ڈَنگ کے شوق باز سَجنا

وہ غروبِ آمریت کی بے مروت زلفوں کاپاکستان کے رُخِ روشن سے ہٹائے جا نے کے بعدکاوقت تھا۔ ظلمتِ شب کی تاریک راہیں نورِ سحر کی دمکتی راہوں کی طرف پلٹ کر نِکھر آنے کو گرم خیز۔۔ سب سوال ایک اور سب دھڑکنوں کی زبان صبحِ امید کے سحر میں نغمہ ریز۔۔۔ یہ وقت تھا جب رس میں ڈوبے ہوئے وعدوں اور نعروں کے تسلسل سے سوئے ہوئے خوابوں کی آنکھوں میں صبحِ نور کا جل تھل مچایا جاچکا تھا۔۔۔یہ وقت تھا جب لب پر ہنسی سجا کر، گذشتہ ترجیہات پرسیا سی سٹیج کے ماہرِ کرتب باز کرداروں کی رطب اللسانیاں، اب مگر نئی اداﺅں کے پھندوں کے تحت بنائی گئی ”جمہوری فلم“ کی تشہیر میں دراز سے دراز تر ہوتی جا رہیں تھیں۔یہ وقت تھا جب ”پاکستان کھپے سینما“ کے آگے اس کی چکا چوند دیکھ کر معزز و معتبر ،عوام و خواص ،دانشور و انشاء پرداز وں کی قطار در قطار بندھی جا رہی تھی ،ٹکٹ پر ٹکٹ خریدے جا رہے تھے۔وصل کی شب اپنے جوبن کو آخر جب آپہنچی،ہمہ تن گوش اب سب حاضرین و ناظرین اپنی اپنی اُسی بیالیس سالہ اُ میدِ کرسیوں پر جلوہ افروز تسکینِ آرزو کی تکمیل کے متمنی تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے مگراُسی”آزمودہ ٹریلر“ کی اچانک ایسی آندھی چلی نہ شاخِ امید پر کھلنے والا پھول رہا نہ ٹہنی ِخواب پر پھوٹنے والی کلی۔۔۔ نئے جمہوری کرداروں کی پرانی عادات و اصلیت جوں جوں سنِ بلوغت کی طرف اڑان بھرنے لگی، خوابوں کی نیلم پریاں بکھرنے لگیں،اشکِ امید کی طلاطم خیزیاں دریائے بے بسی و بے کسی میں بہنے لگیں۔۔ ۔ اندیشہ ہائے دور دراز لیکن اس وقت ا مڈ آنے لگے جب نگاہیں اِک نقطے پر آکرٹھٹک گئیں جب نئے شکاریوں کے پرانے پھندوں پر بچھی کرسیاں لرز نے اور گرنے لگیں، پھر قبروں کی سیاست کرتی دھنوں کی لے پر ،وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کی ڈوری سے این ۔آر ۔او کے دھاگوں سے بنا پردہ دھیرے دھیرے جب سِرَکتاسِرَکتا آ خر ’ ’جمہوری اسکرین “سے اٹھتا ہے تو فلم کا مرکزی خیال انسانی ذہنوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ :"روٹی،کپڑا اور مکان کے فریبی نظریہ" کے نام سے لوٹ کھسوٹ،ملکی معاشیت وعوام فراموشی، کے اپنے ہی ریکارڈ توڑ تے ہوئے ،سلسلہ وارجو فلم چار سال سے سیا سی سٹیج پر رقصِ کناں ہے ،کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ جمہوری حکومت؟اسلامی جمہوریہ پاکستان؟ سبحان اللہ پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی

”جمہوری شو کا ڈھونگ“ منظرِ عام پر آکر طشت از بام ہونے کے بعد ”پاکستان کھپے سینما“سے باہرآکر مہنگائی،لوڈشیڈنگ،اداروں کی جنگ ،تھانہ و پٹوار کی لعنت،امن و امان کی مخدوش صورت حال،عدم تحفظ،فرقہ واریت کے عذاب جھیل کر لب پہ توبہ توبہ،ہاتھوں کی کانوں پہ تھپکیاں آج کل اب مگر لائقِ دیدنی ہیں۔لائقِ تحسین مگر تب کہنا چاہیے کہ اگر ووٹر سپوٹر اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے،بے تعصبی وتقلید کو چھوڑ کر مگرعلم اور غوروفکر کے ذریعے اپنی عقلوں کا استعمال کریں، جن کی وجہ سے تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے بنایا جانے والا ملکِ پاکستان مذہبی و سیاسی انتہا پسندوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔اپنے ہی ہاتھوں خود کو دانستہ طور پر بار بار بچھو اور سانپ نما انسانی دیوتاﺅں سے ڈسوانے کے شوق باز سجنوں کو با عثِ شرم اورقابلِ عبرت کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گاکہ اللہ کے آخری رسولﷺ نے کہا تھا کہ مومن ایک سوراخ سے با ر بار نہیں ڈسا جاتا۔مومن کے لیے تو یہ حکم ہے کہ اگر برائی کو نہیں روکا جائے گا اور بھلائی کا پیغام نہیں دیا جائے گا تو معا شرے کے بد ترین لوگ تم پر مسلط کر دیے جائیں گے،اور تم میں سے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہو ں گی۔بانی اسلام پروردگار کے آخری پیغمبر ﷺ کا ایک فرمان دھیمی دھیمی آواز سے کوئی سنا رہا ہے :وہ قومیں تباہ ہوئیں جو اپنے کمزوروں کو سزائیں دیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیتی ہیں۔غضب خدا کا،آزمائی ہوئی تعفن زدہ اور آمریت کی پروردہ سیاسی جماعتوںکے اندھے گونگے اور بہرے پن میں ید طولیٰ رکھنے والے عوام کااس صاف صاف منافقت ،بغاوت اور حکم عدولی پر بھی دعوٰی مگرپیغمبرِ اسلام کی حرمت پر جان بھی قربان کر دینے کا؟ اللہ کی حاکمیت کا؟ ا سلامی جمہوریہ پاکستان کا؟استغفر اللہ۔اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے :یا حسرت العلاباد۔اے میرے بندوں تم پر افسوس۔۔۔
Sajjad Azhar Peerzada
About the Author: Sajjad Azhar Peerzada Read More Articles by Sajjad Azhar Peerzada: 4 Articles with 3535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.