”مزا نہیں آیا“ یہ وہ پہلا رد
عمل ہے جو لوگوں نے وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کا فیصلہ سننے
کے بعد دیا۔ کچھ لوگ تو اس بھی زیادہ جذباتی ہوگئے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ
کے 7 رکنی بنچ نے این آر او فیصلے پر عمل در آمد نہ کرنے پر توہین عدالت کا
مرتکب ٹھہرا کر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سماعت ختم ہونے تک
”اسٹینڈ اپ“ کی سزا دی، جو 30 سے 32 سیکنڈ رہی۔ لوگوں کو ”سزا“ دینے پر بھی
غصہ ہے، مگر سندھ اور ملتان میں ہونے والے ”درجنی“ مظاہروں کو دیکھ کر لگتا
ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کے برعکس عوام کی اکثریت وزیر
اعظم کو کم سزا دینے پر نارض ہے۔ ان کی خواہش تھی عدالت گیلانی کو ”ٹانگا
ٹولی“ کراکے لمبی مدت کے لیے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتی۔ یہ سزا کا معاملہ
ہے کیا؟ پہلے اس پر تھوڑی سی بات کرتے ہیں۔
نواز شریف دور میں کرپشن کے ذریعے حاصل کیے گئے 8 کروڑ ڈالر سوئٹزر لینڈ کے
بینکوں میں چھپا کر رکھنے پر آصف زرداری کے خلاف مقدمہ بنایا گیا تھا،
پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے سیاسی سمجھوتا کرکے این آر او کے نام سے ایک
قانون متعارف کرایا، جس کے ذریعے 8 ہزار کے قریب لوگوں کے مقدمات کو ختم
کردیا گیا۔ ان میں قتل، اغواءاور ڈکیتیوں میں ملوث سیاسی جماعتوں کے
کارکنان بھی شامل تھے۔ چوں کہ اس قانون کا بنیادی مقصد بے نظیر بھٹو اور ان
کے خاندان کو فائدہ پہنچانا تھا، اس لیے خود بے نظیر، ان کے شوہر آصف
زرداری اور والدہ نصرت بھٹو کے خلاف بھی مقدمات ختم کردیے گئے۔ ان میں سوئس
اکاﺅنٹوں کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد مشرف حکومت کے
اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم نے سوئس حکام کو زرداری کے خلاف مقدمہ بند کرنے
کے لیے خط لکھا۔
پرویز مشرف کے در بدر ہوتے ہی این آر او کا معاملہ بھی زندہ ہوگیا، سپریم
کورٹ نے خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے پاس بھیج
دیا تاکہ اس کی قانونی پوزیشن واضح ہوسکے۔ پارلیمنٹ نے طویل بحث ومباحثے کے
بعد پرویز مشرف کے بعض اقدامات کی تو توثیق کردی لیکن این آر او کو قانونی
تحفظ نہیں دیا، جس پر عدالت نے بھی اس قانون کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
یوں این آر او کے تحت ختم کیے گئے تمام مقدمات بحال ہوگئے۔ نیب اور دیگر
متعلقہ اداروں نے دوبارہ کیس چلانا شروع کردیے، مگر آصف زرداری کے خلاف
سوئس کیس بدستور بند رہا۔ چوں کہ اس مقدمے کو کھولنے کے لیے سوئس حکام کو
خط لکھنا ضروری تھا، اس لیے عدالت خط لکھنے کے لیے ایک کے بعد دوسرا حکم
دیتی رہی، جبکہ جواب میں حکومت ٹال مٹول اور بہانے بازیاں کرتی رہی، آخر
عدالت نے تنگ آکر وزیر اعظم پر توہین عدالت کا مقدمہ چلایا اور حکم عدولی
پر انہیں سزا سنادی۔
این آر او عمل در آمد کے مقدمے کے پس منظر پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ
عدلیہ نے چار برس تک بے مثال صبر اور حکومت نے بے شرمی کی حد تک ڈھٹائی کا
مظاہرہ کیا۔ بات صرف این آر او تک محدود نہیں، عدالت نے جو بھی ایسا فیصلہ
دیا جس کا تعلق کرپشن کی روک تھام یا گڈ گورننس سے تھا، حکومت نے اس کی راہ
میں رکاوٹ ڈالنا اپنا فرض سمجھا۔ لوٹ مار کے کسی بھی معاملے کو اٹھائیں تو
اس کا ”کھرا“ وزیر اعظم ہاﺅس یا وزراء تک جا پہنچتا ہے، اگر عدالت اس کا
نوٹس لے لے تو حکمران طبقہ ”قبروں کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے“ جیسے نعرے
مارنا شروع کردیتا ہے، گویا حکومت سمجھتی ہے کہ عدالت صرف عوام کے خلاف
مقدمات چلائے، حکمران خاندانوں سے ”چھیڑ چھاڑ“ نہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں یوں
کہا جاسکتا ہے کہ اس حکومت میں صرف صدر ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم مع اہل
وعیال، وزراءاور ان کے دوستوں تک کو استثناءحاصل ہے۔ ذرا اس بات پر توجہ
دیں کہ عدالت کے اتنے فعال کردار کے باوجود حکمران کرپشن سے باز نہیں آرہے،
اگر عدلیہ چپ سادھ لیتی تو شاید یہ لوگ ابھی تک ملک کو ہی بیچ ڈالتے۔
اس وقت حکومت کی مثال خودکش بمبار کی سی بن گئی ہے۔ یہ کسی سے بھی ٹکرا کر
جان دینا چاہتی ہے۔ اس نے فوج کے ہاتھوں ”شہید“ بننے کی کوشش کی، وزیر اعظم
نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر آئین کی
پامالی تک کے الزمات لگا دےے لیکن فوج حکومت کی چال میں نہیں آئی۔ اب حکومت
مسلسل عدلیہ کے پیچھے لگی ہوئی ہے کہ شاید وہی اسے سیاسی شہادت کے رتبے پر
فائز کردے لیکن عدلیہ بھی اسے ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کررہی۔ اسی تناظر
میں ابھی تک کے تمام عدالتی فیصلوں میں تدبر واضح طورپر نظر آتا ہے کہ اس
کے کسی بھی فیصلے سے بحران نے جنم نہیں لیا۔
تازہ فیصلہ ہمارے سامنے ہے، حکومت کا خیال تھا توہین عدالت کے مقدمے میں
وزیر اعظم کو چھ ماہ تک کی سزا ہوگی تو وہ ہیرو بن جائیں گے، پورے ملک میں
ان کے حق میں جلسے جلوس نکلیں گے، جیل کے باہر اظہار یکجہتی کے مظاہرے ہوں
گے، گورنروں، وزرائے اعلیٰ، وزرائ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی
ملاقاتوں کے لیے قطاریں بنی ہوں گی، ہر طرف مظلومیت کے چرچے ہوں گے، سلاخوں
کے پیچھے بیٹھے وزیر اعظم کی تصاویر دکھا دکھا کر رویا پیٹا جاتا اور یوں
عوام حکمرانوں کی ڈرامے بازی میں آکر لوٹ مار کی کہانیاں بھول جاتے لیکن
سات ججوں نے حکمرانوں کے سارے خواب چکنا چور کردیے۔ عدالت نے وزیر اعظم پر
مقدمہ بھی چلایا، انہیں سزا بھی دی اور کھڑے کھڑے سزا پوری بھی کرادی۔ جب
گیلانی عدالت میں آئے تو وہ وزیر اعظم تھے، باہر نکلے تو سزا یافتہ مجرم بن
چکے تھے۔ اب آپ بتائیے عدالت اس سے زیادہ کیا کرسکتی تھی؟ اگر عدالت لمبی
سزا دے دیتی اور صدر زرداری وزیر اعظم گیلانی کی سزا معاف کردیتے، جو ان کا
اختیار ہے، تو کیا اس سے عدالت کا مزید مذاق نہ بنتا؟
جب ہم عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ
پاکستان میں آزاد عدلیہ کی عمر محض پانچ برس ہے، اسے مضبوط اور توانا ہونے
میں ابھی وقت لگے گا، عدلیہ شدید ترین دباﺅ کے باوجود جو کردار ادا کررہی
ہے، اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست دانوں اور عوام نے
عدلیہ سے وہ امیدیں بھی وابستہ کرلی ہیں، جو اس کے دائرہ اختیار میں ہی
نہیں ہیں، اسے بہر حال خواہشات کی بجائے آئین وقانون پر چلنا ہوتا ہے، آخری
بات یہ کہ عوام اور سیاست دان خود کچھ کرنے کی بجائے سب کچھ عدلیہ سے کرانا
چاہتے ہیں، میرے خیال میں ایسی سوچ نامناسب تو ہے ہی ، عدلیہ کے لیے اس پر
پورا اترنا بھی ناممکن ہے۔ |