میں ایک دوست کو جانتا ہوں جس کی ذہانت کا
یہ عالم کے وہ دورانِ طالبِ علم نت ایک نظر کتاب کو دیکھ کر ناصرف سبق
یادبلکہ سبق کے متعلق اپنی آراء بھی پیش کردیا کرتا تھا۔
معلومات کا یہ عالم کہ دنیا بھر کے موضوعات اس کے سطح دماغ پر نقش تھے۔بس
پوچھنے کی دیر تھی۔لکھنے کاانداز اور تحریر سبحان اللہ !اش اش
کراُٹھے۔امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرنا اس کا مزاج بن چکا تھا۔
تقریبا ۱۰ سال کے بعد اس سے ملاقات ہوئی تو ماضی کے تاریک دھندلکوں میں اس
کی تصویر اس کی ذکاوت کے قصوں کو تلاش کرنے لگا ۔لیکن جب اس کی ظاہری حالت
پھٹے پرانے کپڑے ،ہاتھ میں چونا کرنے والا برش ،پینٹ شرٹ پر جگہ جگہ چونے
اور رنگ کے نشانات اس کے بے بسی کا پتا دے رہے تھے۔
خیر چھوڑیں :مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ کہ مزید اس کی آب بیتی سناؤں۔اک بات
سوچنے کی ہے ،کبھی غور کیا آپ نے ۔۔۔۔۔
اگر آپ اتنے ذہین ہیں تو پھر معاشی طور پر آپ اتنے کمزور کیوں ہیں ؟ اتنی
پتلی حالت کیوں ہے؟یہ سوال بڑا عام اور سادہ سا نظر آتا ہے کیونکہ معاشرے
میں عمومی خیال یہی ہے کہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی کا چولی دامن کا
ساتھ ہے، تاہم ہالینڈ میں ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ذہانت زندگی میں
کامیابی میں مدد نہیں کرتی بلکہ الٹا اس کے آڑے آتی ہے، اس موضوع پر کئے
جانے والے ایک تحقیقی مقالے و مطالعے کے ڈچ پروفیسر برنک یہ سوال اٹھاتے
ہیں کہ آخر اس ذہانت کا فائدہ کیا ہے کہ اچھی تنخواہ اور اعلیٰ نوکری کے
باوجود کوئی ذہین شخص قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے
کیلئے انہوں نے یورپ کے شماریات کے مرکزی ادارے کی جانب سے کئے جانے والے
ایک سروے کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے جس میں ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ نوجوان
خواتین و حضرات سے ان کے حالات زندگی کے بارے میں 25 سوالات پوچھے گئے تھے،
اس سروے کے سائنسی جائزے سے انہیں معلوم ہوا کہ انسانی ”آئی کیو“ میں ایک
سکورکے اضافے کا مطلب ہے سالانہ آمدنی میں اوسطاً334 یورو کا اضافہ، اس کی
مثال، یوں سمجھی جاتی ہے کہ اگر کسی کا آئی کیو 100 اور سالانہ آمدنی 60
ہزار یورو ہے تو اس فارمولے کے تحت 120 آئی کیو والے شخص کی سالانہ آمدنی80
ہزار یورو کے لگ بھگ ہوگی، تاہم اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ
آئی کیو والے افراد زیادہ پیسہ ضرور کماتے ہیں لیکن وہ اس پیسے کو بچا نہیں
پاتے اور آخر میں ان کی مالی حالت کم آئی کیو والوں سے زیادہ مختلف نہیں
ہوتی اور جہاں تک معاشی پریشان حالی کا معاملہ ہے زیادہ عقل یہاں بالکل بے
کار ثابت ہوتی ہے وہ لوگ جن کا آئی کیو 140 سے زیادہ ہے (یعنی انتہائی ذہین
لوگ) وہ کم آئی کیو (یاد رہے کہ اوسط آئی کیو 100 ہوتی ہے) والے افراد کے
مقابلے میں قرضے کی قسطیں ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کے دیوالیہ ہونے
کی شرح 15.1 فیصد ہے جو محض80 آئی کیو والے افراد کے قریب ہے یہاں یہ بھی
واضح رہے کہ 80 آئی کیو والے افراد کند ذہن افراد میں شامل ہوتے ہیں،
پروفیسر برنک کی تحقیق کے مطابق صرف وہ لوگ معاشی بدحالی سے نسبتاً بہتر
طریقے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں جن کی آئی کیو 100 سے تھوڑی سی اوپر ہو، تحقیق
نے یہ ثابت کیاہے کہ زیادہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی لازم و ملزوم نہیں
ہے اس لئے کم ذہانت والے افرادبھی معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں
اس کیلئے یہ آسٹریلوی پروفیسر ایک ”بقراطی ٹوپی“ بنارہے ہیں، آسٹریلیا کی
یونیورسٹی آف سڈنی کے پروفیسر ایلن شنائڈر اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس ٹوپی
پر تحقیق کررہے ہیں، ان کا کہناہے کہ ہم سب میں ہرطرح کی صلاحیتیں خفتہ
حالت میں موجود ہوتی ہیں لیکن ہمیں ان صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا طریقہ
معلوم نہیں ہوتا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے چیزیں مہمیز کرتی ہیں، ایک تو مجھے
خیالات کی ساخت جاننے کا شوق ہے کہ آخر ذہن کا بنیادی نقشہ اور بنیادی
ڈھانچہ کیا اور کیونکر ہے؟ اور دوسری چیز یہ ہے کہ مجھے دنیا کی حقیقی
تصویر دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے، ہم چیزوں کے اندازے اور تخمینے لگاتے ہیں
اس کے بجائے اہلیت جاننا کتنا اچھا ہوگا، ہمارا ہر وقت آسمان کی طرف دیکھنا
تو بند ہوگا، وہ کہتے ہیں کہ سوچنے والی اس ٹوپی پر تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ
ان اعلیٰ صلاحیتوں کو صرف ایسے موقعوں پر بروئے کار لایاجائے جب ان کی
ضرورت ہو، ٹوپی کے اندر ننھے منے مقناطیس لگے ہوئے ہیں جو سوچ کی لہروں کو
متاثر کرتے ہیں، تجربات کے دوران سائنس دانوں نے دماغ کا فنکارانہ صلاحیتوں
سے مالا مال حصہ بیدار کردیا اور بایاں حصہ وقتی طور پر بند کردیا، واضح
رہے کہ ذہن کا بایاں حصہ بنیادی طور پر وقتی یادداشت اور زبان وغیرہ سے
متعلق ہوتا ہے اور تجزیاتی فرائض انجام دیتاہے، یہاں ماہرین نے اس بات کی
بھی نشاندہی کی ہے کہ دنیا میں95 فیصد کم عقل بندوں سے عقل مند ترین لوگ
رقم اور روپے ،پیسے کی طاقت کو مانتے ہیںاوراس طاقت کے کرشمے کو لاشعوری
طور پر سمجھتے ہیں، ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر اختلافات اور قتل و
غارت کا سبب بھی کسی نہ کسی طرح دولت ہی قرار پائی ہے، پیسہ انسان کیلئے
اگرچہ بنیادی ضرورت کی حیثیت نہیں رکھتا لیکن اس کی اہمیت سے بھی انکار
ممکن نہیں، بہت سے لوگ تو (ان میں، میں بھی شامل ہوں) زندگی میں اسے اہمیت
نہیں دیتے لیکن معاشرے میں زندہ رہنے اور اپنی شناخت برقرار رکھنے کیلئے
بھی ضروری خیال کرتے ہیں، ماہرین نے یہ بھی دیکھا ہے کہ روپے، پیسے کی
موجودگی باقاعدہ ”بلڈکیمسٹری“ میں تبدیلی پیدا کرتی ہے، جدید طبی، نفسیاتی
اور جنیاتی تحقیق کے مطابق جیب میں پیسے کی موجودگی انسانی طبیعت میں فرحت
اور تازگی پیدا کرتی ہے ۔موڈ میں تبدیلی کے اس عوامل پر ہونے والی تحقیق کے
مطابق عورتیں اس عمل سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جو مردوں سے79 گنا زیادہ ہے،
خانگی مسائل کی زیادہ وجہ بھی جیب میں پیسے نہ ہونا ہے کیونکہ ماہرین
نفسیات کا کہناہے کہ پیسے سے ایسے بہت سے مسائل دب جاتے ہیں جو عام حالات
میں لڑائی جھگڑوں اورعلیحدگی کا سبب بنتے ہیں اور آئے روز کے قتل و غارت
میں بھی غربت کا کہیں نہ کہیں ہاتھ نظر آتا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ
وہی سماج طویل عرصہ تک زندہ رہتاہے جو غریب و کمزور کے تئیں حساس ہو۔
کیا کہتے ہیں آپ ؟میں ٹھیک عرض کیا ؟تو پھر مایوس نہ ہوں اس اعتدال کو
رائج کریں جو اس فرق ،اس دوری کا باعث ہے ،اخوت ،رواداری ،محبت کو پروان
چڑھاءیں ،ایثار کو اپنی ذات کاحصّہ بنا تو پھر دیکھیں
چمن میں پھول کھلیں گٔے۔ |