محترم قارئین کرام السَّلامُ
علیکم
آپ میں سے اکثر احباب جانتے ہیں کہ میں کافی عرصہ سے عارضہِ جگر میں مُبتلا
تھا قریبا ًیہ مرض اتنا ہی پُرانا ہے جتنا تعلق میرا ہماری ویب کیساتھ رہا
ہے۔ ابتدا میں علاج کی خاطر ایک دوست مجھے ہومیو پیتھک ڈاکٹر صاحب کے پاس
لیکر گئے میرے مرض کی تشخیص بھی اُنہی ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی بدولت ہی ممکن
ہُوئی تھی ورنہ ایلو پیتھک ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ مجھے معدہ میں پرابلم ہے
جسکی وجہ سے اُبکائیاں آرہی ہیں جبکہ ہوپیتھک ڈاکٹر صاحب نے میری علامات
سُن کر ہی فرمادِیا تھا کہ میرا جگر متاثر ہو گیا ہے اور اُنکے کہنے پر جب
خُون کے ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہُوا کہ ہیپاٹائٹس سی اپنی جڑیں میرے جگر میں
پیوست کر چُکا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس جب میں اپنی رپوٹیں لیکر حاضر ہُوا تو اُنہوں نے میرے
چہرے کی مسکراہٹ سے اندازہ لگایا کہ شاید اُنکا اندازہ غلط ثابت ہُوا ہے
لیکن جب اُنہوں نے میری رپورٹ پڑھی تُو تشویشناک لہجے میں کہنے لگے وارثی
صاحب شائد آپکو کُچھ غلط فہمی ہُوئی ہے ۔ ورنہ رپورٹ میں تُو صاف لکھا ہے
کہ آپ ہیپاٹائٹس سی کا شِکار ہُوگئے ہیں۔
میں نے اُنکی تشویش سے محظوظ ہُوتے ہُوئے کہا ڈاکٹر صاحب مجھے معلوم ہے کہ
مجھے ہیپاٹائٹس سی کا مرض لاحق ہُوگیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے میرے چہرے کو دیکھتے ہُوئے کہا،، پھر آپ مُسکرا کیوں
رہے ہیں ؟
میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب یہ تُو خُوشی کا مقام ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو جیسے میری ذہنی حالت پر شَک ہُونے لگا تھا۔ کہنے لگے وارثی
صاحب اِس موذی مرض میں خُوشی کا کونسا پہلو ہے ذرا مجھے بھی تُو سمجھائیے
میں نے تُو آج تک جتنے مریضوں کو اِس بیماری میں مُبتلا دیکھا ہے وہ اکثر
پریشان اور غمگین ہی نظر آتے ہیں۔
میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب ہر کِسی کے سُوچنے کا اپنا انداز، اپنا زَاویہ
اور اپنا نظریہ ہُوتا ہے نہ میں کِسی کی سُوچ پر پہرے لگا سکتا ہُوں اور نہ
کوئی اور میرے سوچنے کے انداز پر قدغن لگا سکتا ہے ۔ اور میں تُو یہ سوچ کر
خُوش ہُوں کہ میرا پَروردگار مجھ سے ناراض نہیں تبھی تُو اُس نے مجھے اِس
مرض کے ذریعے آزمایا ہے۔ اب جب تک یہ بیماری میرے وجود میں موجود رہے گی یا
تو میرے گُناہ مُعاف ہُوں گے یا میری نیکیوں میں اضافہ ہُوگا کہ مسلمان
کیلئے مرض پر صبر سِوائے انعام و اکرام کی بارش کے کُچھ بھی نہیں اور میں
خُوش ہُوں کہ مجھ جیسے گُنہگار کا شُمار بھی اَب اُن خُوش نصیبوں میں
ہُوگیا ہے جِن پر رِحمت اِلہی کی بارش چھما چَھم برستی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے وارثی صاحب بات تُو آپکی سولہ آنے دِل کو لگی ہے مگر
ابھی تُو ابتدائے عشق ہے اِس لئے آپ کے چہرے پر مُسکراہٹ موجود ہے یہ مرض
جُوں جُوں پرانا ہُوتا جائے گا آپ کو خُون کے آنسو رُلائے گا پھر یہ
مسکراہٹ چہرے پر شائد باقی نہ رہے اور ہُوسکتا ہے آپ بھی دیگر لوگوں کی طرح
خُدا سے شِکوہ کرتے نظر آئیں کہ اِس مرض میں صرف جگر ہی نہیں پِگھلتا بلکہ
جِسم کی ہڈیاں بھی بُوسیدہ ہُوجاتی ہیں۔
میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب علاج سُنت ہے اِس لئے آپ علاج فرمائیں جِس رَبّ
عزوجل نے بیماری کی آزمائش میں مُبتلا کیا ہے صبر و ہِمت بھی وہی عطا کرے
گا۔
ڈاکٹر صاحب کُچھ لمحے سُوچتے رہے پھر جیسے کِسی نتیجے پر پُہنچنے کے بعد
گُویا ہُوئے وارثی صاحب آپ بُرا مت منائیے گا ۔میرے خیال میں آپکو پہلے
ویکسین کروالینی چاہئے اگر آرام نہ آئے تُو میرے پاس تشریف لے آئیے گا
کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ جیسے ہی آپکے دوست احباب کو اِس مرض کی اِطلاع
مِلے گی وہ آپکو ویکسین کا مشورہ دیں گے اور ہومیوپیتھک علاج کی جانکاری
چُونکہ عام لوگوں کو کَم ہی ہوتی ہے اِسلئے اس طریقہ علاج کو لُوگ وقت اور
پیسوں کے ضیاع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
بِہرحال قصہ مختصر مجھے ڈاکٹر صاحب کی یہ بات معقول اور صائب لگی اور میں
واپس گھر آگیا۔
پھر میرے احباب نے میری ویکسین اِسٹارٹ کروا دی اور چھ ماہ کا عرصہ ڈاکٹرز
میرے پیٹ کو سُوئیوں سے گُودتے رہے ویکسین مکمل ہُونے کے بعد جب پی سی آر
کی رپورٹ سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ میرا بھی حال اِس شعر کی مِصداق ہے ،،
مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دَوا کی،،
کُچھ دِنوں کے بعد ایک دوست پھر ایک ہیپاٹایئٹس سی کے ماہر ڈاکٹر کے پاس
مجھے لے گئے اُنہوں نے بتایا کہ پانچ پرسنٹ لوگوں پر یہ ویکسین اپنا اثر
نہیں چھوڑتی اسلئے آپ آرام کریں اور چند دوائیں تجویز کردیں اُسکے بعد حالت
مزید خراب سے خراب تر ہُوتی چلی گئی اور ایک برس گُزر گیا لیکن اب کیفیت یہ
تھی کہ کالم لکھنا تُو دُور کی بات قلم ہاتھ میں لینے کو بھی جی نہیں چاہتا
تھا۔ اکثر موبائل فون سائلینٹ پر رہنے لگا جسکی وجہ سے لوگوں کی کال اٹینڈ
نہیں کرپاتا پُورے دِن میں ایک دُو کالز ہی سُنے لگا پھر ایمیلز کا پڑھنا
کیا اور جواب دینا کیسا آہستہ آہستہ نماز و اوراد کے سِوا سب کُچھ چھُوٹ سا
گیا اگر کوئی مُلاقات یا روحانی مسائل کے حل کیلئے تشریف لے آتا تو جسقدر
ممکن ہُوتا تعاون کردِیا کرتا وگرنہ بستر تھا اور ہم تھے یہاں تک کہ فیکٹری
پر بھی اکثر آرام ہی ہُونے لگا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات کہ جگر کیساتھ ہڈیاں بھی بُوسیدہ ہونے لگتی ہیں سچ
نظر آنے لگی تھی۔
اِس تمام دُور میں بیشُمار دوست احباب میری بیماری سے پریشان اور میری
صحتیابی کیلئے دُعاگو تھے لیکن ایک شخص سائے کی طرح میرے ساتھ لگا ہُوا تھا
جو میری ہر ضرورت کا نہ صِرف خیال رکھ رَہا تھا بلکہ ڈاکٹروں سے بھی رابطے
میں تھا میں نے لاکھ سمجھایا کہ میری خاطِر خُود کو اِتنا ہلکان مت کرو مگر
وہ نہیں مانا۔ وہ اپنے نام کی طرح ہے۔ میرے بچوں نے اِن تین بَرسوں میں
میری جو خِدمت کی ہے تُو وہ اُنکا فرض تھا لیکن احِسان الحق وارثی کے
اِحسانات کا قرض میں شائد اپنی پوری زندگی میں بھی نہ چُکا پاؤں ۔
پھر اِحسان بھائی کی ضد کیوجہ سے ایک مرتبہ پھرپاکستان کے نامور ڈاکٹرز سے
مُلاقاتوں کا سلسلہ چل نِکلا اور اِحسان بھائی نے مجھے دوبارہ ہائی ویکسین
کیلئے راضی کرلیا ڈاکٹروں کو مزید چھ ماہ میرے پیٹ پر نشتر چبھونے کا
پروانہ مِل گیا۔ لیکن نتیجہ پھر وہی ،، دھاک کے تین پات،، کی صورت برآمد
ہُوا اور رِپورٹ آنے کے بعد ڈاکٹر نے صاف جواب دے دِیا کہ اب ہمارے پاس
مزید کوئی علاج نہیں ہے۔ اسلئے اب آپ انتظار کریں ! مگر یہ نہیں بتایا کہ
کِس کا انتظار کریں مزید کِسی نئی تحقیق کا۔۔۔۔ یا مُوت کا!
اِحسان بھائی کا بَس نہیں چل رہا تھا ورنہ شائد وہ ڈاکٹر کی ہی درگت بنا
ڈالتے۔
میں نے سُوچا چلو قِصہ ختم اب اِحسان بھائی خُود بھی آرام سے بیٹھ جائیں گے
اور میں بھی آرام سے انتظار کروں گا مگر معلوم شائد مجھے بھی نہیں تھا کہ
انتظار کِس کا کرنا ہے۔
لیکن اِحسان الحق بھائی بھی کہاں ماننے والے تھے اگلے ہی دِن سے کِسی قابل
حکیم کی تلاش میں سرگرداں ہُوگئے کبھی گوگل پر سرچ کررہے ہیں تو کبھی
اِسکائپ پر کِسی حَکیم صاحب سے گُفتگو فرمارہے ہیں تو کبھی دوستوں سے کِسی
قابل حکیم کا پتہ دریافت فرمارہے ہیں بلآخر کامران عظیمی بھائی کی وساطت سے
اُنہوں نے حیدرآباد میں ایک قابل حکیم صاحب ڈھونڈ نِکالا اور میرے سامنے دو
حکیم صاحبان کا نام لیکر تشریف لائے دوسرے حکیم صاحب کا تعلق راولپنڈی سے
تھا اور یہ اِنہیں اسکائپ کی وساطت سے مِلے تھے۔
اِحسان بھائی نے دونوں نام میرے سامنے پیش کرتے ہُوئے استخارے کا حُکم دیا۔
اور جب استخارہ کامران عظیمی بھائی کے بتائے ہُوئے حکیم صاحب کے نام نِکلا
تُو اگلے ہی چند دِنوں میں مجھے ساتھ لیکر حیدرآباد کے لئے روانہ ہُوگئے۔
اور یُوں تین برس ایلوپیتھک علاج سے اپنے مرض کو تین گُنا سے بھی زیادہ
بَڑھا کر ہم نے حِکمت کا علاج اپنا لیا اور ہوسکتا ہے کِسی صاحب کو یقین نہ
آئے لیکن صرف 13 دِن بعد ہی جب میں نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا تُو مجھے معلوم
ہُوا کہ حیرت انگیز طور پر میرا مرض نہ صِرف بُہت تیز رفتاری کیساتھ خَتم
ہُورہا ہے بلکہ میرے جگر کو بھی تقویت حاصِل ہورہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ
یہ مرض شائد اگلے ماہ میں سِرے سے ہی خَتم ہوجائے گا۔
لیکن میں بُہت زیادہ خُوش نہیں ہُوں کیونکہ میں جانتا ہُوں کہ جیسے ہی یہ
مرض مجھ سے جُدا ہُوگا میری نیکیوں کا میٹر بھی رُک جائے گا اور میرے
گُناہوں کی صفائی کا ذریعہ بھی تھم جائے گا شائد اِسی وجہ سے میں نے آج تک
اپنے رَب عزوجل سے اس بیماری سے چھٹکارے کی دُعا نہیں مانگی تھی کیوں کہ
میں تُو صرف اتنا جانتا ہُوں کہ حقیقی علم صرف میرے رَبّ عزوجل کو ہی ہے
اور باقی سارے علوم اُسکی عطا سے ہیں اور جِسے چاہے علم عطا فرمادیتا ہے
مگر جو رَبّ اپنے بندوُں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ مُحبت کرتا ہے ،اُس نے
یہ بیماری مجھے بِلاوجہ تُو عطا نہیں کی ہُوگی یقیناً یہ بیماری میرے حق
میں بہتری کیلئے ہی عطا کی ہوگی ۔
مگر یہ سُوچ کر مجھ نادار کی ڈھارس بن جاتی ہے کہ شائد وہ بیماری واپس لے
کر مجھ سے اپنے بَندوں کی خِدمت کا کام لے اور مجھ سے اسطرح راضی ہُوجائے
کہ بے شک اُس کے ہر کام میں حکمت چُھپی ہے۔
انشاءَاللہ جُوں جُوں طبیعت میں بہتری آتی جائے گی میرے قلم کی رفتار بھی
بڑھتی جائے گی اور مکمل رِپورٹ آنے کے بعد حکیم صاحب کا نام اور مُقام بھی
تحریر کردونگا۔
چُونکہ یہ کالم بھی بیماری کی حالت میں لکھ رَہا ہُوں اسلئے اگر تحریر بے
رَبط اور ناقص نظر آئے تو آپکے قیمتی وقت کو برباد کرنے کیلئے پیشگی مُعافی
کا خُواستگار ہُوں ۔
آپکی دُعاؤں کا طالب۔ |