کشمیر براستہ اجمیر

صدر آصف علی زرداری کے دورہ بھارت نے جہاں کئی شبہات کو جنم دیا ہے وہیں بہت سے مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے سیاسی قائدین نے اس لحاظ سے اس دورے کو مشکوک قرار دیا ہے کہ بظاہر اس دورے کو ایک ولی کے دربار یا مزار سے منسلک کیا گیا تھا کہ جناب صدر نے کوئی منت مانی تھی جس کی ادائیگی کے لیے وہ اجمیر تشریف لے جارہے ہیں مگر بعد یہ دورہ پیچیدہ اور سنجیدہ صورت اختیار کرتاگیااور آخری لمحے میں ایک مکمل سرکاری دورہ بن گیا۔کشمیر ی قیادت کو شک ہے کہ صدر پاکستان کا دورہ بھارت زیارت پر حاضری اور منت کی آڑمیں ایک ایسا دورہ تھا جس کا مقصد کشمیر سمیت بہت سے دیگر معاملات میں بھارت کو خصوصی رعائیتیں دینااور بھارت کو امریکہ کی مرضی کے مطابق خطے کا تھانیدارتسلیم کرنا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس دورے کے دوران کشمیر ، دریائی پانی کی چوری، بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور افغانستان میں قائم درجنوں بھارتی کونسل خانوں کی مشکوک سرگرمیوں پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔ زیادہ توجہ راھول گاندھی اور بلاول بھٹوزرداری کی ملاقات اور دونوں خاندانوں کے درمیان مستقبل میں روابط،تجارت ، باہمی اعتماد اور دیگر غیر اہم اور سیاسی نوعیت کے مسائل پر مرکوزرہی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پریس کے سامنے لائی گئیں مگر اندرون خانہ کیا ہوا کسی کو پتہ نہیں۔

کشمیری قیادت کو شک ہے کہ جسطرح مشرف دور میں پاکستانی قیادت نے امریکہ کیساتھ زبانی کلامی معاہدے کیے اور امریکی خوشنودی اور ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک کو جہنم بنایا بلکل ویساہی رویہ اب بھارت کے ساتھ ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کے تحفظ اور امریکی ڈالروں کی چمک کے عوض ملک امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا جسکا خمیازہ اب ساری قوم بھگت رہی ہے۔ مشرف اپنے خزانے بھر چکا تو امریکہ نے اپنے حامیوں کی مدد سے این آر او کی صورت میں اقتدار صدر زرداری کومنتقل کیا اور صدر زرداری پر نگاہ رکھنے کے لیے جناب عبدالرحمان ملک کومسلط کیا جو ملک کے اصل حکمران ہیں۔ظاہر ہے کہ این آر او اور پانچ سالہ اقتدار مفت کا لنچ نہیں۔اس عیش کے بدلے میں صدر زردار ی کو بھی نذرانہ دینا تھا جو بہت سی صورتوں میں دیا جا رہا ہے۔

اس نذرانے کی ایک صورت فوج اور عدلیہ کی تضحیک ہے اور میڈیا کا ایک حصہ پوری قوت سے اس تحریک میں شامل ہے۔ صدر زرداری کی قیادت میں چلنے والی حکومت بلوچستان کے معاملات پر بلکل سنجیدہ نہیں اورمحض معافی ناموں کے اجراء پر اکتفا کیئے ہوئے ہے۔ حکومت کے اس غیر سنجیدہ رویے سے فوج اورخفیہ معاملات پر نظر رکھنے والی ایجنسیاں بدنام ہو رہی ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ یہ معاملات اسقدر پیچیدہ ہو جائیں کہ دنیا اسے فوجی جبر کے زمرے میں ڈال کر پاکستان کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہو جائے۔ یہ ایکشن دارفر ، ہیٹی ، مشرقی تیمور اور افغانستان کی طرز پر فوجی مداخلت یا پھر پا بندیوں کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

موجودہ حکومت نے معائدہ کراچی اور آزادکشمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے گلگت بلتستان کو آزادکشمیر سے کاٹ کر علیحدہ صوبہ بنالیا ہے اور آنے والے دور میں آزادکشمیر کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا عزم کر لیا ہے۔ کشمیر کی کاٹ چھانٹ سے پہلے زرداری حکومت نے دھاندلی کے ذریعے آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی تاکہ آنے والے دنوں حکومت کی کاروائیوں پر کوئی سراپا احتجاج نہ ہو اور جو فیصلہ جناب زرداری اور عبدالرحمان ملک کریں آزاد حکومت نہ صرف اسے تسلیم کرلے بلکہ کسی بھی احتجاج کی صورت میں سخت موقف بھی اپنائے۔

پاکستان نے امریکی دباؤ کے تحت بھارت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کا زمینی راستہ فراہم کیا تو دہلی اور واشنگٹن میں شادیانے بجائے گئے جبکہ اس سلسلہ میں ایک باقائدہ تقریب کا انعقاد بھی ہوا جس کی رونق افزائی میں امریکہ وزیر خارجہ بھی جلوہ افروز ہوئیں۔ بھارت کو سنٹرل ایشیاء تک رسائی دینا معنی خیز کارنامہ ہے اورمستقبل میں پاکستانی قوم اس کا کیا نتیجہ بھگتے گی یہ رازبھی اخفا ہے۔

بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا بھی زرداری حکومت کا کارنامہ ہے جسپر آذادکشمیر حکومت کی خوشیاں اور لیڈر وں کے بیانات قابل توجہ ہیں ۔ وزیر اعظم آذاد کشمیر نے مدہوشی کے عالم میں یہ بیان بھی جاری کر دیا کہ جناب زرداری کا یہ کارنامہ لائق تحسین ہے مگر کچھ لوگوں کے پیٹ میں خوا ہ مخواہ کے مڑوڑ پڑ رہے ہیں۔

اب جناب زرداری کے دہلی مشن پر خود بھارت نے بیان دیا ہے کہ جناب زرداری مسئلہ کشمیر پر پیش رفت چاہتے ہیں جس پر بھارتی قیادت غور کررہی ہے۔ حیران کن بات ہے کہ جس مسلئے پر بظاہر بات ہی نہیں ہوئی وہ اہم کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر بھارت نے اسے اہم کہہ دیا ہے تو پھر یہ مسئلہ دیگر مسائل کی طرح پہلے سے حل کیا جا چکا ہے جسکا موزوں وقت پر رسمی اعلان کیا جائے گا اور آزادکشمیر کو پاکستان کا صوبہ قرار دیکر اس مسلئے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے گا۔

مقبوضہ کشمیر کے سیاسی قائدین کا شک اور تشویش بلکل بجا ہے چونکہ پچھلے چند سالوں سے پاکستانی میڈیا اور کچھ دانشور کشمیر سے جان چھڑاؤ مہم بڑی خوبصورتی سے چلا رہے ہیں ۔اس سلسلے کی ایک کڑی امن کی آ شا ہے جسے چلانے میں کروڑوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں ۔ اس موقف پر بہت سے پاکستانی دانشور ، صحافی اور سیاسی لیڈر کھل کر بات کرتے ہیں مگر آزاد کشمیر کے کسی بھی سیاسی ڈیلر نے ان کو جواب دینے کی زحمت نہیں کی جس سے ثابت ہے کہ آزاد کشمیر کے پونڈمافیا نے آذاد خطے کا سودا بھی کر لیا ہے ۔ ان دانشوروں اور صحافیوں میں کا مران خان ۔ حامد میر ، مجاہد بریلوی ،امتیاز عالم اور دیگر شامل ہیں ۔ سیاستدانوں میں اے این پی اور ایم کیوایم کے سبھی رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کا کشمیر پر حق تسلیم کیا جائے تاکہ قتل و غارت ختم ہو ۔ دوسرے معنی میں دیکھا جائے تو وہ قاتل کے حق قتل کوتسلیم کرتے ہیں جس میں پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما ؤں کی تائید بھی شامل ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ آذاد کشمیر کے حکمران ٹولے کے علاوہ بہت سے دانشور اور صحافی بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ کشمیر کو تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جنرل مشرف نے کشمیر کی تقسیم کا فارمولہ پیش کیا تو مجاہد اول اور ان سپوت نے اس کی نہ صرف حمائت کی بلکہ تسلیم کرنے میں بھی پیش پیش ہوئے ۔ دونوں باپ بیٹے نے ملٹری ڈیموکریسی کی اصطلاح پیش کی اور مشرف کے دربار میں ہاتھ باندھے حق دربانی ادا کرتے رہے۔

صدر پاکستان کے دورے کو مزید مشکوک ان ہی کے وزیر اعظم نے بنایا اور اپنے ایک بیان میں حیرت کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہم بھارت کے قریب ہوتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی بحالی کی صورت نکلتی ہے تو فوج کو اسپر اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ثابت کرتا ہے کی بھارت کے ساتھ پیار و محبت نہ پاکستانی قوم کا فیصلہ ہے اور نہ ہی فوج کا ۔ بھارت کے ساتھ معاملات کا سلسلہ یکطرفہ ہے جس سے صرف اور صرف بھارت ہی کو فائدہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ صدرزرداری کی اجمیر شریف پر حاضری کے پیچھے کیا مقصد پنہاں تھا اور اس دورے سے پاکستان کن نئے مسائل سے دوچار ہونے والا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اجمیر سے کوئی راستہ کشمیر نہیں جاتا ۔ اگر اجمیر والے بابا ولی ہند ہیں تو کشمیر کے والی سلطان العارفین ہیں۔ اگر صدر زرداری زیارت کی آڑمیں کوئی کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ لاہور میں ایک علی ہجویری بھی ہیں کہ جن کن اجازت سے اجمیر کی بستی آباد ہوئی تھی ۔ صدرزرداری کو زعم ہے کہ وہ سیاسی شطرنج کے ماہر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ماہر نہیں بلکہ ایک مہرہ ہیں اور این آراو کی بساط پر چل رہے ہیں ۔ اصل ماہر وہ ہاتھ اور دماغ ہیں جنھوں نے یہ بساط بچھائی اور اس سے فوائد حاصل کر رہے ہیں ۔ آ پ کی بساط کب اور کیسے لپیٹی جائے گی اسکا آپ کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔ یہ ضرور یاد رکھیں کہ کشمیر پر شب خون آپ کو مہنگاپڑے گااور اسکا انجام خوفناک ہوگا---ختم شد
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76366 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More