اخبا ر پڑھنے کو اور ٹی وی
دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔کیونکہ ایک مولوی صاحب نے کہا تھا کہ جھُوٹ اور
جھوٹوں سے جتنا ہو سکے دور رہو۔جب بھی ٹی وی دیکھنے کو ملا چاہے کوئی بھی
چینل ہو چاہے کوئی بھی جگہ ہو کوئی بھی وقت ہو۔ہر وقت ہر جگہ مزاحیہ
پروگرام لگے ہیں۔کہیں صاحب کُرسی امیدوارِ کرسی کے پیچھے ہیں۔کہیں امیدوار
صاحب بڑے لوگ کے پیچھے ہیں۔کہیں کھلاڑی ہے بہت سی جگہوں پر اناڑی ہیں مگر
صرف اور صرف ایک دوسرے کو لُوٹ کھسوٹ کا نشانہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایک
دِن ہاتھ پکڑا اور جب دیکھا کہ لوگ دیکھ رہے ہیں تو ہاتھ چھوڑ کر گریباں کی
طرف دھیان کر لیا۔سیاست و حکومت نہ ہوئی لیلہ مجنوں کی محبت ہوگئی کہ کسی
سے کیا ہمیں اپنی پیاس بُجھانی ہے۔ کل تک ساتھ تھے اَب کہتے ہیں کہ انہوں
نے 32ملین روپے دینے ہیں عوام کے ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ معافی مانگ کر گئے
تھے۔اُن پر الزام توہینِ عدالت کا سہی ٹھہرا۔اور اُن پر بھی کئی الزام لگے
۔لیکن ایک بات عوامِ عام کی سمجھ سے کافی باہر ہے۔کہ جب یہ لوگ اپنے مفادات
کے لیے ایک ساتھ مِل گئے تھے تو کیا ایک دوسرے کے عیب نظر نہ آتے تھے ان
کو؟اُس وقت نہ وہ غدار لگے نہ وہ مجرم تو پھر جب اپنا کام نکلوالیا۔اور
جوابدہی کا وقت آیا تو ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو کر عوام کو بیوقوف
کیوں بنا رہے ہیں۔جو بھی کام کیا اپنی فلاح کے لیے کیا۔ ہمیں ذلت و رسوائی
کے سوا کیا ملا؟کسی کو بھی منہگائی اور دہشت گردی کے سوا کُچھ نہیں
ملا۔پاکستان کی شہ رگ کراچی میں خون کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے۔بجلی
استعمال تو دور کی بات ہے اب تو دیکھنے کے لیے بھی میسر نہیں ہے۔اب جو
تماشہ ہونے جا رہا ہے اس کا ایک عندیہ دینا چاہوں گا۔ناقص رائے ہے ۔اور
پاکستان میں غریب و ناقص کی اہمیت بہت کم ہے۔اب یہ لوگ مل کر ایک نیا ڈھونگ
رچا رہے ہیں۔جب سارا وقت لُو ٹنے میں لگادیا اور پانی سر پر سے گزرنے لگا
تو معلوم ہوا کہ عوام کبھی بھی ہمارے ارادوں سے یا قول و فعل سے غافل نہ
تھے۔اب وہ ایک دوسرے کو جان بُوجھ کر سزا دے کر شہیدوں میں شامل کرنا چاہتے
ہیں۔اور مجرم بھی سزا کا طلبگار ہے کہ کوئی بہانہ ملے مگر اب وہ یہ سب ماضی
سے سبق سیکھ کر کر رہے ہیں۔کیونکہ ایسا ہونے سے کیا فائدہ ہوتا ہے یہ اُن
سے سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صرف یہی طریقہ ہے اس
ملک میں جس کے بعد وہ شخص جس کے پاس کُچھ نہ ہو وہ ضرورت سے زیادہ حاصل کر
لیتا ہے۔ویسے اگربڑے میاں صاحب واقعی اُن کے جانے کے طلبگار ہیں تو ابھی تک
حکومت کیوں قائم ہے؟کیا اُن کے پاس اتنی طاقت نہیں؟عوام اب تنگ آگئی ہے اس
تماشے سے۔سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی کسی سے ناراض نہیں۔بس حد بندی کی
گئی۔انہیں ایک دوسرے سے کوئی بھی شکوہ ہوتا تو عوام کے روبرو کرتے۔مل جُل
کر اور بانٹ کر کھایا ہے سب نے ۔لیکن اس امر کے علاوہ اب کوئی حل عوام کے
پاس بھی نہیں کہ جب احتساب کا وقت آئے تو صرف اور صرف عقل سے ماضی کے حالات
کا موازنہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔کیونکہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس میں
آپ لمحوں میں خطا کریں تو سالوں اُس کا انجام آپ کو بھُگتنا پڑتا ہے۔ہم
اپنی آستینوں میں چھُپے سانپوں کو اگر نہ پہچان سکے تو شائد ہم اپنی بقاءکے
قابل بھی نہ رہیں۔خُدا کرے کہ ایسا وقت کبھی بھی نہ آئے۔ |