پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی
حکومت نے اگر چہ پٹرول،ڈیزل،مٹی کا تیل،بجلی،گیس ،گندم،چاول،چینی،گھی اور
دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمر توڑ مہنگائی کرکے گذشتہ ساڑھے چار
سال میں عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔توانائی کے سنگین بحران،انتہائی مہنگی
بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری نے غریب جیالوں کو بھی اپنی عوامی
جمہوری حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔تاہم پی پی پی کے
وفاقی حکمران پھر بھی پرامید ہیں کہ وہ اپنی شاندار کارکردگی کے بل بوتے
پرآئندہ انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔
یہی حال پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ہے۔ پنجاب کے شہروں،قصبوں اور دیہات میں
چوروں،ڈاکوؤں ،اغوا برائے تاوان کے مجرموں اور دیگر سماج دشمن عناصر نے
غریب عوام کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔سرکاری دفاتر
میں رشوت اور سفارش کے بغیر میرٹ پر جائزکام کرانا قطعی نا ممکن بنا دیا
گیا ہے۔دودھ گھی سبزی،پھل،کچن ایٹمز ،بسوں کے کرایوں اور دیگر ضروری اشیا
کی قیمتوں میں بے محابہ اضافہ پنجاب حکومت کی گڈ گورننس پر سوالیہ نشان ہے
پھر بھی میاں برادران اور انکے ترجمان حکومت پنجاب کی تعریفیں کرتے نہیں
تھکتے۔مسلم لیگ ن کے راہنماؤں کو توقع ہے کہ عوام ان کے سستی روٹی
پروگرام،لیپ ٹاپ سکیم،دانش سکولوں،آشیانہ سکیم،فوڈ سٹیمپ پروگرام،ییلو
ٹیکسی سکیم اور دیگر اقدامات کی بنا پر ووٹوں کی بارش کر دیں گے۔ تحریک
انصاف کے قائد عمران خان بھی سونامی کے نشے میں چور بھاری عوامی حمائت کے
دعوے کر رہے ہیں۔ایم کیو ایم ،جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل
الرحمان اور دفاع پاکستان اتحاد کے راہنما بڑے بڑے بلند بانگ وعدے اور دعوے
کرکے عوام کو ووٹ دینے پر قائل اور مائل کر رہے ہیں حتیٰ کہ تانگہ پارٹی کے
کنوارے البیلے اکلوتے کوچوان شیخ رشیدبھی ٹی وی کی سکرینوں پربھاری بھر کم
امید سے ہیں۔صدر مملکت اور عوامی وزیر اعظم کے مشترکہ دورہ جنوبی پنجاب نے
تمام سیاسی مذہبی اور مسلکی جماعتوں کونئے انتخابات کی تیاریوں میں مشغول
کر دیا ہے۔بھر پور انتخابی جنگ کیلئے سب نے لنگر لنگوٹ کس لئے ہیں۔
سیاستدان عوام کو سہانے سپنے دکھا کر امیدوں کی نئی فصلیں بونے میں مصروف
ہیں۔ معصوم اور مظلوم عوام کبھی اسلام ،کبھی پاکستان،کبھی مذہب،کبھی
فرقے،کبھی برادری،کبھی زبان،نسل،رنگ کے نام پر لٹتے ہیں تو کبھی روٹی ،
بوٹی،بوتل،چائے اور دیگر معمولی آسائشوں پر بکتے ہیں۔پی پی پی نے نئی
انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہی سرائیکی صوبے کا اعلان کرکے جنوبی پنجاب کے
اکثریتی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔عوامی جلسوں میں وزیر اعظم
سرائیکی صوبے کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرکے عوام کی ہمدردیاں جیتنے
کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ادھر صدر مملکت وزیر اعظم ہاؤس ملتان میں
مختلف وفود سے ملاقاتیں کرکے دو ٹوک انداز میں انتخابات سے قبل نئے سرائیکی
صوبے کی تشکیل کے دعوے کر چکے ہیں۔انہوں نے سرائیکی بنک کے قیام کا بھی
اعلان کرکے وزیر اعظم کو تمام سیاسی جماعتوں سے نئے صوبے کے نام اوردیگر
میکنزم طے کرنے کیلئے مشاورت کی ہدائت کی۔اس منظر نامے میں بھر پور رنگ
بھرنے کیلئے پی پی پی نے اپنی سوچی سمجھی حکمت عملی پر عمل درآمدشروع کر
دیا ہے۔جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ غریب لوگوں نے خوشحالی
کے نئے خواب سجا کر تعلیم،ترقی،روزگار اور اچھے دنوں کی آس میں پی پی پی کے
اقدامات کو سراہا ہے۔ہم صدر مملکت آصف علی زرداری کی دانشمندانہ سیاسی
پالیسیوں سے اتفاق کی جرأت کرتے ہوئے بجا طور پرتحسین کرتے ہیں لیکن پی پی
پی وسطی پنجاب کی نکمی، نا اہل،نالائق اور ناکارہ تنظیم پر تنقید کرتے ہوئے
اسے پنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی مقبولیت کا ذمہ دار سمجھتے
ہیں۔صدر مملکت اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے اگرہر ماہ پنجاب کے دوروں کا
سلسلہ شروع کریں گے تو شائد پی پی پی پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب
ہو جائے۔وگرنہ امتیاز صفدر وڑائچ اور موجودہ تنظیمی عہدیداروں کے دست و
بازو تو میاں8 شہباز شریف نے کئی با ر آزمائے ہوئے ہیں۔یہ چلے ہوئے کارتوس
توپیپلزپارٹی کے تمام کارکنوں کو متحد،منظم اور متحرک کرنے میں ناکام ہو
چکے ہیں۔امتیاز صفدر وڑائچ اگراپنے گوجرانوالہ شہر میں پی پی پی کا کامیاب
جلسہ منعقد کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تو باقی اضلاع میں خاک کامیابیاں
حاصل کریں گے۔پنجاب میں حکومت بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے صرف
صدر زرداری ہی تمام اضلاع میں بیٹھ کریہ کارنامہ سرانجام دے سکتے
ہیں۔سرائیکی صوبے کے قیام سے پی پی پی کو جنوبی پنجاب کے آئندہ انتخابات
میں کامیابیوں کی تو خوشخبری مل سکتی ہے لیکن وسطی پنجاب میں پی پی پی کا
مسلم لیگ ن کی دیوار سے ٹکرانا کسی کام نہیں آئے گا۔جب تک وسطی پنجاب کی
قیادت بھٹو کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کے پاس رہے گی،پی پی پی
کی ناکامی نوشتۂ دیوار رہے گی۔جیالے کسی صورت ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔ |