انصاف کا تقاضا

 نومبر 1996 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو سردار فاروق احمد خان لغا ری نے ایک سازش کے تحت ختم کیا اور عدالتِ عظمی نے اس پر بڑی فرا خ دلی سے مہرِ تصدیق ثبت کی۔ سردار فاروق احمد خان لغاری نے صدار تی حکم کے تحت ایک نگران حکومت قائم کی جس میں پی پی پی کے منحرف کارکن ملک معراج خالد کو وزارتِ عظمٰی تھما دی گئی ۔ ا س سازش کے دور میں میاں محمد نواز شریف اور سردار فاروق خان لغا ری بھائی بھائی بنے ہو ئے تھے اور ان کے درمیان میں سے ہوا کو بھی گزرنے کی مجال نہیں تھی ۔ میاں محمد نواز شریف اور سردار فاروق خان لغا ری نے پا کستان پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کرنے کےلئے ایک سازش تیار کی جس کی رو سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی عدالتوں میں جھوٹے مقدمات دائر کئے گئے۔ ان مقدمات کا واحد مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو سیاست سے بے دخل کرنا تھا ۔ یہ تمام اقدمات بد نیتی پر مبنی تھے اور ان کاواحد مقصد پی پی پی کی شہرت کو داغدار کرنا اور اس سے اپنا پرا نا حساب بیباک کرنا تھا۔ یہ مقدمات جھوٹ کا پلندہ تھے اور اس بات کا برملا اعتراف سیف الرحمان اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں کیا ہے۔ حامد میر اس بات کے عینی شاہد ہیں جن کے سامنے ایک عدالت میں کاروائی کے درمیان سیف الرحمان نے آصف علی زرداری کے پاﺅں پر سر رکھ کر معافی مانگی تھی اور ان سے جھوٹے مقدمات دائر کرنے پر ان کے سامنے پچھتاوے کا اظہار کیا تھا ۔ میاں محمد نواز شریف نے بھی سہیل وڑائچ کے ساتھ اپنے ا نٹر ویو میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا کہ یہ مقدمات جھوٹ پر مبنی تھے اور ان مقدمات کو قائم کرنے کے پیچھے ہمارے مقا صد سیاسی تھے۔ سہیل وڑائچ بھی زندہ ہیں اور حامد میر بھی زندہ ہیں ان کی گواہی ہی اس مقدمے کی حقیقت کا پردہ فاش کر سکتی ہے۔

سردار فاروق احمد خان لغا ری جنھوں نے یہ جھوٹے مقدمات قائم کئے تھے آسودہَ خاک ہو چکے ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو جن کے خلاف یہ مقدمات قائم کئے گئے تھے وہ بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگ جو اس کہانی میں بڑے اہم کردار کے حامل تھے اپنی اپنی باری کھیل کر اگلے جہاں کو سدھار چکے ہیں۔ اصول تو یہ ہے کہ جب کوئی ملزم وفات پا جائے تو اس کے خلاف سارے مقدمات بند کر دئے جاتے ہیں کیونکہ وہ خود اپنی صفائی دینے کےلئے مو جود نہیں ہوتا۔ فوجداری مقدمات میں ملزم کو اپنے خلاف لگا ئے گئے الزامات کو قبول کرنے یا رد کرنے کا حق حاصل ہو تا ہے اور دنیا کو کوئی قانون اسے اس حق سے محروم نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ا سکی موت کے ساتھ ہی دنیاکی ہر عدالت میں مردہ شخصیت کے خلاف سارے مقدمات بند کر دئے جاتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کا وہ کیس جس میں عدالتِ عظمٰی نے سید یوسف رضا گیلانی کو خط لکھنے کا حکم صادر فرما رکھا ہے اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اصل ملزم نامزد کی گئی تھیں جب کہ آصف علی زرداری اس مقدمے میں شریک ملزم تھے ۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ اس مقدمے میں اصل ملزم کی وفات کے بعد اس مقدمے کو ہمیشہ کےلئے خارج کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں اس مقدمے کے دوسرے سارے شریک ملزمان پہلے ہی بری ہو چکے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ سوئیس عدا لتوں نے بھی اس مقدمے کو میرٹ کی بنیادوں پر 2008 میں خارج کر دیا تھا لیکن پھر بھی ہما ری سپریم کورٹ کی طرف سے یہی اصرار ہے کہ سوئیس حکام کو خط لکھا جائے۔ جنرل پرویز مشر ف نے پی پی پی کے ساتھ جو این آر او کیا وہ پاکستان کا پہلا این آر او نہیں تھا اس سے پہلے بھی بہت سے این آر او جاری ہو ئے تھے لیکن بد قسمتی سے ان کے بارے میں عدالتی کاروائیوں کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ میاں محمد نواز شریف بمعہ اہل و عیال کے کراچی جیل سے سعودی عرب کے محلات سے کیسے گئے تھے؟ سنا ہے انھیں پر لگے ہو ئے تھے لہذا وہ کراچی جیل سے اڑ کر سعودی محلات میں پہنچ گئے تھے اور وہاں سے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو فون کیا تھا کہ بچے میں اڑ کر سعودی عرب پہنچ گیا ہوں لہذا اب تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔سچ تو یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی روانگی ایک ایسے معاہدے کی مرہونِ منت تھی جسے دنیا این آر او کے نام سے پکارتی ہے۔یہ اسی این آر او کا کرشمہ ہے کہ میاں محمد نواز شر یف زندہ سلامت ہیں وگرنہ پنہ نہیں جنرل پرویز مشرف ان کا کیا حشر کرتا لیکن اتفاق سے میاں محمد نواز شریف کو وہ این آراو بالکل یاد نہیں ہے اور اگر انھیں وہ این آر یاد دلوانے کی کوشش کی جائے تو وہ اس بات کا بڑا برا مان جاتے ہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ اس این آر او کا ذکر نہ کیا جائے۔سچ کہا تھا دا نشو روں نے کہ انسان کو اپنی آنکھکا شہتیر نظر نہیںآتا لیکن دوسروں کی آنکھ کے تنکے پر وہ ہنگامہ کھڑا کر د یتا ہے۔

ساری دنیا میں سیاسی میدان میں اس طرح کی کاروائیاں معمول کا حصہ ہوتی ہیں جس کی رو سے سیاسی مخالفین کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی غرض سے ان پر بد نیتی پر قائم مقدمات کو اٹھا لیا جاتا ہے تا کہ قومی یکجہتی کا حصول ممکن بنا یا جا سکے۔ آ ّج کل بلو چو ں کو عام معافی دینے کے جو اعلانات ہو رہے ہیں انھیں کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں این آر او کے سارے متاثرین کے لئے اپنی بے گناہی ثابت کرنا ابتہائی ضرور ی تھا اور بہت سے وفاقی وزرا نے ایسا ہی کیا تھا اور اپنے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کر کے وہاں سے بری ہوئے تھے۔سپریم کورٹ کو بھی چائیے تھا کہ وہ این آر او کا فیصلہ دینے کے بعد یہ معاملہ سوئیس عدالتوں پر چھوڑ دیتی کہ وہ جانے اور این آر او جانے۔ مبشر حسن کی درخواست میں بھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں تھا کہ سپریم کورٹ حکومت کو حکم دے کہ وہ سوئیس عدالتوں میں زرداری کے خلاف خط لکھے لیکن نجانے سپریم کورٹ کو کس نے یہ مشورہ دیا کہ آپ وزیرِ اعظم کو حکم دیں کہ وہ سوئیس عدالتوں میں آصف علی زرادری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لئے خط لکھیں ۔بس پھر کیا تھا وزیرِ اعظم نے آئین کے آر ٹیکل 248 کی وجہ سے خط لکھنے سے انکار کر دیا اور سپریم کورٹ اس خط کے لکھوانے میں بضد ہوتی چلی گئی اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔سپریم کورٹ نے سوئیس عدالتوں کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں 26 اپریل کو سید یوسف رضا گیلانی کو سزا بھی سنا دی ہے جس پر پورے ملک میں جلسے ،جلوسوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ لوگ سرِ عام عدلیہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور یو ں وہ عدلیہ جسے سارے پاکستان کا اعتماد حاصل تھا اب ایک خاص گروپ کی عدلیہ بن کر رہ گئی ہے جو انصاف اور آئین کے بنیادی تقاضوں کا خون ہونے کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ بحث چل پڑی ہے کہ آیا یوسف رضا گیلانی اس فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم کے منصب کے اہل رہے ہیں یا کہ نہیں؟دونوں جانب سے دلائل کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں لیکن نقصان عدلیہ کا ہو رہا ہے کیونکہ د ھیرے دھیرے یہ اپنی تکریم کھوتی جارہی ہے۔ ہمیں اس معاملے پر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہے کہ ہم ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہے ہیں؟
1996 میں میاں محمد نواز شریف اور سردار فاروق خان لغا ری کے باہمی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی آصف علی زرداری کو گرفتا کر لیا گیا تھا اور ان پر جبر و تشدد کے ایک نئے دور کا آغا کر دیا گیا تھا۔ آصف علی زرداری نے ان تمام ہتھکنڈوں کا جس جرات اور پا مردی سے سامنا کیا تھا اس کی بناءپر نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی نے آصف علی زرداری کو مردِ حر کا خطاب دیاتھا ۔ اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ گیارہ سالوں تک جیل کی سختیاں سہنے والا وہی شخص اس وقت پاکستان کا صدر ہے اور اسی مردِحر آصف علی زرداری کی حکومت کے خاتمے کے لئے ایک دفعہ پھر سازشوں کا جال پھیلایا جا رہا ہے لیکن سازشی بھول رہے ہیں کہ اس دفعہ آصف علی زرداری جیل میں نہیں بلکہ صدارت کے منصب پر فائز ہیں لہذا ان کے خلاف کی جانے والی تمام سازشیں ایک ایک کر کے دم توڑ جا ئیں گی۔جس شخص سے جیل کی سختیوں میں سر نگوں ہو نے سے انکار کر دیا تھا وہ اب بھی سر نگوں نہیں ہو گا بلکہ تمام سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرے گا۔ 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے جس کی سربراہی ملک قیوم کر رہے تھے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو کرپشن کے ایک مقدمے میں سزاسنائی تھی ۔ حسنِ اتفااق دیکھئے کہ اس مقدمے میں سزا دلونے کی خاطر وہ گفتگو جو ملک قیوم اور میاں شہباز شریف کے درمیان ہو ئی تھی اور جس میں میاں شہباز شریف ملک قیوم کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا سنانے کا حکم صادر فرما رہے تھے کسی طرح سے مار کیٹ میں آگئی تھی ۔ پی پی پی نے گفتگو کی اس کیسٹ کو اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا اور اس مقدمے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی بریت ثابت ہو گئی جس کی بناءپر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کی سزا کو کالعدم قرار دے کر دونوں کو باعزت بری کر دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ میاں شہباز شریف جھنوں نے عدالت کے ججز کو ڈرا یا دھمکایا تھا اور من پسند فیصلوں کے لئے انھیں مجبور کیا تھا ان کے خلاف اس سنگین جرم پر کونسی عدالتی کاروائی ہوئی تھی؟عدالتوں نے میاں شہباز شریف کے اس جرم پر کیوں مٹی ڈال دی تھی اور ان کا مواخذہ کیوں نہیں کیا تھا؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر تو ہینِ عدالت کے قانون کو لاگو ہو نا ہے تو پھر اسے سب پر لاگو ہونا چائیے۔اگر چند افراد کو اس میں استثنی دے دیا جائے گا اور چند کی گردن ناپ لی جائے گی تو پھر جانبداری پر سوال ضرور اٹھیں گئے۔ ویسے بھی میاں برادران کا مواخذہ کرنے کےلئے بڑا دل گردہ اور جگرا چائیے کیونکہ ایک دفعہ چیف جسٹس سجاد حسین شاہ نے اس طرح کی جرات کرنے کا قصد کیا تھا مسلم لیگ (ن)نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا تھااور چیف جسٹس سجاد حسین شاہ کو اپنی جان بچا نے کےلئے چیمبر میں چھپنا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ پر حملے کی وہ کیسٹ آج بھی موجود ہے، میاں محمد شہباز شریف بھی موجود ہیں،ملک قیوم بھی زندہ ہیں اور سیف الرحمان بھی بقیدِ حیات ہیں لہذا سب سے اہم کام یہ ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کر کے انھیں عبرتناک سزا دی جائے لیکن ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی ایسی کہانیاں منظرِ عام پر آنے کا خدشہ ہے جنھوں نے وکلاءتحریک کے دوران جنم لیا تھا اور جنھیں عوام سے آج تک پوشیدہ رکھا گیا ہواہے۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.