حضرات علماء کرام نے تفسیر کی
چند اقسام ذکر کی ہیں۔ تفسیر بالماثور، تفسیر بالمعقول، تفسیربالاحکام،
تفسیر باللغۃ۔
تفسیربالماثور کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی آیات واحادیث کی روشنی میں تفسیر
وتشریح کی جائے جیسا کہ تفسیر ابن جریر، تفسیر ابن کثیر ۔ تفسیر بالمعقول
کا مطلب یہ ہے کہ آیات کی تفسیر معقولات کے ذریعے کی جائے جیسا کہ تفسیر
کبیر۔ تفسیر بالاحکام کا مطلب یہ ہے کہ اُس تفسیر میں خاص اُن آیات کی
تفسیر پر توجہ دی جائے جو آیات ،احکام ومعاملات سے تعلق رکھتی ہوں۔جیسے
تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی۔ تفسیر بالعربیہ میں لغت عرب اور فصاحت
وبلاغت کے نفیس نکات تحریر کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی، تفسیر
البحرالمحیط، تفسیر ابی السعود۔ تفسیر کی ان اقسام کو دیکھنے کے بعد یہ
دیکھنا ہے کہ فتح الجوّاد کسی قسم میں داخل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس
طرح فتح الجوّاد اپنے موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے تاریخی ومثالی تفسیر ہے
جس میں خاص آیات جہاد کو جمع کرکے اُن کی تفسیر وتشریح کی گئی ہے اسی طرح
اپنی اس نوعیت میں بھی بے مثال ہے کہ یہ تفسیر ماثور و معقول اور احکام
وعربیت غرض ہر پہلو سے اپنے ذاتی رجحان واستنباط کے بجائے اکابر مفسرین کے
اقوال وتحقیقات پر مشتمل ہے۔ہر عنوان کے تحت اکابر کی تفسیرات میں جو
عبارات مفید وسہل تر محسوس ہوئی ہیں انہیں زیرقلم لایا گیا ہے اور بہت سے
جدید مسائل سے متعلقہ عبارات جو اکابر کی تحریرات میں دیگر عنوان کے تحت
ضمنی طور پر پائی جارہی تھیں انہیں عصرحاضر کے تقاضے کے مطابق نیا عنوان دے
کر واضح کردیا گیا ہے جس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ جدید مباحث کا حل بھی اکابر
ہی کی تحریرات کی روشنی میں سامنے آگیا ہے اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی زائل
ہوگیا ہے کہ نئے مسائل کے حل کیلئے نئے راستے اختیار کرنے چاہئیں کیونکہ
اکابر کی تحقیقات میں ان کا حل نہیں ملتا لیکن فتح الجوّاد نے ایسے تاثرات
کو زائل کر دکھایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اکابر کی تحریرات وتحقیقات میں
تمام مسائل ومباحث کا حل اور اُن کی تفصیل وتشریح موجود ہے۔
یوں اس تفسیر میں ایک خاص قسم کی جامعیت بھی پائی جاتی ہے اور اس کا مرتبۂ
استناد بھی دوگنا ہوجاتا ہے اور کسی کج رو مزاج کیلئے اس تفسیر کو ٹھکرانے
یا نہ ماننے کاکوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اس تفسیر میں آیت کے ترجمے سے لے
کرخلاصہ ومطلب، لغوی وتشریحی اقوال تک سب اکابر کی عبارات وتحریرات پر
مشتمل ہے۔ گویا اس کتاب کی تالیف سے تفسیر کی ایک نئی قسم وجود میں آتی ہے
جسے ہم تفسیر بالاکابر کے نام سے موسوم کرسکتے ہیں۔
یہ ایک بالکل نیا اور اچھوتا انداز تحقیق وتصنیف ہے اور بظاہر جس قدر آسان
وسہل محسوس ہوتا ہے درحقیقت اس سے زیادہ مشکل اور دقت نظر کا طالب ہے۔ ہر
ہر آیت کے ضمن میں تمام امہات واہم کتب تفسیر کا بالاسیتعاب مطالعہ کرنا
،پھر ہر تفسیر سے خاص متعلقہ عبارت تک رسائی حاصل کرکے اسے درجِ کتاب کرنا،
وسیع وعمیق مطالعے اور اعلیٰ فہم وبصیرت کا متقاضی ہے۔ محض سرسری نظر ڈالنا
یا چند ایک کتب کا مطالعہ کفایت نہیں کرتا۔ کہنے کو تو یہ بات انتہائی آسان
ہے کہ فتح الجوّاد میں کونسا معرکہ سر کیا گیا ہے بس ایک بات اِس کتاب سے
اٹھائی ،کوئی بات فلاں تفسیر سے لی اور کہیں فلاں تفسیر سے عبارت نقل کردی
یہ کیا مشکل کام ہے۔ حالانکہ یہی دقیق کام ہے کہ مختلف تفاسیر سے نکات
ومعارف لئے جائیں لیکن اس خوش اسلوبی واعلیٰ بصیرتی سے کہ نہ تو وہ بالکل
غیرمتعلقہ اور اجنبی محسوس ہوں اور نہ اس طرح کہ بار بار تکرار کی نوبت آتی
رہے۔
تمام کتب تفسیر سے استفادہ کرکے منتخب عبارات کے ذکر سے ایک اہم فائدہ
طالبِ تفسیر کو یہ ہوا ہے کہ اس طرح بہت سی کتب تفسیر کا نام اور ان کے
اسلوب تحریر وانداز سے ایک گونہ واقفیت حاصل ہوجاتی ہے اور اُن تفاسیر کا
ایک معتد بہ حصہ باآسانی سمجھ آ جاتا ہے جس کے بعد اصل کتاب سے استفادہ
کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔
فتح الجوّاد میں جن اردو، عربی کتب تفسیر سے استفادہ کیا گیاہے اُن میں
سرفہرست درج ذیل کتب ہیں۔ اردو میں موضح قرآن، بیان القرآن، تفسیر عثمانی،
معارف القرآن مفتی محمد شفیع،تفسیر حقانی، معارف القرآن مولانا محمد ادریس
کاندہلوی، تفسیرالفرقان مولانا عبدالحئی فاروقی، تفسیر ماجدی، تفسیر ترجمان
القرآن، عربی تفاسیر میں تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر، تفسیر نسفی، تفسیر
قرطبی، تفسیر البحرالمحیط، تفسیر روح المعانی۔
کسی بھی تصنیف کے تحقیقی ومعیاری مرتبے کو جاننے کیلئے درج بالاکتب کا نام
ہی کافی ہے۔ ان میں بعض تفاسیر انتہائی مشکل ودقیق سمجھی جاتی ہیں اور طالب
علم ہی کیا درمیانے درجے کے عالم دین کیلئے بھی براہِ راست ان سے استفادہ
آسان نہیں ہے لیکن فتح الجوّاد میں ان کتب کا ایک معتد بہ حصہ آسان اردو
میں منتقل کرکے طلبہ وعلمائ پر ایک بڑا احسان کیا گیا ہے۔ نیز تحقیق وتصنیف
کے نئے زاویے اورنئی راہیں متعین کی گئی ہیں اور نئے اسلوب متعارف کرائے
گئے ہیں جن سے عصر حاضر کے طلبہ وعلمائ بطور خاص رہنمائی لے کر انہی خطوط
پر کام کرتے ہوئے بہت سی دینی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں اور تصنیف وتالیف
کو ایک نیا فائدہ مند رُخ دے سکتے ہیں۔
اس حقیقت سے کون ناواقف ہے کہ قرآن کے تفسیری نکات ومعارف وہی معتبر ومستند
ہیں جو اکابر واسلاف سے منقول ہیں اور آج کے مفکرین میں جو اعتقادی وفکری
گمراہیاں در آئی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اکابر کی تحقیقات
پر بھروسہ کرنے کے بجائے ہر معاملے کو اپنی ذہنی وفکری حدود اربعہ کے سانچے
میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ یوں جگہ جگہ انہیں ٹھوکریں لگی ہیں اور کئی
مقامات پر ان کے قدم بہک گئے ہیں۔ خصوصاً ان موضوعات میں جن پر مغرب نے بے
تحاشا پروپیگنڈے کی گردوغبار اڑائی ہے نتیجہ ان جدید مفکرین نے اُن سے
مرعوب ہوکر مسلمہ حقائق سے رُخ موڑتے ہوئے اپنی آرائ افکار سے انہیں مطمئن
کرنے کی کوشش کی ہے جس کا حاصل یہ ہوا ہے کہ ان مغربی مفکرین نے تو مطمئن
ہوناتھا نہ وہ ہوئے البتہ بہت سے سادہ لوح مسلمان ان جدید مسلم مفکرین کی
راہ اعتدال وراہ اکابر سے ہٹے ہوئے گمراہ کن افکار سے متاثر ہوئے اور اس
طرح مغربی مفکرین کا پُرضلالت ایجنڈا اپنوں ہی کے ہاتھوں باآسانی انجام پا
گیا۔ اس نئی گمراہانہ روش کو’’ آزادانہ وغیرجانبدارانہ مطالعہ‘‘ کا نام دیا
گیا جس سے ہمارے بہت سے مخلص طلبۂ تحقیق بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے
حالانکہ یہ ’’آزادانہ وغیر جانبدارانہ مطالعہ وتحقیق‘‘ نہیں تھی بلکہ مغرب
سے مرعوب ذہن کی اپروچ تھی اور یہ ایک گہری سازش کا حصہ تھاجس کامقصد
مسلمانوں کے ہاں اپنے علمی اثاثہ کو غیرمعتبر ٹھہرانا ہے۔ جب مسلمانوں کا
اپنے اکابرکے تحقیقی وعلمی سرمائے سے اعتبار اٹھ جائے گا تب انہیں اپنے من
پسند افکار ونظریات کے سانچے میں ڈھالنا اور اپنے گمراہانہ ڈھب پر لا کر
اسلام سے برگشتہ کرنا انتہائی آسان ہوگا۔ اکابر پر عدم اعتماد کا یہ فتنہ
بہت خطرناک ہے اسی لئے قرآن کریم میں ’’صراط مستقیم‘‘ کی وضاحت میں انبیائ،
صدیقین، شہدائ وصالحین کے مقدس طبقے کو ذکرکے اسی فتنے کی سنگینی کا بھی
اشارہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے سدباب کا یہی راستہ بتایا گیا ہے کہ
اکابر پراعتماد ہی نت نئے فتنوں سے حفاظت کا سامان ہے۔جبکہ اصل ’’آزادانہ و
غیرجانبدارانہ مطالعہ و تحقیق‘‘ وہ ہے جس کا بہترین نمونہ فتح الجوّاد میں
پیش کیا گیا ہے کہ جہادی آیات کی تفسیر وتشریح اور نکات ومعارف میں اکابر
واسلاف نے کیا کچھ تحریر کیا ہے۔ بغیر خیانت وبددیانتی کے انہی کے الفاظ
میں ہر مسئلے کا اصلی رُخ پیش کردیا گیا ہے ۔اگر آج کے مسلم مفکرین اور
طلبۂ تحقیق اس روش کو اپنالیں تو بہت سی گمراہیوں اور فتنوں سے حفاظت کا
سامان بھی ہو جائے گا اور امت کو ایک خالص نفع مندتحقیقی وتصنیفی ذخیرہ بھی
ہاتھ آجائے گا۔ |