گزشتہ ہفتے افغان دارالحکومت
کابل سمیت تین دیگر صوبوں ننگر ہار ، لوگر اور پکتیامیں ہونے والی جہادی
وفدائی کارروائیوں کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور جواستعماری طاقتیں
اور ان کے ابلاغی وسائل صبح وشام یہ پروپیگنڈہ کرنے پر پورا زور صرف کرتے
ہیں کہ افغانستان میں طالبان اور مجاہدین کی قوت و طاقت کمزور کردی گئی ہے
اور وہاں ان میں مزاحمت کی سکت ختم ہوچکی ہے اور اب وہ مذاکرات کی میز پر
امریکہ کے سامنے جھک چکے ہیں مگر حالیہ حیرت انگیزاور ناقابل تردید مثالی
جہادی وفدائی حملوں نے ان تمام فریبوں کی قلعی کھول دی ہے اور امریکہ ونیٹو
کی جھوٹی طاقت کے منہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا ہے جسے سہلاتے ہوئے بھی
امریکیوں کی تکلیف دوچند ہوجاتی ہے۔سبحان اللہ! پاک ہے وہ ذات جس نے
کمزور،نہتے اور غریب الدیار اپنے محبوب مجاہدین اسلام کو فتح و نصرت کی یہ
خوشیاں نصیب کیں اور دشمن کی تباہی وبربادی دکھا کر زخمی دل مسلمانوں کے
سینوں کوٹھنڈک اور دلوں کو سرور وراحت نصیب فرمائی۔
ابھی چند ہفتے قبل کے وہ دلدوز اور روح فرسا مناظر کس مسلمان کو بھولے ہوں
گے جب ناپاک امریکیوں کے ہاتھوں کے قرآن مقدس کے نورانی اوراق سے آگ شعلے
بھڑکائے جارہے تھے اور امریکی غلیظ ہاتھ ان پاکیزہ اوراق کو ناپاکی کے ڈھیر
پر پھینک رہے تھے اور اپنی ان ناپاک حرکتوں سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے
ایمانی جذبات اور دینی غیرت کو للکار رہے تھے اس موقع پر بلامبالغہ لاکھوں
مسلمان تڑپے، گرم آہوں اور ٹپ ٹپ گرتے آنسووں سے کئی گمنام مصلے تر ہوئے
اور رات کی تاریکیوں میں کئی معصوم ہاتھ ان امریکیوں سے بدلہ لینے کیلئے رب
دوجہاں کی بارگارہ میں اٹھے رہے اور مسلمانوں کا یہ درد اور ان کی یہ آہیں
رب کے ہاں قبول ہوئیں اور فدائیان اسلام کی ایمان افروز قربانیوں نے پوری
امت کو وہ دن دکھادیئے جب ان ظالموں پر آگ وبارود کی بارش برس رہی تھی گویا
قرآن کو لگائی جانیوالی آگ ان کافروں بدبختوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی
جہنم رسید کررہی تھی اور پوری دنیا کاکفر اپنی اس ذلت کاچھپانے کی خواہش کے
باوجود ناکام ونامراد بنا ہوا تھا۔اور امارت اسلامیہ افغانستان نے
امیرالمومنین ملامحمد عمرمجاہد حفظہ اللہ کی طرف سے امریکیوں سے سخت انتقام
کاجو اعلامیہ جاری کیا تھا اس کی صداقت کھلی آنکھوں سب نے دیکھ لی۔لیجیے!
آپ بھی اس اعلامیے کے پانچ نکات ملاحظہ فرمالیں:
1: صلیبی کافروں کے ہاتھوں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین اوراس کو نذرآتش
کرنا، ان کا باربار دہرایا جانے والا شعوری اور قصداً فعل ہے،تو چاہیے کہ
اپنی مقدس کتاب کی خاطر صرف مظاہروں اور خالی نعروں پر اکتفا نہ کیا
جائے،بلکہ ان کے ساتھ ساتھ قابضین کے فوجی مراکز، ان کے فوجی قافلوں کو بھی
اپنے حملوں کا ہدف بنایا جائے،انہیں قتل کرو،مارو اور قیدی بناؤ اور انہیں
ایسا درس دو کہ وہ پھر کبھی قرآن کریم کی توہین کی جرات نہ کرسکیں-
2:ا مریکی حکام چاہتے ہیں کہ اس وحشیانہ عمل کے خلاف بھڑکے ہوئے مسلمانوں
کے جذبات کونمائشی معافی کے ذریعے ٹھنڈا کریں اور عملاً اپنے وحشی فوجیوں
کے ہاتھوں اس طرح کے وحشیانہ کاموں کو جاری رکھ سکیں،افغان مسلمانوں کو ان
کی اس ظاہری معافی سے دھوکہ نہیں ہونا چاہیے اوراس وقت تک اپنے انتقامی
اقدامات کو جاری رکھنا چاہیے، جب تک اس وحشیانہ عمل کے مرتکبین کو ان کے
جرائم کی سزا اپنے ہاتھوں سے نہ دیں۔
3: چونکہ شرعی حکم کی رو سے ہر مسلمان کی جان ومال کی حفاظت ہر مسلمان کی
ذمہ داری اور اسے نقصان پہنچانا حرام ہے تو چاہیے کہ مظاہرین کے انتقام کا
ہدف صرف اور صرف قابض امریکی، ان کے مراکز اور اَملاک ہونے چاہیے ، عوام کے
اَملاک کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے۔
4: قابض امریکیوں کے وہ بے ننگ وناموس حامی جو بے غیرتی کی وجہ سے کافروں
کے اس ناقابل معافی جرم پر چشم پوشی کررہے ہیں اور ان کے دفاع کی خاطر
مظاہرین کو روک رہے ہیں،چاہیے کہ امریکیوں سے پہلے ان کو اپنے اعمال کی سزا
دی جائے۔
5:چونکہ قرآن کریم تمام دنیا کے مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے اور اسی پر سب
کاایمان ہے،اس لئے امارت اسلامیہ دنیا کے تمام مسلمانوں،ان کی
حکومتوں،عوام،حرمین شریفین کے مذہبی اہلکاروں،دارالعلوم دیوبند اور جامعہ
ازہر کے علمی مرکز سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنی اسلامی ذمہ داری اور غیرت کی
رو سے قابض امریکیوں کے اس اقدام کے خلاف جو وہ ہماری اور آپ کی مشترک کتاب
کی بے حرمتی کی صورت میں کررہے ہیں، اس پر مشترکہ اور متفقہ موقف کو اپنا
لو،ان کے اس ناقابل معافی جرم کی عملاً اور قولاًمذمت کرو اور افغان
مسلمانوں کی برحق مزاحمت کی تائید کرو۔
یہ اعلامیہ جس قدر واضح، دوٹوک اور شرعی حکمتوں اور دینی غیرت کی درست
نمائندگی کر رہا ہے اس پر مزید کسی تبصرے یا تشریح کی ضرورت نہیں ہے اور اس
سے ان طالبان کی سلامتی فکر اور دینی رسوخ کا بخوبی اندازہ ہورہا ہے جسے
عام طور سے ناقدین نظر انداز کرتے اور ان کی طرف کم فہمی یا حکمت ومصلحت کے
فقدان کو منسوب کرتے ہیں۔
اس موقع پر ایک سوال یہ بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان قیادت اور امریکہ
کے مابین مذاکرات کی جو خبریں گرم رہتی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور نیز
یہ بھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان مکمل امریکی انخلا کے مطالبے پر ہی قائم
ہے یا اس سے کم عارضی قیام اور بعض مستقل اڈوں کے قیام کی اجازت دے دی گی؟
خاص طور سے ’’قطرمذاکرات‘‘ کا اصل پس منظر کیا ہے اور آیا اس میں کچھ حقیقت
ہے بھی یا نہیں؟تو اس حوالے سے طالبان کا جاری کردہ موقف جو ذرائع ابلاغ
میں شائع ہوا ہے اس کی تفصیل یوں ہے:’’کچھ عرصہ قبل1433ھ کی ماہِ صفرالمظفر
کی 8 تاریخ بمطابق3 جنوری 2012ئ کوامارتِ اسلامیہ افغانستان نے آفیشلی طور
پر قطر میں عالمی برادری کیساتھ افہام وتفہیم اور قابض امریکیوں کے ساتھ
بعض متعین موضوعات کو واضح کرنیکی غرض سے حکومت ِقطر کے ساتھ سیاسی دفتر
کھولنے پر رضامندی ظاہر کی۔مذکورہ سیاسی دفتر کھولنے کا مقصد یہ تھا کہ
امارتِ اسلامیہ، عالمی برادری کے ساتھ آزادانہ طور پر اور بے خطر اپنے
رابطے مضبوط کرے،اورساتھ ساتھ قابض فریق کے سامنے بیٹھ کر اسے اس بات سے
آگاہ کرے، کہ ہم مزاحمت چھوڑنے والے نہیں اور تمہیں اُس وقت تک چین سے نہیں
بیٹھنے دیں گے،جب تک تم اپنا آخری فوجی ہمارے ملک سے نہ نکال لو اور
افغانوں کو ان کی مرضی کی اسلامی حکومت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔اور قطر
میں سیاسی دفتر کھولنے کا ایک اور مقصد فریقِ مخالف کے اس بہانے کو بھی ختم
کرنا تھا جو وہ بار بار کرتا رہتا تھا کہ ہمیں مجاہدین کاٹھکانہ معلوم
نہیں، ورنہ ہم ان سے رابطہ رکھتے۔ اور اسی بنا پر وہ اپنے آپ کو بری الذمہ
قرار دیتے تھے۔ اسی طرح ہم یہ چاہتے تھے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر تمام فریقوں
کو یہ باور کرایا جائے، کہ ہم مستقبل میں ہرکسی کے ساتھ اُس طرح کا معاملہ
کرنے کے لیے تیار ہیں جو دو آزاد ممالک کے مابین ہوتاہے، جس میں ہر فریق
اپنے قوانین کی رعایت رکھتا ہے، اور ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ عالمی برادری
کے ذہنوں سے ان باتوں کو بھی دور کیا جائے، جو ہمارے دشمن نے ہمارے خلاف
پھیلائی ہیں، اور ہماری تصویر دنیا کے سامنے ایسی رکھی ہے،گویا امارتِ
اسلامی عسکری طاقت کے علاوہ سیاسی، ادارہ جاتی اور معاشرتی میدانوں میں
منصوبہ بندی نہیں رکھتی اور اسلامی امارت دیگر ممالک کونقصان پہنچاتی ہے،
حالانکہ امارت اسلامیہ ان شعبوں میں انتہائی واضح پالیسی اور طویل المیعاد
منصوبے رکھتی ہے۔
اسی سلسلے میں امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں نے قابض دشمن کے ساتھ
قطرمیں اُس سیاسی دفتر کو کھولنے پر اتفاق کیا جس پر اسلامی امارت اور
قطرکی حکومت کے مابین پہلے سے اتفاق رائے ہوچکا تھا، اور اس میں قیدیوں کے
تبادلے پر ابتدائی بات چیت شروع ہوئی، اس بابت امریکیوں نے قیدیوں کے
تبادلے کو عملی جامہ پہنانے اور ہمارے سیاسی دفتر کی مخالفت نہ کرنے پربھی
موافقت کی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکیوں نے اپنے وعدوں کی پاسداری
نہیں کی اور اس دوران ایسا بے بنیاد پروپیگنڈا بھی شروع کیا کہ امارت
اسلامیہ کے نمائندوں نے ان کے ساتھ افغانستان کے مسئلے کے ہمہ جہت پہلوؤں
پر مذاکرات شروع کیے ہیں، اور اسی کے ساتھ حامد کرزئی نے جوامریکیوں کی
اجازت کے بغیر ایک بات بھی نہیں کرسکتے، بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کیا کہ
کابل انتظامیہ اور امریکیوں نے طالبان کے ساتھ مشترکہ طورپر مذکرات شروع
کیے ہیں، حالانکہ امارت ِاسلامیہ نے مندرجہ بالا دو باتوں﴿دفتر کا کھولنا
اور قیدیوں کا تبادلہ﴾ کے علاوہ دیگر موضوعات پر کسی قسم کے مذاکرات نہیں
کیے ہیں، نہ ہی کسی کی کوئی شرائط مانی گئی ہیں، اور نہ ہی کرزئی انتظامیہ
کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مذکورہ بالانکات پر امریکیوں کی
جانب سے ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا تھا کہ امریکی نمائندوں کی جانب سے
دوسری ملاقات میں امارتِ اسلامیہ کو بعض ایسی شرائط پیش کی گئیں، جن پر نہ
صرف یہ کہ اس سے قبل اتفاق رائے نہیں ہوا تھا، بلکہ پہلے ہونے والی مفاہمت
کے بھی خلاف تھا، اسی وجہ سے امریکیوں کے اس بدلتے اور متزلزل مؤقف کو نظر
میں رکھتے ہوئے اسلامی امارت امریکا کے ساتھ بات چیت ختم کرنے پر مجبور
ہوئی۔ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بات چیت میں رکاوٹ کا اصل سبب امریکا کا
متزلزل، بدلتا اور غیر واضح مؤقف ہے، اس لیے بات چیت رکنے کی ذمہ داری بھی
امریکیوں پر عائد ہوتی ہے۔اس مقصد کے لیے کہ اپنے مسلمان عوام اور قابض
دشمن سمیت تمام دنیا کے سامنے امارت اسلامیہ کا مؤقف واضح ہو، امارت
اسلامیہ نے قطر میں سیاسی دفتر کھولنے کو صرف اور صرف عالمی برادری کے ساتھ
افہام وتفہیم اور اس میں پہلی فرصت کے طور پر امریکیوں کے ساتھ قیدیوں کے
تبادلے پر بات چیت کرنی تھی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قابض امریکی اور
ان کے کٹھ پتلی اسلامی امارت کے اس اقدام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے ساتھ
ساتھ دیگر اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر
اس مسئلے کو موخرکرنے کے ساتھ ساتھ وقت ضائع کررہے ہیں۔لہٰذا امارت اسلامیہ
افغانستان نے یہ طے کیا ہے کہ قطر میں امریکی فریق کے ساتھ اپنے جاری
مذاکرات کو اُس وقت تک کے لیے روک دیا جائے، جب تک امریکیوں کی جانب سے ان
متعین موضوعات پر بحث کرنے کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح اور وقت ضائع کرنے
کے بجائے کیے جانے والے وعدوں پر عمل کرنا واضح نہ ہو۔ اسی طرح افغانستان
کے موضوع کے دوپہلو ہیں، ایک بیرونی اور دوسرا داخلی۔ بیرونی پہلو امریکیوں
سے متعلق ہے اورداخلی پہلو افغانوں سے متعلق ہے۔ جب تک بیرونی مسئلہ حل نہ
ہو، اور اس کوحل کرنے کی طاقت غیر ملکیوں کے پاس ہے، داخلی پہلو میں جانا
بے معنیٰ اوروقت کا ضیاع ہے، اسی وجہ سے امارت اسلامیہ کابل انتظامیہ کے
ساتھ بات چیت کو بے سود سمجھتی ہے۔ اور ان تمام امور کے ساتھ ساتھ امارت
اسلامیہ دشمن کے ناپاک منصوبوں کے مقابلے میں بہت عمدہ تیاری، بلند ہمتی،
طویل المیعادجہادی منصوبے اور اپنے مومن عوام کی وسیع حمایت رکھتی ہے۔امارت
اسلامیہ،افغانستان میں امریکی موجودگی کو پورے خطے کے لیے خطرہ سمجھتی ہے
اور ایک لمحے کے لیے بھی نہ تو موجودہ شکل میں اور نہ ہی عارضی یا مستقل
اڈوں کی صورت میں اسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ امارت اسلامیہ ایک بار پھر
پوری دنیاخاص طور پر علاقائی ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ پورے خطے کے استحکام
اورامن کی خاطر قابض افواج کو بھگانے میں امارت اسلامیہ کی حمایت و
تائیدکریں‘‘۔
افغان طالبان کا یہ موقف وہ اصولی موقف ہے جس پر وہ امریکی حملے کے آغاز سے
قائم ہیں اور اس کی معقولیت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے لیکن افسوس کہ افغان
کٹھ پتلی حکومت اور دیگر امریکی اتحادی حکومتیں دشمن اسلام امریکہ سے ہاتھ
ملائے ہوئے ہیں اور عقل وانصاف اوردین ومذہب کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق
رکھ کر اپنے خطے اور عوام کو کفرو نفاق کی آگ میں جھونک رہی ہیں۔ ان حالات
میں کابل کے اصل حکمرانوں ﴿یاد رہے کچھ عرصہ قبل یہ بات ذرائع ابلاغ پر
آچکی ہے کہ کابل میں دن کو نیٹو اور رات کو طالبان کی عملداری ہوتی ہے﴾ کا
پیغام یہی ہے کہ قابض وجارح قوتوں کی بھرپور مزاحمت کی جائے اور انہیں ان
کے مظالم اور مقدسات کی توہین کاایسا بدلہ چکھایا جائے جسے ان کی آنیوالی
نسلیں بھی نہ بھلا سکیں اور یہ قابل فخر کارنامہ وہی سعادت مند افراد انجام
دے سکتے ہیں جو مضبوط ایمان، قوت یقین اور جہادی عزم وہمت سے سرشار ہوں۔ |