عدالت عظمیٰ.......... وزارت عظمیٰ

پنجابی زبان کی ایک مشہورکہاوت ہے'' جوگڑسے مرجائے اسے زہرکیوں دینا''یوسف رضاگیلانی کے معاملے میں بھی عدلیہ نے انہیں زہرنہیں دیا بلکہ گڑسے ماردیا ہے اوریوں ان کاسیاسی شہادت کاخواب چکناچورہوگیا ۔30سیکنڈ کی سزانے یوسف رضاگیلانی کوملزم سے مجرم بنادیااور1973ءکے آئین کی روسے کوئی سزایافتہ مجرم پانچ برس تک کسی سرکاری عہدے کااہل نہیں ہوسکتا۔جہاں تک فیصلے کیخلاف اپیل کاتعلق ہے توان کے پاس اپیل کرنے کاحق ضرور ہے مگرسزاکافیصلہ معطل یاختم ہونے تک یوسف رضاگیلانی وزیراعظم کی حیثیت سے پرفارم نہیں کرسکتے۔سپیکرکے پاس عدلیہ کافیصلہ مستردکرنے کاکوئی اختیار نہیں۔پاکستان کے نناوے فیصد ماہرین آئین نے عدلیہ کے فیصلے کودرست قراردیاہے ۔ اتحادی حکمران عدالتی فیصلے کے حوالے سے اپیل اوردلیل کی بجائے الٹا عدلیہ کی تذلیل پراترآ ئے ہیں ۔اگرفرض کریں عدالت سخت فیصلہ سناتے ہوئے یوسف رضاگیلانی کو30سکینڈ کی بجائے چھ ماہ قید کی سزا سناتی اورانہیںوہیں گرفتارکرکے جیل بجھوادیا جاتا توپھرپیپلزپارٹی والے کیا کرتے ۔ عدلیہ پاکستان کوبحران سے بچانے کی خواہاں ہے مگرپیپلزپارٹی والے براہ راست تصادم پراترآئے ہیں۔

یوسف رضاگیلانی کواپنے ساتھ نرمی برتے جانے پرعدلیہ کا شکرگزار ہوناچاہئے تھا مگر پیپلزپارٹی والے الٹا عدلیہ کی نیک نیتی پرانگلیاں اٹھارہے ہیں ۔ اس سزا کے بعد یوسف رضاگیلانی پارلیمنٹ کے ممبر نہیں رہے تو وزیراعظم کس طرح رہ سکتے ہیں تاہم موصوف نے عدالت عظمیٰ کافیصلہ تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے،عدالتی فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی کی ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں ایک نیا بحران پیداہوگیا اوراس کے بوجھ سے جمہوریت کی عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے ۔ملتان کے ایک مخدوم جاویدہاشمی نے پرویزمشرف کی فوجی آمریت کیخلاف بغاوت کی تھی اورکہاتھا''ہاں میں باغی ہوں'' جبکہ مخدوم یوسف رضاگیلانی وزارت عظمیٰ کامنصب بچانے کیلئے عدالت عظمیٰ کیخلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے اورکہا ہے آزاد عدلیہ کافیصلہ ''میں نہیں مانتا''۔یوسف رضاگیلانی نے اپنے مخصوص اندازمیں کہا ہے کہ کوئی مجھے عہدے سے نہیں ہٹاسکتا۔اس کے ساتھ انہوں نے اپوزیشن کوچیلنج کرتے ہوئے کہاہے کہ اگرکسی میں ہمت ہے تو میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے ۔ایک طرف پیپلزپارٹی نے عدلیہ کافیصلہ تسلیم کرنے سے انکارکردیا اوریوسف رضاگیلانی نے اپوزیشن کی غیرحاضری کے دوران پارلیمنٹ میں خطاب بھی کردیا جبکہ دوسری طرف ملتان سمیت مختلف شہروں میں عدالتی فیصلے کیخلاف احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ شروع ہے۔اگریوسف رضاگیلانی بدستور وزیراعظم ہیں توپھران کے جیالے کس بات پراحتجاج کررہے ہیں۔اگریوسف رضاگیلانی سزاپوری کرنے کے باوجود وزیراعظم ہیں توپھران کی طرف سے کس بات کی اپیل کرنی ہے۔اگریوسف رضاگیلانی وزیراعظم ہیں توعدالت کے فیصلے کونامناسب کیوں کہا جارہا ہے۔اگریوسف رضاگیلانی وزیراعظم ہیں تووفاقی کابینہ نے ان کی سزاکے فوراً بعدان پراظہاراعتمادکیوں کیا ۔اگریوسف رضاگیلانی وزیراعظم ہیں توصوبائی اسمبلیوں سے ان کے حق میں قراردادیں منظورکرنے کی تجویزکیوں زیرغور ہے۔اگریوسف رضاگیلانی وزیراعظم ہیں توفیصلے والے روزوفاقی وزراء نے اپوزیشن کے ڈرسے انہیں پارلیمنٹ میں آنے سے کیوں روک دیاتھا۔وزارت عظمیٰ کامنصب بچانے کیلئے عدالت عظمیٰ کی اتھارٹی کوچیلنج کیا جارہا ہے ۔یوسف رضاگیلانی نے سزاہونے کے فوراً بعد مستعفی ہونے کااعلان کیا تھا مگروہ اپنے اس قول کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔

جہاں پیپلزپارٹی والے عدالتی فیصلے کیخلاف سراپااحتجاج ہیں وہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افرادکی طرف سے عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جارہاہے۔اوورسیز میں بھی مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے فیس بک کی وساطت سے اپنے اپنے اندازمیں فیصلے پرتبصرہ کیا ہے۔جاپان سے مسلم لیگ (ن) اوورسیزکے مرکزی سیکرٹری جنرل اوراین اے86چنیوٹ سے مسلم لیگ (ن) کے نامزدامیدوار شیخ قیصرمحمود کاکہنا ہے کہ یوسف رضاگیلانی کی نااہلی بارے کوئی ابہام نہیں ہے۔اتحادی حکمران وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے اپیل اوردلیل کی بجائے عدلیہ کی تذلیل پراترآ ئے ہیں ،ایسا رویہ ناقابل برداشت ہے۔یوسف رضاگیلانی لاءمیکرنہیں بلکہ لاءبریکرہیں،انہیں جوسزاملی وہ ان کے ماورائے آئین اقدامات کاشاخسانہ ہے۔عدلیہ کی کسی کے ساتھ کوئی عداوت نہیں ،ججوں نے انصاف اورآئین کاپرچم سربلندکردیا ورنہ ہمارے ہاں طاقتور کوسزادینے کارواج نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی اپنی ناکامی اوربدنامی کاانتقام عدلیہ اورجمہوریت سے نہ لے ۔ سکاٹ لینڈ سے مسلم لیگ (قائداعظم ؒ)اوورسیز کے مرکزی سیکرٹری جنرل چودھری اصغرعلی سردارکاکہنا ہے ملک مزیدکسی بحران اورسیاسی عدم استحکام کامتحمل نہیں ہوسکتا۔عدالت کے فیصلے میں یہ قطعاً نہیں کہا گیا کہ یوسف رضاگیلانی اب وزیراعظم نہیں رہے تاہم حالیہ فیصلے کی بنیادپرعدلیہ کے احترام میں کمی نہیں آنی چاہئے اوراپوزیشن بھی اس ایشو پرسیاست کے چیف آرگنائزراوربرطانیہ کے سیکرٹری اطلاعات اقبال سندھوکاکہنا ہے کہ توہین عدالت کے جرم میں سزاپوری کرنے کے بعد یوسف رضاگیلانی کووزیراعظم کہنا یالکھنا غیر آئینی ہے۔ یوسف رضاگیلانی عدلیہ کافیصلہ اورعوام انہیں وزیراعظم نہیں مانتے ۔اب انہیں پانچ برس تک انتظارکرناہوگا،وہ ہٹ دھرمی اور وزیراعظم ہاﺅس چھوڑ دیں ۔ پیپلزپارٹی والے اپنے مطلب اورمفادکیلئے آئین کی غلط تشریح نہ کریں،کوئی ان کااستدلال نہیں مانے گا۔یونان سے مسلم لیگ (ن) کے صدرکاشف عزیزبھٹہ کا کہنا ہے کہ یوسف رضاگیلانی نے اٹھارہ کروڑپاکستانیوں کی ہمت اورحمیت کوللکاراہے ،ا نہیں عہدے سے ہٹانے کیلئے اب کسی تحریک عدم اعتماد کی ضرورت نہیں ہے۔یوسف رضاگیلانی نے وزارت عظمیٰ کے منصب اورجمہوریت کاوقارخاک میں ملادیا۔ یوسف رضاگیلانی کوملک میں کرپشن کوفروغ دینے اوراس کادفاع کرنے کی سزاملی ۔ اگرکسی کے نزدیک توہین عدالت پرملنے والی سزا ایک قیمتی اعزازہے تووہ کسی دماغی ڈاکٹر کے پاس ضرور جائے۔مانچسٹر سے آل پاکستان مسلم لیگ برطانیہ کے مرکزی صدرچودھری محمدالطاف شاہد نے کہا ہے کہ اگرعدالتی فیصلے کے باوجود یوسف رضاگیلانی نے اپناعہدہ نہ چھوڑا تواس بحران کے بوجھ سے جمہوریت کی ناﺅڈوب جانے کاڈر ہے۔ اداروں کے ساتھ تصادم اورآئین سے انحراف پیپلزپارٹی اوراس کے اتحادیوں کومہنگا پڑے گا ۔ یوسف رضاگیلانی کوجوسزاملی وہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ پیپلزپارٹی کے پاس فیصلہ تسلیم کرنے کے سوادوسراکوئی آپشن نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) ،دفاع پاکستان کونسل ،جماعت اسلامی اورتحریک انصاف سمیت متعددسیاسی پارٹیوں نے عدلیہ کافیصلہ تسلیم کرتے ہوئے یوسف رضاگیلانی سے عہدہ چھوڑنے کی ڈیمانڈ کی ہے ۔اپوزیشن کاکہنا ہے کہ وہ سزایافتہ وزیراعظم کوایوان میں نہیں آنے دیں گے جبکہ حکمران جماعت نے للکارا ہے کہ انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔پیپلزپارٹی والے1973ءکامتفقہ آئین بنانے کاکریڈٹ اپنے بانی اورشہیدباباذوالفقارعلی بھٹو کودیتے ہیں مگرخوداس کی پاسداری نہیں کرتے ۔اگرپاکستان میں آئین اورقانون کی حکمرانی ہوتی تو یوسف رضاگیلانی توہین عدالت مقدمے میں فردجرم عائدہونے کے فوراً بعدوزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجاتے اورایک عام شہری کی حیثیت سے عدالت کے روبروپیش ہوتے تاکہ ان کی سرکاری حیثیت مقدمے کی سماعت پراثراندازنہ ہوتی اورجج حضرات سماعت یافیصلہ کرتے وقت کسی قسم کادباﺅمحسوس نہ کرتے،مگرانہوں نے ایسا نہیں کیا ۔

معاملہ چھ کروڑڈالرزسے شروع ہوا تھاجوسنا ہے اس دوران سوئس بنک میں سے کسی اوراکاﺅنٹ میں منتقل کئے جاچکے ہیں ،عدلیہ نے ان چھ کروڑڈالرزکی پاکستان منتقلی کیلئے وزیراعظم کوسوئس حکام کے نام ایک لیٹر لکھنے کاحکم دیا تھا۔شروع شروع میں لیٹر لکھنے میں پس وپیش کی گئی مگربعدمیں دوٹوک انکارکردیا گیا ،وزیراعظم کایہ انکارکھلم کھلاعدالت کی توہین تھی جس پرایکشن لیا جاناضروری تھا۔ پیپلزپارٹی والے خالصتاً توہین عدالت کی اس کاروائی کوسیاسی انتقامی کاروائی قرار نہیں دے سکتے۔پیپلزپارٹی نے چھ کروڑڈالرزبچانے کیلئے اٹھارہ کروڑپاکستانیوں کامستقبل داﺅپرلگادیا۔اگرحکمران جماعت عدلیہ کیخلاف احتجاج کرے گی تواس اہم ادارے کی کارکردگی پرمنفی اثر پڑے گا۔پیپلزپارٹی کاجارحانہ اورغیرذمہ دارانہ رویہ جمہوریت کے مستقبل کیلئے ایک بڑاسوالیہ نشان بن گیا ہے۔پیپلزپارٹی کے سیاسی اتحادیوں کیلئے بھی فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ،انہیں اپنے اتحاد،اقتداراورپاکستان میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناہوگا۔کوئی باضمیراورباشعورانسان کسی دوسرے کے گناہوں کابوجھ اپنے کندھوں پرنہیں اٹھاتا۔اس فیصلے سے پہلے پیپلزپارٹی کے سات ارکان پارلیمنٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں نوازشریف کے ساتھ ملاقات کی ، اب اس بات کاغالب امکان ہے میاں نوازشریف کے ساتھ ملاقات کرنیوالے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی تعدادبڑھ جائے ۔ہوسکتا ہے یوسف رضاگیلانی کوصدرکے ساتھ وفاکرنے کے بدلے آئندہ پانچ برس کیلئے وزیراعظم بنانے کی ضمانت دی گئی ہومگر عدالت نے انہیں اگلے پانچ سال کیلئے نااہل قراردے دیا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.