سابقہ ملازمت کے دوران میرے ایک
سینئر محترم حسن صاحب ہوا کرتے تھے جو کہ انتہائی شریف النفس، محنتی اور
ایمان دار آدمی تھے۔ وہ دفتر میں اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتے تھے اور نا
ہی ان میں کسی سے کوئی فضول با ت کرنے کی عادت تھی۔ وہ پورا دن سر جھکا کر
دل جمعی سے اپنا کام کرتے تھے۔ ان کو اپنے کام میں اتنی مہارت تھی کہ ان کی
ریٹائرمنٹ کے بعد ادارے کو ان کی سیٹ پر تین ملازم لگانے پڑے۔ مگر کام کی
کوالٹی پہلے جیسی پھر بھی نہ رہی۔
حسن صاحب ہر طرح سے باکمال بندے تھے مگر جب ہر سال ادارے میں ”اچیومنٹ
ایوارڈز” کا اعلان ہوتا تھا۔ تو ایوارڈز لینے والوں کی لسٹ میں اپنے نام کی
غیر موجودگی انھیں سیخ پاہ کر دیتی تھی۔ یہ بات ان کے مزاج سے بالکل ہٹ کر
تھی۔ اور وہ چند دنوں تک اپنے ساتھ بے انصافی پر ہم ساتھیوں میں بیٹھ کر
خوب احتجاج کرتے تھے۔ اپنے گلے شکوؤں میں وہ بار بار ایک چھوٹی سی کہانی
اور اس سے جڑا ہوا پنجابی زبان میں قطعہ سنانا نہیں بھولتے تھے۔ ان چند
دنوں کے دوران ان کا قطعہ ہم میں بہت مقبول اور زبان زد عام ہوتا تھا۔ آج
میں آپ کو وہ کہانی اور قطعہ ان کی زبانی سنا تا ہوں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دبنگ قسم کے جج صاحب ہوا کرتے تھے۔ محترم جج
صاحب کے پاس ایک مدبھرا ”ببلو” نامی بیل تھا جو کہ انھیں ان کے ہم خیال
دوستوں کی طرف سے تحفے میں ملا تھا۔ ببلو میاں اپنی چند ”خصوصیات” کی بنا
پر جج صاحب کے سب دوستوں کو بہت عزیز تھا۔ اسی نسبت سے جج صاحب بھی ببلو
میاں سے بہت پیار کرتے تھے۔ عدالتی قانون کے مطابق ببلو کو کھلی چھٹی تھی۔
کسی کے کھیت اور گھر میں اسے گھسنے پر روکنا سختی سے ممنوع تھا۔ عدالت میں
آنے کے لیے سب کو سیکورٹی گیٹ سے گزرنا پڑتا تھا مگر یہ ناز و نعمت سے پالا
ہوا ببلو اس سے مبرا تھا۔ المختصر ببلو میں ”لاڈلا پوت کٹورے موت” والی
پوری بات تھی۔
کہتے ہیں ایک دفعہ جج صاحب کا یہ چہیتا ببلو غصے میں عدالت پر بھی چڑھ دوڑا
اور عدالت کا مین گیٹ پھلانگتا ہوا ایک کمرا عدالت میں جا گھسا۔ چشم دید
گواہوں کا بتانا تھا کہ وہاں ایک اور جج صاحب مقدمہ سن رہے تھے۔ جن کو بھا
گ کر ایک دوسرے کمرے میں چھپ کر جان بچانا پڑی۔ مگر مجال ہے کہ زرہ برابر
بھی ببلو کے لیے لاڈ یا دلداری میں کمی ہوئی ہو۔ ببلو کو توہین عدالت پر
سزا ہونے کی بجائے الٹا جج کا بوریا بستر گول کر دیا گیا جوببلو کے غصے کا
شکار ہوا۔
جج صاحب کے پڑوس میں ایک غریب تیلی رہتا تھا۔ کولھو کو چلانے کے لیے تیلی
نے بھی ایک بیل رکھا ہوا تھا۔ جج صاحب کا دلارا ببلو اکثر کھونٹے سے بندھے
ہوئے تیلی کے بیل کے ساتھ سینگ آزمائی کرتا تھا جس کےنتیجے میں اکثر تیلی
کا بیل زخمی ہوجاتا۔ اس پر بھی تیلی مو ردالزام ٹھہرایا جاتا تھا اور جیسے
ہی جج صاحب کو معلوم پڑتا وہ سارے دوسرے مقدمے ایک طرف رکھ کر تیلی کی
عدالت میں پیشی کروا دیتے۔ تیلی بے چارے کی کل جائداد کولھو اور بیل تھے
اور صرف یہی اس کی روزی کے سہارے تھے۔ ان باربار پیشیوں کی وجہ سے تیلی بے
چارہ بہت پریشان تھا۔ مگر اس کے دماغ میں بے وقوفی کی حد تک یہ بات سمائی
ہوئی تھی کہ وہ اپنی دھرتی ماں کو ہرگز نہیں چھوڑ کر جا ئے گا۔ چاہے اس کے
لیے اسے کچھ بھی بھگتنا پڑے۔
”قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے” والی مثل کی مناسبت سے ببلو میاں فطرتا
پاکھنڈی ہونے کے باوجود بڑا سیانا تھا اور کسی سے پنگا بھی سوچ سمجھ کر لیا
کرتا تھا۔ مگر ایک دفعہ ببلو سے بلنڈر ہو گیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ببلو میاں
گلی میں مست انداز میں مٹک مٹک کر چل رہا تھا کہ ہمسائے میں رہنے والے اس
پورے علاقے کے ڈان سے آمنا سامنا ہو گیا۔ ببلو نے عادتاخم و چم سے سینگ
ہلائے اور ساتھ میں گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹی بھی بجا دی۔ اس خمار آلود حرکت
کو ڈان نے اپنی شان میں گستاخی سمجھا۔ ببلو کو سبق سکھانے کے لیے ڈان نے اس
کو قلعہ میں پابند سلاسل کروا دیا۔ یہ پہلا اور آخری موقعہ تھا جب ببلو کے
سرپرست اور جج صاحب اس کے لیے کچھ نا کر سکے۔ کہتے ہیں کہ زندگی میں پہلی
بار ببلو کو ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ان دنوں جگالی کرنا بھی
بھول گیا۔ صرف قلعہ میں بیٹھ کر اکثر آنسو بہایا کرتا تھا۔ مگر بہت جلد
ببلو کے سرپرستوں نے اسکی جان بخشی کروا دی۔ مگر معاہدے کے مطابق ببلو کو
شہر بدر ہونا پڑا۔ جج صاحب کوبھی ڈان کی وفا کی قسمیں کھانا پڑی اور ایک
عدالتی فیصلہ بھی دینا پڑا کہ ڈان صاحب پورے علاقے کے سردار ہیں اور یہ
سرٹیفیکیٹ عطا فرما دیا کہ اس کا جو دل چاہے یہاں کے باسیوں کے ساتھ کر
سکتا ہے۔ ویسے تو ڈان صاحب نے جج صاحب کا بھی کئی بار دل سوختہ کیا تھا۔
بلکہ ایک بار تو ڈان کے حواریوں نے جج صاحب کی زلف گرہ گیر کی گرہ بھی
نکالنے کی کوشش کی۔ مگر جج صاحب کو کبھی ڈان یا اس کے کسی ساتھی کو سزا سنا
ںے کی ہمت نہیں ہو سکی تھی۔ البتہ ان کو نوازنے کی لاتعداد مثالیں موجود
تھی۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی دلارے ببلو میاں کی۔ کچھ عرصہ شہر بدری کے بعد
پھر ببلو کی قسمت یاوری ہوئی اور وہ اپنے خیر خواہوں کے توسط سے شہر میں
لوٹ آیا۔
شہر میں واپسی کے بعد ببلو نے چند دن تو زندگی بڑی شریفانہ انداز میں گزاری
اور اصول پسندی کا لبادہ اوڑہ کر پھرتا رہا مگر بہت جلد وہ اپنی سابقہ روش
پر لوٹ آیا۔
ببلو میاں نے تیلی کے بیل کے ساتھ پھر سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ ایک دن
اتفاقا تیلی کے بیل کی رسی کھونٹے سے کھل گئی۔ اور وہ گھومتا گھومتا قریبی
گلی میں نکل گیا جہاں محترم جج صاحب کے محبوب ببلو میاں سے اس کی مڈھ بھیڑ
ہو گئی اور بد قسمتی سے ببلو کا تھوڑا سا سینگ ٹوٹ گیا۔ جج صاحب کو خبر
ہوئی تو انھوں نے حسب روایت اپنے پورے جلال سے سوموٹو ایکشن لے لیا اور زور
شور سے منادی کروانے کے ساتھ ساتھ تیلی کو نوٹس بھیج دیا۔ نوٹس کا کیا ملنا
تھا کہ افواہ پر پورا ایمان لانے والے عادی معاشرے میں تیلی بے چارہ مقدمے
کے فیصلے سے پہلے ہی ملزم کی بجائے مجرم گردانا جانے لگا۔ اور علاقے کا
بدنام ترین آدمی بن گیا۔
سماعت کے دن عدالت کا کمرہ لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حرماں نصیب
تیلی کٹہرے میں سہما ہوا دل میں سو وسوسے لے کر سر جھکائے ہوئے گم سم عدالت
کے رحم وکرم پر کھڑا تھا۔ سب سے پہلے جج صاحب نے حسب معمول تیلی اور اس کے
وکیل کو خوب ڈانٹا۔ جج صاحب اتنے غصے میں تھے کہ تیلی اور اس کے وکیل کا
کسی قسم کا مؤقف سننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ بولو گے یا میں
بولوں گا۔ دیگر تیلی کے وکیل کو جج صاحب نے یہ بھی کہا کہ آپ اس عادی مجرم
کے وکیل کیوں بنے ہو۔ فورا سے پہلے اس مقدمے سے اپنا وکالت نامہ واپس لو۔
اس کے بعد جج صاحب نے قانون کی لال کتاب منگوائی اور اپنی ”نظر کی مخصوص
عینک” لگائی اور کتاب کھولی۔ جج صاحب کو چوں کہ قانون کی تشریح پر مکمل
دسترس تھی اس لیے فورا ہی فیصلہ سنا نے کے لیے کچھ یوں گویا ہوئے۔
لال کتاب فرماوے یوں
تیلی داند پالے کیوں
پال پوس کے کیتا سو مستانہ
داند دا داند پجا روپے جرمانہ!
(لال کتاب یوں فرماتی ہے کہ تیلی کو یہ ہرگز حق نہیں کہ وہ بیل پالے مگر اس
نے قانون کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ بیل کو ایسا پالا کہ وہ مست ہو گیا۔ اس
لیے قانون کی عین تشریح کے مطابق تیلی کا بیل ضبط ہوتا ہے اور ساتھ میں
تیلی کو پچاس روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔)
فیصلے کے بعد دبنگ جج کے محبان نے ”انصاف” پر مبنی فیصلے کو تاریخی قرار دے
کر اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ ناز پروردہ ببلو کوبھی
خوب پیار کیا اور صدقے واری ہوئے۔ پورے اہتمام سے منادی کرائی گئی کہ اب نہ
رہے گا بانس، نا بجے گی بانسری۔
تاریخ کہتی ہے کہ ایسے فیصلوں کے بعد عام لوگ ”دوسروں کو نصیحت اور خود
میاں فصیحت” ٹائپ دبنگ جج صاحب اور با صبر سدا بہار ”مجرم” تیلی کی اصلیت
کو خوب پہچان گئے۔
میرے محترم حسن صاحب صرف یہاں تک کہانی سناتے تھے۔ مگر میرے خیال میں آگے
کی کہانی یعنی اس کا اختتام لکھا یا سنایا جانا ابھی باقی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔! |