لیاری آپریشن کی ناکامی زرداری کی سیاست پر کار ی ضرب

صدر زرداری گزشتہ ڈھائی دہائیوں سے پاکستانی سیاست میں سرگرم ہیں۔ وہ ہمیشہ سیاسی جوڑ توڑ کا ماہررہے ہیں، جس کا ثبوت شدید نظریاتی و مفاداتی اختلافات کے باوجود4 سال کے دوران مختلف الخیال جماعتوں اور افراد کو اپنے ساتھ مجتمع رکھ کر، تمام اداروں کے ساتھ ٹکر لینا اور اپنی حکومت کو برقرار رکھنا ہے۔ لیکن سیاست بڑی بے رحم ہے، کبھی کبھی یہ بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھی چند لمحوں میں چت کردیتی ہے اور زندگی بھر کی شہرت خاک میں مل جاتی ہے۔

اسی طرح کی صورت حال لیاری آپریشن کے بعد صدر زرداری اور ان کی جماعت کوبھی درپیش ہے۔ پاکستان کے معاشی دل کراچی کے مرکز میں واقع قدیم شہری علاقہ، لیاری تقریباً 14 لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔ لیاری میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قیام سے اب تک لیاری ہمیشہ اس کا گڑھ رہا ہے۔ حالاں کہ لیاری کے ترقیاتی کاموں، وہاں کی غربت، بدحالی، بیروزگاری، جرائم پیشہ افراد کی بھرمار اور دیگر مسائل کو مدنظر رکھا جائے تو تقریباً 45 سال سے لیاری والوں کی پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی سوالیہ نشان ہے۔ لیاری سے ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بیگم نصرت بھٹو مختلف ادوار میں منتخب ہوئے ،جو اہلیان لیاری کی پیپلز پارٹی سے جذباتی وابستگی کا اظہار تھا۔ اسی محبت کی وجہ سے بےنظیر بھٹو نے لاڑکانہ کی بجائے اپنی رخصتی کے لیے لیاری کا انتخاب کیا۔ 2007ءمیں بےنظیر بھٹو کی وطن واپسی کے وقت بھی ”جانثاران بےنظیر بھٹو“کے دستے میں لیاری والوں کی ہی اکثریت شامل تھی۔ اور بم دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق لیاری سے تھا۔ بے نظیر بھٹو اور لیاری والے ایک دوسرے کے لیے یک دل و یک جان تھے ۔حالیہ آپریشن اور صدر زرداری کے چند سالہ اقدام نے لیاری میں تقریباً پیپلز پارٹی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ حالیہ آپریشن کی اصل وجہ صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی ہی نہیں بلکہ اس کا ملکی سیاست سے بھی گہرا تعلق ہے۔

ذرائع کے مطابق کالعدم پیپلز امن کمیٹی اور پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے دوران اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا، جب کمیٹی کے سربراہ عبدالرحمن بلوچ (ڈکیت) ایس ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کے ساتھ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیاتھا۔ تاہم اس کے بعد پیپلز پارٹی نے لیاری کے عوام کے غم وغصے کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کی قیادت سے روابط بڑھادیے اوروہ ایک مرتبہ پھر لیاری کو پیپلز پارٹی کا حامی بنانے میں کامیاب ہوئی۔ سابق وزیر داخلہ سندھ اور پیپلز پارٹی کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے لیاری میں جلسہ عام میں اعلان کیاتھا کہ پیپلز امن کمیٹی پارٹی کا ذیلی ونگ ہے۔ انہوں نے ان مبینہ جرائم پیشہ افراد کو اپنے بچے قرار دیا۔ 2011ءمیں صدر زرداری نے لیاری کے بلوچوں اور کچھی برادری کے لوگوں کی بلاول ہاﺅس میں صلح کرائی ،جس کے بعد کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے راہ نما ظفر بلوچ کو پیپلز پارٹی ضلع جنوبی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیاگیا۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پارٹی سربراہ نے براہ راست اتنی نچلی سطح پر خود تقرری کی ہو۔جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ امن کمیٹی کے قیام کا بنیادی مقصد شہر میں دیگر مسلح گروپوں کا مقابلہ کرنا تھا، جس کی تصدیق کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ اور ظفر بلوچ نے بھی کی اور انہوں نے کہاکہ انہیں اسلحہ شہر کی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے مقابلے کے لیے دیا گیا تھا۔

دراصل لیاری گزشتہ 60 سال سے ہی جرائم کے حوالے سے ہمیشہ سوالیہ نشان بنارہا ہے۔ لیکن امن کمیٹی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ2007ءمیں جرائم پیشہ افراد کا عبدالرحمن بلوچ نے خاتمہ کرکے، لیاری کو پرامن بنایا۔ اور اس سے قبل لیاری میں نصف درجن کے قریب مختلف گروپ کام کرتے تھے، جن کے درمیان مختلف ادوار میں تصادم ہوئے اور ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 2007ءمیں عبدالرحمن بلوچ نے دیگر تمام گروپ کا خاتمہ کرکے لیاری کے بیشتر علاقوں میں اپنا کنٹرول جمایا، جو آج تک قائم ہے۔ حالیہ آپریشن کی ناکامی کی بڑی وجہ یہی رہی کہ پولیس اور انتظامیہ نے غیر جانبدارانہ آپریشن کرنے کی بجائے ماضی کے متحرک گروپوں کو اپنے ساتھ شامل کیا، جن کے بارے میں لیاری کے لوگ شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ اوروہ کھلے عام کہتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں موجودہ گروپ ہر حوالے سے بہتر ہے۔

لیاری آپریشن کے حوالے سے مختلف اسباب بتائے جاتے ہیں۔جن میں لیاری کے حلقے سے صدر زرداری کے منہ بولے بھائی سید اویس مظفر شاہ عرف ٹپی کے آئندہ الیکشن میں لیاری کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ109 انتخابات میںسے حصہ لے کر سندھ کے وزیراعلیٰ بننے کا خواب، ایک حکومتی اتحادی جماعت کی طرف سے آپریشن کا مطالبہ اور امن کمیٹی کی پیپلز پارٹی سے لاتعلقی کے بعداس کا دیگر سیاسی جماعتوں سے روابط شامل ہیں۔ جہاں تک اتحادی جماعت تعلق ہے ،انہوں نے روز اول سے امن کمیٹی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن کا مطالبہ کیا تھا، لیکن ہر مرحلے پر حکومت اسے ٹالتی رہی ۔

اختلافات میں عروج کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ2011ءمیں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے راہ نماﺅں نے صدر زرداری سے ملاقات کی اور لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری کو قرار دیا، جس پر صدر نے انہیں 2 ہزار ملازمتیںدلانے کی یقین دہانی کرائی اور فوری طور پر 500 ملازمتیں دینے کا حکم دیا۔جس کے بعد70 ملازمتیں لیاری جنرل اسپتال کودی گئیں، جو مقامی لوگوں میں مبینہ طور پر قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کی گئیں۔ جس پراتحادیوں نے احتجاج کیا ۔پھرملازمتوں کی فراہمی کا سلسلہ رک گیا ، اس پر امن کمیٹی کے لوگ ناراض ہوئے جس کا اظہاروہ مختلف اوقات میں کرتے رہے، لیکن پیپلز پارٹی نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ویسے بھی 2008ءکے عام انتخابات کے بعد لیاری سے منتخب ہونے والے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی نبیل گبول، رفیق انجینئر، سلیم ہنگورو کا لیاری میں داخلہ ممنوع ہوچکا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سید اویس مظفر عرف ٹپی نے لیاری میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کیا، جس کے لیے انہوں نے مبینہ طور پر صدارتی کیمپ بلاول ہاﺅس میں موجود سیکورٹی انچارج اکرم بلوچ اور دبئی میں موجود رﺅف بلوچ کو متحرک کرنے کی کوشش کی،جو کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے لیے چیلنج سے کم نہیں تھا۔ اسی دوران اویس مظفر سے امن کمیٹی کے لوگوں نے ملاقات کی۔ عزیر جان بلوچ کے مطابق سید اویس مظفر عرف ٹپی مجھے 20 کروڑ روپے دے کر خاموش ہونے کی ہدایت کی، جس پر انہوں نے کہا کہ چند کروڑ روپے مجھ سے لے لیں اور لیاری کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

2012ءکی ابتدا سے ہی لیاری کے حالات پیپلز پارٹی کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتے گئے ،کیوں کہ لیاری میں امن کمیٹی انتہائی متحرک ہوچکی تھی ۔27 اپریل 2012ءکو آپریشن کے آغاز سے قبل صدر زرداری نے لیاری کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور پولیس حکام کا اجلاس بلایا۔ جس میں بعض افراد نے یہ دعویٰ کیا کہ لیاری میں آپریشن ضروری ہے اور لوگ کالعدم امن کمیٹی سے سخت پریشان ہیں۔ اگر مناسب سطح پر پولیس کے ذریعے ہی چند افراد کا خاتمہ کیا جائے تو پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر لیاری پر قابو پالے گی، عوام پیپلزپارٹی کے لیے بے تاب ہیں۔ ملزمان کی فہرست میں 14 سے 28 افراد کے ناموں کا بھی ذکر ہوا۔سی آئی ڈی کے پولیس افسر چودھری اسلم کا لیاری آپریشن کی نگرانی کے لیے انتخاب کیا گیا ۔مگر آپریشن کے آغاز سے قبل کوئی مناسب حکمت عملی اختیار کی گئی اور نہ ہی رینجرز کو استعمال کیا گیا۔

رینجرز کے استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ آپریشن کرنے والی قوتوں کا اصرار تھا کہ رینجرز مخصوص افراد کے خلاف مخصوص انداز میں کارروائی کرے اور ایک مخصوص حد سے باہر نہ جائے۔ جب کہ رینجرز کا موقف تھا کہ وہ اس طرح کی جانبدارانہ کارروائیوں کے ذریعے اپنے آپ کو بدنام نہیں کرانا چاہتی، وہ جب بھی کارروائی کرے گی بلا امتیاز کرے گی۔ آپریشن کا آغاز 24 یا 25 اپریل کو ہونا تھا جس کی اجازت صدر زرداری نے دی تھی، لیکن 26 اپریل کو سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے توہین عدالت کے متوقع فیصلے کے حوالے سے تاخیر کی گئی۔ 26 اپریل کو فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے مقامی راہ نما اور سابق نائب ناظم ملک محمد خان نے وزیراعظم کے حق میں مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو اس دوران انہیں مسلح افراد نے قتل کردیا۔ جس کے بعد27 اپریل 2012ءکی صبح سے آپریشن کا آغاز ہوا۔ پولیس 8 روز تک مختلف دعوﺅں اور اعلانات کے باوجود چیل چوک سے چند قدم آگے نہیں بڑھ سکی۔ اوریوں پولیس کے تمام دعوے اور اعلانات دھرنے کے دھرے رہ گئے۔ آپریشن میں 3ہزار سے زائد پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے شرکت کی۔ لاکھوں گولیاں استعمال ہوئیں۔ مجموعی طور پر 10 سے زائد بکتر بند اور 60 سے زائد دیگر گاڑیوں نے آپریشن میں حصہ لیا ،جن میں سے ایک تہائی مزاحمت کاروں کے حملے کے نتیجے میں تباہ ہوئیں۔ 27 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے ایک ایس ایچ او اور 5پولیس اہلکار شامل ہیں ۔جب کہ 70 کے قریب افراد زخمی ہوئے جن میں2 ڈی ایس پی اور 20 سے زائد پولیس اہلکار شامل ہیں۔

دوسری جانب جرائم پیشہ افراد کا نقصان دیکھا جائے تو وہ پولیس کے مقابلے میں کم ہے۔ جرائم پیشہ افراد نے ہرطرح کا جدید اسلحہ استعمال کیا۔ ان کی طرف سے سخت مزاحمت ہوئی، راکٹ فائر کیے گئے اور پولیس کو اندرونی علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے آپریشن طوالت اختیار کرگیا اور پھر طوالت کی وجہ سے ایسا تاثر ملا کہ لیاری میں آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف نہیں بلکہ بلوچوں کے خلاف ہے۔ اس تاثر کے منظر عام پر آتے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا، جس کا دائرہ سندھ کے مختلف شہروں اور بلوچستان تک بڑھا۔اس کی بازگشت قومی اسمبلی، پنجاب اور دیگر علاقوں میں بھی سنائی دی، جس سے یقینا جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ یوںپیپلز پارٹی اور انتظامیہ کی غلط حکمت عملی نے لیاری کے جرائم پیشہ افراد کے نگراں کو کراچی میں بلوچوں کا لیڈر بنادیا۔

وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کی سخت کارروائی، ہتھیار پھینکنے کی دھمکیاں اور اعلانات بھی حسب معمول ” ٹائیں ٹائیں فش“ کی صورت میں سامنے آئے۔ 3مئی کو2012ءرات 11بجے وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں پریس کانفرنس میں جرائم پیشہ افراد کو ہتھیار پھینکنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا۔جب کہ 4 مئی 2012ءکو آپریشن بند کرنے کا اعلان کردیا۔ عبدالرحمن ملک نے اپنی بے لگام زبان کو استعمال کرتے ہوئے لیاری کے واقعات کو بلوچستان کے علیحدگی پسندوں، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ او رکالعدم تحریک طالبان پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی، جو غلط ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند، امن کمیٹی کے شدید مخالف ہیں۔کیوں کہ امن کمیٹی نے گزشتہ پانچ سال کے دوران بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو کراچی کے بلوچ علاقوں میں قدم جمانے نہیں دیے اورسلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد یہی بلوچ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا تے ہوئے امریکی قونصل خانے پہنچے اوروہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔انہوں نے اپنے علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی چاکنگ اوران کی سرگرمیوں ختم کردیں۔ ہاں ممکن ہے کہ” دشمن کا دشمن، دوست “کے مصداق بلوچ علیحدگی پسندوں اور امن کمیٹی میں اب اتحاد ہو۔ یہی صورت حال کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے بھی ہے۔ عملی طور پر حالیہ مزاحمت میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ حکومت اور انتظامیہ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس طرح کی باتیں کررہی ہے۔

مجموعی طور پرلیاری پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بلوچوں کی موجودہ پارٹی قیادت سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپریشن کے دوران الخدمت، فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن، ایدھی فاﺅنڈیشن اور پیپلز پارٹی نے امدادی کیمپ قائم کیے۔ دیگر کیمپس میں متاثرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی، لیکن لیاری کے لوگ پیپلز پارٹی کے امدادی کیمپ سے امداد تک حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اگرچہ جنگ بندی میں بلوچستان کی اہم شخصیات نے کردارادا کرکے لیاری میں پیپلزپارٹی کو بچانے کی کوشش کی ہے،لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔

ن لیگ، پیپلز پارٹی(ش ب)،تحریک انصاف سمیت مختلف جماعتیں کالعدم امن کمیٹی سے رابطے میں ہیں، تاہم کالعدم امن کمیٹی کے راہ نما جن کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کی جاچکی ہیں، کا جھکاﺅ ن لیگ کی طرف ہے۔ اس حوالے سے 8 مئی2012ءسے شروع ہونے والے نواز شریف کے دورہ سندھ کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ 9 مئی کو وہ لاڑکانہ جائیں گے، جہاں سندھ نیشنل فرنٹ کو مسلم لیگ( ن )میں ضم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا،جس کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے کزن اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کی کچھ اور د شخصیات بھی مسلم لیگ( ن) میں شمولیت کے لیے کوشاں ہیں۔امکان یہی ہے کہ مسلم لیگ( ن )سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور لیاری آپریشن کے بعد، سندھ کے مختلف علاقوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف ہونے والے احتجاج نے ن لیگ کے حوصلے مزید بلند کردیے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کے دعوے کے مطابق آپریشن میں 48گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے، جو (اتوار) شام کو ختم ہورہی ہے ۔لیکن درحقیقت یہ مہلت نہیں بلکہ آپریشن کا خاتمہ ہوا ہے ۔اوریہ مذاکرات کاروں کا دیاہوافارمولا ہے۔ اس فارمولے کے تحت جانبین اپنی اپنی عزت بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر زرداری اور ان کی جماعت لیاری کے عوام کو کالعدم امن کمیٹی سے دور کرنے میں ناکام رہے ہیں جوصدر زرداری اورپیپلز پارٹی پر کاری ضرب ہے جس کا اثر یقیناکی ملکی سیاست پربھی پڑے گااور آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے لیے مزید مسائل کھڑے ہوں گے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 107060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.