شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کیا ہوتا ہے؟ پارٹ ۔ 1

ایک حدیث کی رو سے نکاح اسلام میں ایک سخت ضروری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں سے اسلام چلا ہے وہاں کے لوگ اس سخت ضروری عمل پر، عمل پیرا ہوتے ہوئے کچھ غیر ضروری عمل کر کے ہر سال دو سال بعد بے حساب شادیاں رچا کر ہضم کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے کیونکہ انکے معدے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ باہر لے ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی مصطفی کھر، جاوید شیخ اور کچھ دیگر معزز مولوی حضرات جیسے بہت سے ایک سے زائد شادیوں کے شوقین پائے جاتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر شادی شدہ حضرات کنواروں کو کنوارہ رہنے ہی کا مشورہ دیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ؟ بیچارہ کنوارہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ یار خود تو مزے لے لیے، مجھے ٹرخا یا یرکا ر ہا ہے۔ یہ کیا چکر ہے؟۔دراصل میں شادی شدہ کا تجربہ بول رہا ہوتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں بھی ہزاروں بیچار ے شادی کے شوقین حضرات نے میرا پتی بننے کی ناکام کوشش میں خوب درگت بنوائی، یہ جانے بغیر کہ پتیوں (شوہروں) پر صرف پھولوں کی پتیاں ہی نچھا ور نہیں ہوتیں بلکہ کانٹوں کی بارش زیادہ ہوتی ہے۔آئیے ایک نئے سیلف میڈ دولہے کا حال جانتے ہیں۔

سب سے پہلے تو لڑکے کے لیے تلاشِ لڑکی برائے لڑکا کنوارہ کا کام بذمہ ہمشیرگان ، ماسیان، یا والدان لگا د یا جاتا ہے۔آس پڑوس کے لوگوں، گلی محلے، خاندان، شہر اور ملک بھر میں اپنے سورج سے بیٹے (چاند دلہن کے لیے جو استعمال ہوتا ہے)کے لیے اعلان کرا دیا جاتا ہے کہ جہاں کہیں کوئی ماہ نور، پری چہرہ، حور پری، پتلی دبلی سمارٹ سی پندرہ سولہ سالہ حور نظر آئے فوراً ہمیں ہماری ویب سائٹ پر خبر دیں۔(اپنا منڈا چاہے ویوین رچرڈ جیسا کالا کلوٹا اور پچاس کے پیٹے میں ہی کیوں نہ ہو)۔ یوں کچھ تلاش بسیار اور ادھر ادھر سے معلومات لینے، جوتیاں گھسانے اور خاک چھاننے کے بعد لڑکے والوں کا مختلف لڑکی والوں کے ہاں آوت جاوت کا فیتہ کٹنے کی بجائے جیب کٹنے سے باقاعدہ افتتاح ہوجاتا ہے۔پھر یوں ہوتا ہے کہ کسی جگہ پر ماں راضی تو بہن کا انکار ، کہیں پر بہن راضی تو ماں کی ناک پھول کر کپا کہ اے ہے دیکھو تو اتنی موٹی لڑکی کیا میرے نازک سے بیٹے کی بہو بنے گی؟ (حالانکہ انکا اپنا بیٹا جاپان کے سومو پہلوان سے کم نہیں ہوتا) ، نہیں نہیں۔ کہیں بہن صاحبہ لڑکی کے کلر کا مسئلہ کھڑا کر دیتی ہیں کہ لڑکی کالی یا سانولی ہے ، کہیں قد کا، کہیں ناک ، کہیں کان تو کہیں آنکھیں نہیں بھاتیں۔ کہیں ایک بہن کو لڑکی پسند آگئی تو دوسری کا انکار ، دوسری کو پسند آگئی تو تیسری کا انکار۔ وغیرہ وغیرہ۔ خیر جناب! ہمارا مدعا یہاں لڑکے یعنی دولہا کی محرومیاں ظاہر کرنا ہیں نہ کہ دلہن کی۔ تو اس لڑکے (یعنی ہونے والے دولہا) کی بیچارگی یہیں سے شروع ہو جاتی ہے جب یہ بیچارہ معصوم بے زبان جانور کی طرح درجنوں لڑکیوں کے بارے میں اپنی ماﺅں اور بہنوں کے روزانہ صبح شام نت نئے راگ پاٹ یعنی کمنٹس سن سن کر آخر کار انکی کسی ہاں میں ہاں ملاکراپنی بھی نکی جی ہاں۔۔۔۔ کر ہی دیتا ہے۔دراصل میں اس بے چارے کو بھی شادی کی جلدی ہوتی ہے کہ گلی، محلے والے ، رشتہ دار، دوست وغیرہ مختلف فقرے چست کر کے اس بیچارے کی ناک میں دم کیے ہوتے ہیں ۔ مثلا: ایک کہے گا کہ : یار کب کریگا شادی؟ جلدی کر لے ورنہ جنازہ بھی حرام ہو جائیگا۔ دوسرا کہے گا کہ یا ر میٹھے چاول کب کھلا رہے ہو۔۔؟، تیسرا کہے گا یار گنجے ہو گئے پر شادی نہیں کی۔ چوتھا کہے گا یار لگتا ہے تمہارے سائز کی تو لڑکی ہی پیدا نہیں ہوئی دنیا میں، پانچواں کہے گا کہ یار بڈھا ہو جائیگا پھر کچھ نہیں ملنے والا، جلدی شادی کر لے۔ چھٹا کہے گا کہ یا ر کسی نئے دولہا سے ہاتھ پھر والے تاکہ تیری بھی قسمت جاگ جائے۔۔۔ مزید یہ کہ لوگ جوانی میں ہی انکل انکل کہہ کر چھیڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں بیچارہ لڑکا سوچتا ہے کہ یار چلو اب کچھ کرا ہی لیں۔

لیں جناب ! لڑکی والوں کی ہاں کے بعد تیاریاں شروع۔ بہنوں کی فرمائش کہ پہلے دھوم دھام سے منگنی کریں گے۔لڑکا بیچارہ کہتا رہ جاتا ہے کہ بس بڑوں میں رشتے کی بات ہوگئی ہے بہت ہے۔ ا با بھی کہتے ہیں کہ میں لڑکی کے ہاتھ پر ہزار روپے رکھ آیا تھا ، مٹھائی بھی تھی اب لڑکی پکی ٹھکی ہماری ہے۔منگنی ونگنی کی ضرورت نہیں۔ مگر بہنوں کی ضد کے آگے انکی دال نہیں گلی (شاید ثابت مسر یا پتھر کی د ا ل تھی)۔ یوں جناب ہمشیرگان پہلے ہی رگڑے یعنی منگنی کے فنکشن پر صرف لڑکی کو انگوٹھی پہنانے میں ہی کسی غریب کی شادی جتنے پیسے لگواد یتی ہیں۔حتیٰ کہ دلہن کی انگوٹھی ہی ایک دو ماشے کی بجائے تولوں میں پسند کی گئی جسکی قیمت ہی 70 ٰہزار روپے بنی۔دیگر دلہن اور اسکے اقرباء کے کپڑوں لتوں اور کھانے پینے کے اخراجات علیحدہ سے تھے۔ جبکہ لڑکی والے کنجوس صرف دو ماشے کی انگوٹھی اور صرف ایک سوٹ لائے، با قی گھر کے کسی ایک بندے کا ناڑا (ازار بند)، ناک صاف کرنے کا رومال یا کسی چھوٹے بچے کا پیمپر تک بھی منگنی کی بری میں موجود نہ تھا۔ ہونے والا دولہا بیچارہ سوچ میں پڑ گیا کہ یار منگنی پر ہی اتنا خرچہ تو آگے شادی پر کیا ہوگا؟۔منگنی سے فراغت کے بعد جناب شادی کی تیاریاں فل موشن پر شروع۔

دولہا بیچارے کا ایک اور پھڈا گھر والوں سے مہمانوں کی لسٹ بنانے پر شروع ہوتا ہے ،جب اس بیچارے کو فرنٹ فٹ کی بجائے بیک فٹ پر کھیلنا پڑتا ہے۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ شادی میں کس کو اکیلا اور کس کو بمعہ اہل و عیال بلایا جائے۔ کسے بارات میں اور کسے صرف ولیمے پر بلایا جائے۔ دولہا بیچارے کی کم مہمان بلا کر خرچہ بچانے کی اس ناکام مہم کو گھر والوں کی میجورٹی رد کر دیتی ہے۔ کوئی کہتا کہ فلاں نے ہمیں ہر بار بمعہ اہل و عیال بلایا ہے تو ہم بھی انہیں بمعہ اہل و عیال ہی بلائیں گے۔ کسی کی منطق تھی کہ جی ہمارے گھر کی پہلی شادی ہے سب کو بمعہ اہل و عیال بلایا جائے۔ کوئی کہتا تھا کہ سنگل کوئی نہیں تمام رشتہ داروں، دوست احباب کو بمعہ اہل و عیال بلایا جائے۔ وغیرو وغیرہ۔ چھوٹے بہن بھائیوں نے اپنے اپنے دوستوں کی بمعہ اہل و عیال تمام لسٹیں پہلے ہی فائنل کر دی تھیں اور انمیں کمی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ایک اور مسئلہ شہر سے باہر کے رشتہ داروں کو بلانے،انکی رہائش اور اٹھانے بٹھانے کے انتظام کابھی تھا کیونکہ اندیشہ تھا کہ باہر کے مہمانوں کی آمد سے گھر ریلوے اسٹیشن میں تبدیل ہوجانا تھا اور گھر کے اپنے بندوں کو بھی رات میں سر چھپانے کو گھر میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمسایوں کی بیٹھک ادھار لینی پڑتی تھی۔ غرضیکہ دولہا کی تما م خواہشیں ویٹو ہوہو کر ناکام ہوتی رہیں اور تمام کام دولہا کی بجائے اسکے گھر والوں کی مرضی اور منشاءکے مطابق اخراجا ت میں بے جا بڑھوتری والے ہی طے پائے۔

شادی کے لیے شادی کارڈ بھی شادی کا جزو لا نیفک مانا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ شادی کارڈ بھی بہت ایڈوانس شکل اختیا ر کرتے جارہے ہیں۔ پہلے زمانے میں یہ کام علاقائی نائی سر انجام دیتے تھے کہ گھر گھر کنڈا بجا کر زبانی سب جگہ دعوت کا سنیحہ پہنچا آتے تھے مگر اب یہ دعوت بذریعہ کارڈ بنفس نفیس دولہا بیچارے کو ڈاکیے یا کوریئر والے کی طرح گھر گھر پہنچا کر انکی POD یعنی (Proof Of Delivery) بھی لینا پڑتا ہے ۔ کچھ خاندانوں میں تو یہ شرط ہوتی ہے دولہا خود کارڈ لائے گا تو شادی اٹینڈ ہوگی ورنہ نہیں۔ پہلے پہل شادی کارڈ ایک کاغذ کے گتے پر مشتمل ہوتا تھا اب لفافہ کھولو تو اندر سے آدھا درجن چھوٹے بڑے کارڈ بر آمد ہوتے ہیں، جن میں مایوں ابٹن ، مہندی، برات، رخصتی، نکاح، ولیمہ یا کوئی گانے بجانے کا پروگرام وغیرہ کے الگ الگ کارڈ شامل ہوتے ہیں جو کہ ایکسپا ئر ہونے کے بعد سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ میں چولہا جلانے یا بچوں کے کھیلنے کے کام آتے ہیں، کہ کم از کم چھوٹے منے کا دودھ تو گرم ہو ہی جاتا ہے۔ان کارڈز کی ایک اور خاص بات یہ کہ ہر کارڈ پر درجن بھر نام ضرور لکھے جاتے ہیں۔ جیسے پور ا محلہ اور پورا خاندان ہی اس شادی میں چشمِ براہ یا متمنئی شرکت ہو۔ حالانکہ شادی کے چند روز بعد کوئی بھی دولہا کا واقف کار نہیں بنتا۔حتیٰ کہ اگر دولہا کہیں مصروف ہو اور گدھا گاڑی والا سامان ڈھونے کا کرایہ مانگ لے وہ بھی نہیں دیتے اور دولہا کا انتظار کر نے کوکہہ دیتے ہیں۔کچھ لوگ تو مہندی ابٹن کے کارڈ پرتو نیولی بورن بے بی تک کا نام لکھواد یتے ہیں۔آخر میں ایک جملہ ضرور لکھا ہوتا ہے کہ وقت کی پابندی عظیم لوگوں کا شیوہ ہے، جب کہ بارات خود ہی چار گھنٹے لیٹ آرہی ہوتی ہے۔ اس کارڈ کی چوائس، چھپائی، تحریر کی پروف ریڈنگ اور کارڈ کی پورے شہر ، محلے اور ملک میں ڈسٹری بیوشن میں ہی بیچارہ دولہا اکثر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ کچھ کارڈ تو اتنے وزنی ہوتے ہیں کہ آپ چاہیں تو انسے کسی کا سر پھاڑ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شادی سے پہلے اس دولہا بیچارے کو ابٹن اور مہندی جیسی فضول سی رسومات سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ دولہے بیچارے کی کوشش ہوتی ہے کی یہ بیل ایک ہی دن منڈھے چڑھ جائے یعنی ابٹن اور مہندی ایک ہی روز گھر پر کر لیا جائے تاکہ خرچہ بچ جائے ۔ مگر ہمشیرگان کی میٹنگ میں طے یہ پاتا ہے کہ الگ الگ فنکشن الگ الگ ہوٹل یا کسی اچھے سے ہال میں ہونگے۔ پھر دولہے نے خرچہ بچانے کے لیے ایک اور ٹرائی ماری کہ مہمان اپنے اپنے گھر سے کھانا وغیرہ کھا کر آئیں اور فنکشن پر صرف چائے پانی ہوجائے، مگر خواتین کہاں ماننے والی تھیں۔ آرڈر یہ جاری ہوئے کہ بغیر کھانا کھلائے کوئی مہمان نہیں جائیگا ۔ خرچہ کریں گے تو چرچہ ہوگا نا۔ یہ کوئی زمانہ قدیم کی شادی نہیں بلکہ کمپوٹر ایج کی میرج ہورہی ہے۔ لہذا دونوں فنکشنوں میں دولہا بیچارے کی جیب کی خوب درگت بنتی ہے۔

تو جناب! ابٹن والے روز گھر کی ہر چیز پیلی اور مہندی والے روز گھر کی ہر چیز سبز سبز نظر آ رہی تھی۔ حتیٰ کہ گھر کا پالتو مٹھو یعنی طوطا جو کہ قدرتی طور پر سبز ہے اسے بھی ابٹن کے روز یرقان کر دیا گیا تھا ۔ کسی لڑکی یا لڑکے نے کرنا کرانا کچھ تھا یا نہ تھا، پر سوٹ موقع کی مناسبت پورا مٹکایا ہوا تھا اور خواتین کے تو کیا کہنے کہ سر تا پاﺅں ہر چیز ہی میچنگ تھی۔ حتیٰ کہ گود والے بچے کے کپڑے اور گلے میں لٹکانے والا بِب اورپیمپر بھی موقع کی مناسبت سے میچ کر کے پہنائے گئے تھے۔

ابٹن والے دن تو ہر بندہ یرقان کا مریض لگ رہا تھا اور مہندی والے روز تما م لوگ کسی مزار کے مجاور دکھائی دے رہے تھے۔ ابٹن والے روز اس بیچارے دولہا کو پور ے کا پورا ابٹن میں لبیڑ دیا گیااور مہندی والے روز بھی مہندی لگانے میں ہر کوئی ایسے پیش پیش تھا کہ مبادا کوئی فرض نہ چھوٹ جائے۔ سر پر، ماتھے پر، گالوں پر، ہاتھ پر، بازو پر، ٹانگوں پر غرض جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھاکہ جومہندی کلر ہونے سے رہ گیا ہو۔ ان کلرز کو اتارنے کے لیے اس بیچارے کو کپڑے دھونے والے صابن کی دو چکیاں رگڑنی پڑیں تب جاکر کچھ کام تمام ہوا۔جاتے جاتے کئی ٹائم کے پابند مہمان بیچارے دولہے کہ گلے پڑگئے کہ فنکشن بہت لیٹ شروع کیا، کھانا ٹھیک نہیں تھا، بہت لیٹ کر کے دیا گیا، ٹھنڈا ہو گیا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ ہونے والا دولہا بیچارہ سر ڈھا کر سنتا رہا اور کڑھتا رہا۔

شادی پر لڑکی یعنی دلہن کے کے کپڑے لتے تو بنتے ہی ہیں مگر ساتھ میں لڑکے یعنی دولہا کے کپڑوں کی بھی آجکل روزانہ نت نئی ورائٹی مارکیٹ میں آرہی ہے بلکہ اس کے باقاعدہ بوتیک کھل گئے ہیں۔ یوں بیچارے دولہا ٹو بی کا کپڑوں کے معاملے پر اکثر ماں اور بہنوں سے اختلاف ہو جاتا ہے۔ بہنوں کی ضد ہوتی ہے کہ بھائی شادی والے دن شیروانی اور راجھستانی کلاہ پہنے ، اماں کہیں گی شلوار قمیض پر پگڑی باندھ، ابا کہیں گے کرتا پاجامہ اور پرانے زمانے کا چکوں والا سہرا باندھ کہ کوئی دولہا کو بغیر اجازت نہ دیکھ لے۔ دولہا چاہے گا کہ آجکل کے فیشن کے مطابق پینٹ کوٹ اورگلے میں بس ایک مالا ہو۔ مگر یہاں بھی جیت بہنوں کی ہوتی ہے اور یہ بے چارہ بے زبان جانور کی طرح تھک ہار کر انہی کے ڈیزائن کردہ ملبوسات پر گزارہ کر کے ٹائم پاس کرتا ہے۔ ارے ہاں شہ بالا کے بارے میں تو لکھنا بھول ہی گئے کہ یہ بھی تو اس سین کا لازمی حصہ ہوتا ہے اور یہاں بھی اگر بہنیں یا بھائی شادی شدہ ہوں تو سب سے چھو ٹے والے سمپل کو اس سین کا حصہ بنا کر دولہا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔دولہا بیچارے کو اپنے ساتھ ساتھ اس بچونگڑے کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے کیونکہ اس بیچارے کا قدسے بڑا سہرا اکثر اسکے پاﺅں لاگت ہو رہا ہوتا ہے ۔ لیں جناب دولہا اور شہ بالا صاحب تیار ہوگئے۔ اور ہاں دلہن کی اس تیاری میں بہنوں ، بھائیوں، بھانجے بھانجیوں، بھتیجا، بھتیجوں (اگر ہوں) تو ان کے من چاہے ہزاروں روپوں کے کپڑوں ، جوتوں، جیولری اور میک اپ وغیرہ وغیرہ کے اخراجات بھی بذمہ دولہا To be ہوتے ہیں۔

مختلف علاقوں میں دولہا کو تیار کرنے، سہرا باندھنے، سرمہ لگانے، مالش کرنے، شیو کرانے وغیرہ کے مختلف رسم و رواج ہیں۔ عام طور پر سب سے پہلے اس مرحلے پر نائی پہلے دولہا کا منہ چھیلتا ہے پھر اسکی جیب چھیلتا ہے ۔یعنی فیشل میشل۔اسکے بعد دولہے بیچارے کو لال ڈوپٹے (یعنی شروعات ہی خطرناک رنگ سے ہوتی ہے) کے نیچے سے گھما کر گھر کے سٹیج تک لایا جاتا ہے۔ پھر اس بیچارے نا ہنجار کو پگ پہنانے کا رولا پڑتا ہے کہ کہ کون پہنائے، بڑی بہن، بڑا بھائی، بڑا داماد، بڑے ابا، بڑی اماں وغیرہ وغیرہ۔ عموما یہ فرض گھر کے بڑے بزرگ یا بڑے داماد سر انجام دیتے ہیں۔ اس رسم سے فراغت کے بعد ایک رسم سرمہ ڈلائی کی بھی ہوتی ہے اسکے لیے بھی بڑی بھابی ، چھوٹی بھابی، خاندان کی بھابی، محلے کی بھابی وغیرہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے دولہا بیچارے کی آنکھیں بھیڑ کی طرح کالی کرائی جاتی ہیں۔ یہ نام نہاد بھابی ایک آنکھ میں سرمہ ڈال کر دوسری آنکھ میں سرمہ اسوقت تک نہیں ڈالتی کہ جب تک اسکی جیب گرم نہ ہو۔ اسکے بعداگلے مرحلے میں گھر کے دروازے سے نکلتے وقت بہنیں سانپ بن کر بازو چڑھا کر بوے پر کھلو جاتی ہیں کہ پہلے ساڈی وی جیب گرم کرو تو آگے جان دیا نگے۔یوں بیچارہ دولہا جس نے شاید پولیس والوں کو بھی کبھی اتنا لینا دینا نہ کیا ہو گا، جتنا اپنے گھر والوںسے لٹتا پٹتا گھر سے باہر نکلنے کو ہوتا ہے تو ساتھ تاکید باندھ دی جاتی ہے کہ اب گھر میں دلہن لیکر ہی داخل ہو نا ہے، اکیلے ہرگز نہیں۔ بعض دفعہ تو اگر بارات دور پرے کے کسی شہر جانی ہوتو دولہا بیچارے کو سہرا بندی کے بعد گھنٹوں ہمسایوں کے ہاں گزار نے پڑ جاتے ہیں کہ کچھ تو اپنے گھر والے اکیلے دکیلے دولہے کے واقف بننے سے انکاری ہو جاتے ہیں ، کچھ باراتی حضرات تشریف نہیں لائے ہوتے ، کبھی یوں ہوتا ہے کہ کچھ بیگمات پارلر سے بھیس بدلوا کر نہیں پہنچی ہوتیں یا پھر بسوں اور کاروں کا انتظام بروقت نہیں ہوپارہا ہوتا۔

خیر جناب! دولہا صاحب ہوئے تیار، اب ان بیچارے کو کچھ علاقوں کے رسم و رواج کے مطابق نوافل ادا کرنے مسجد بھی جانا ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ کام د ولہا کو گھوڑے پر لاد کر کرایا جاتا تھا کہ دولہا نماز یعنی نوافل ادا کرنے مسجد تک گھوڑے پر جاتا تھا (کہ کہیں لَت وچ پیڑ نہ ہوجائے) ، مگر اب یہ رواج متروک سا ہوتا جا رہا ہے۔ اس دولہا بیچارے نے پورا سال بھی شاید محلے کی مسجد میں نماز نہ پڑھی ہو ، پر سہرا باندھنے کے بعد مصیبت کو گھر میں لانے سے پہلے اس روز اسے ضرور مسجد اور اللہ یاد آتاہے۔ پہلے زمانے میں تو شہر سے شہر کی بارات گھوڑے پر ہی جاتی تھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ گھوڑا بینڈ باجے کی زور دار آواز سن کر بد ک جاتا تھا اور دولہا بیچارہ سڑک پر چاروں شانے چت پڑا ہوتا تھا۔ یا پھر گھوڑا غصے میں ہاتھی کی سونڈ کی طرح اپنی دم دولہا کے گلے میں پھسا کر اسے ایسا دھوبی پٹڑا مارتا تھا کہ دولہا بیچارے کو دن میں تارے اور چاند نظر آنے لگتے تھے اور ساتھ میں معصوم شہہ بالا بھی ر گڑا جاتا تھا۔ اسکے بعد کیا کچھ ہو تا ہے، بقیہ پارٹ ٹو میں ملیگا۔ انتظار کیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 235122 views self motivated, self made persons.. View More