اُچھل کود سے تنگ آچکے ہیں اور اُن کے بھگت بھی اُن میں تقدس کے ساتھ ساتھ کچھ نئی قلابازیاں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اور بندروں کو نئی قلابازیاں بالی وُڈ کے ڈانس ڈائریکٹرز سے بہتر کون سِکھا سکتا ہے؟ اضافی تربیت کے لیے سلمان خان، اکشے کمار، عمران ہاشمی، گووندا، رجنی کانت اور اِن سب سے بڑھ کر پربھو دیوا کی خدمات حاضر ہیں!“

ویسے اگر بندر کچھ سیکھنا ہی چاہتے ہیں تو نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس کا بھی رُخ کرسکتے ہیں۔ آج کل بھارت کے منتخب ایوانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بندروں کو بھی گھن چَکّر بناسکتا ہے! فوج اور سیاست دانوں میں ٹھنی ہوئی ہے۔ انہونی یہ ہوئی ہے کہ بھارتی فوج کے چند یونٹس پر ڈسپلن کی خلاف ورزی اور حکم کے برخلاف نقل و حرکت کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ لوک سبھا کی کارروائی دیکھ کر نِت نئی قلابازیاں سیکھنے کے دوران بندروں کو محتاط بھی رہنا ہوگا کیونکہ اُن کا سامنا بڑے بڑے خوں خوار لنگوروں سے بھی ہوسکتا ہے! ساتھ ہی اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اِن لنگوروں کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی زنجیر نہیں ہوتی! مسلمانوں کے خون سے پیاس بُجھانے والے ایک بڑے سیاسی لنگور کو حال ہی میں کلین چٹ دی گئی ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484159 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More