ہماری ویب کی ہمیشہ یہی خُواہش ہُوتی ہے کہ
نئے لکھنے والوں کی زیادہ سے زیادہ حُوصلہ افزائی کی جاسکے تاکہ نئے لکھنے
والوں کو یہ شکایت نہ رہے کہ ہمیں موقع مُیسر نہیں آیا ورنہ ہم بھی اُردو
ادب کی خِدمت سے سرشار تھے اس لئے مضامین کی فہرست میں ایک نئے باب ،،
افسانہ ،، کا اِضافہ کیا جارہا ہے اِس تالاب میں پہلا پتھر میں پھینک رہا
ہُوں جیسے جیسے آپکی تحریریں شامِل ہُوتی چلی جائینگی یہ تالاب بھی اپنی
وسعت میں اِضافہ کرتا چلا جائے گا اور مجھے قوی اُمید ہے کہ ایک دِن یہی
تالاب ایک دریا کی صورت اِختیار کر جائے گا
آپ سب کی محبتوں کا منتظر،،، عشرت اقبال وارثی
عامِل کامِل اور ابو شامِل
وہ دروازے پر دَستک دینے کے بعد چند لمحے انتظار کرتا رہا جب اندر سے کافی
دیر تک کوئی آواز سُنائی نہ دِی تو اُس نے لکڑی کے دروازے کو دوسری مرتبہ
پھر کھٹکٹا دِیا دِسمبر کا مہینہ اور سَردی کی شِدت کی وجہ سے تمام گَلی
رات کے دس بجے ہی سُنسان دَکھائی دے رہی تھی البتہ کبھی کبھار کُتوں کے
بھونکنے کی آواز ماحول پر طاری خَاموشی کے انجماد کو پِگھلا دیتی تھی اور
کُچھ دیر بعد پھر خَاموشی کا راج قائم ہُوجاتا تھا۔
دوسری دَستک دینے کے چند لمحوں بعد اندر سے کُچھ کھٹر پٹر کی آواز سُنائی
دی جِس سے دِستک دینے والے کو یقین ہُونے لگا تھا کہ ضرور اندر کسی کو میرے
وُجود کا احساس ہُوچُکا ہے اور یہ خُوش آئیند بات تھی ورنہ آج شہر کے ایک
کِنارے سے دوسرے کنارے تک کا سفر رائیگاں ہی چَلا جاتا، دروازے کے پیچھے سے
کسی کی نحیف آواز سُنائی دِی کُون ہے بھائی؟
آواز سُنتے ہی دَستک دینے والے نوجوان کی جان میں جان سمائی اور جواباً کہا
میاں صاحب میں ہُوں کمالا آپ سے مِلنا چاہتا ہُوں! لیکن ہَم تُو کِسی کمالے
کو نہیں جانتے۔ میاں شائد آپ غلط جگہ پر آگئے ہیں۔ دروازے کے پیچھے سے پھر
وہی نحیف سی آواز سُنائی دی۔
میاں صاحب میں شیدے کا دوست کامل ہوں میرا مطلب ہے عبدالرشید کباڑی کا دوست
کامل علی ہُوں مجھے اُسی نے آپکا پتہ بتایا ہے۔ اور میں شہر کے دوسرے سِرے
سے صرف آپکی زیارت کیلئے حاضر ہُوا ہُوں۔ کامِل علی نام کا یہ شخص اپنی بات
مکمل کرنے کے بعد اپنی شال کو دُرست کرنے لگا گھر کے باہر کھڑے کھڑے کامِل
علی کا جِسم قلفی کی طرح جَمنے لگا تھا۔
اچھا میاں ٹہرو میں دروازہ کھولتا ہُوں ویسے کامل دیکھنے کا اِشتیاق تو
ہمیں بھی ہے ۔ مزید کچھ لمحے توقف کے بعد اند سے دروازہ کھول دِیا گیا ۔اندر
کچھ ملجگی سی روشنی میں ایک دُبلا پتلا سا بوڑھا شخص جسکی عُمر کا اندازہ
کامِل علی نے نوے اور سو برس کے دمیان لگایا برآمد ہُوا۔ آتے ہی کامِل علی
کا پہلے بغور جائزہ لینے کے بعد اُکتاہٹ کے انداز میں گھورتے ہُوئے درشت
لہجے میں گویا ہُوا ۔کہو میاں کیسے آنا ہُوا ؟
رات کے اِس پہر کامِل علی شائد اپنے اس طرح کے استقبال کیلئے ذہنی طور پر
بالکل تیار نہیں تھا۔ لہذا گھبراہٹ کے عالم میں میاں صاحب کی دست بوسی کرتے
ہُوئے صرف اِتنا ہی کہہ سکا میاں صاحب بس کچھ خاص نہیں صرف آپکی زیارت کی
سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے رات کے اِس پہر آپ کو تکلیف دِی اِس
کیلئے مُعافی چاہتا ہوں۔
ہُوں۔۔۔۔ زِیارت کیلئے آئے تھے۔ تُو ہوگئی زِیارت ْ۔۔۔۔ ؟ میاں صاحب کے
استفسار پر کامِل علی کے مُنہ سے (جی) کے سِوائے کوئی دوسرا جملہ نہیں نِکل
سکا کامِل علی کے خاموش ہُوتے ہی میاں صاحب الوداعی مصافحہ کیلئے ہاتھ
بڑھاتے ہُوئے کچھ بے زاری کے عالم میں گوُیا ہُوئے میاں اب ایسا کرو اب
اپنے گھر جاؤ خود بھی آرام کرو اور مجھے بھی آرام کرنے دُو مُصافحہ سے
فارغ ہُو کر میاں صاحب نے اندر واپس جانے کے بعد دروازہ بند کرلیا۔
کامِل علی چند لمحے وہاں بھونچکا سا کھڑا رَہا اور پھر واپس پلٹ کر اپنے
گھر کی جانب چِل دیا کامِل علی تمام راستے غَم اور ناکامی کی مِلی جُلی
کیفیت کیساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا چِلا جارَہا ہے میاں صاحب کے برتاؤ کی
وجہ سے کامِل علی کافی دلبرداشتہ تھا وہ اپنے دوست عبدالرشید عرف شیدے کے
کافی اصرار کے بعد میاں صاحب سے ملنے کیلئے راضی ہُوا تھا ۔
کامِل علی کا بھری دُنیا میں شیدا وہ واحِد دُوست تھا کہ جِس سے کامِل علی
اپنی نجی زندگی سے متعلق کُھل کر گُفتگو کر لیا کرتا تھا شیدا بھی اُن
لوگوں میں سے نہیں تھا جو یہاں کی بات وہاں کردے اور شیدے کی یہی بات کامِل
علی کو بے حَد پسند تھی چُنانچہ کامِل علی نے شائد ہی اپنی زندگی کا کوئی
ایسا باب ہُو کہ جس کے متعلق شیدے سے گُفتگو نہ کی ہُو چُونکہ شیدے کو
معلوم تھا کہ کامِل علی ایک مُدت سے عملیات کے سحر میں گرفتار ہے اور اکثر
چِلہ کشی میں مصروف رِہتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آج تک کسی ایک عمل
میں بھی کامِل علی کو کامیابی نصیب نہ ہُوئی تھی۔
وہ اکثر کامِل علی کو اِن عملیات کے چکر سے نکلنے کی ترغیب دیتا رہتا تھا
اور اُسے محنت مزدوری کی جانب مائل کرنے کی بیشُمار کوشش کرچُکا تھا لیکن
کامِل علی جیسے گویا اِن نصیحتوں کو سُننے کے لئے قطعی تیار نہیں تھا کامِل
علی اکثر شیدے سے کہا کرتا ، یار صرف ایک چلہ کامیاب ہونے دے پھر تُو دیکھے
گا کہ کیسے ہم تمام دُنیا پر حَکومت کرتے ہیں اور یہ لوگ جو آج ہم سے کترا
کر گُزر جاتے ہیں ہمارے آگے پیچھے گُھوما کریں گے اور مجھے نرگس کے باپ سے
بھی تُو اپنی ذلت کا انتقام لینا ہے۔
شیدے نے کامِل علی کو بتایا تھا کہ میاں صاحب بُہت خُدا ترس انسان ہیں اور
دُکھی انسانوں کی مدد کی خَاطر ہرِ لمحہ تیار رِہتے ہیں جبکہ یہاں تو
معاملہ ہی اُلٹا تھا میاں صاحب نے اُسکی مدد کرنا تُو کُجا اُسکی بات سُننا
بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ اور کامِل علی سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مہمان نوازی
کا طریقہ ہے اور کیا یہی خُدا ترسی ہے کہ میاں صاحب نے میری بات بھی سُننا
گوارا نہیں کیا۔
کامِل علی اِنہی سوچوں میں اپنے گھر کی جانب چلا جارہا تھا اور ایک عجیب سا
بے عزتی کا احساس کامِل علی کے دِل میں گھر کرچُکا تھا اُسے اپنے دوست شیدے
پر بھی بے پناہ غُصہ آرہا تھا۔ یہ تو اچھا ہُوا کہ شیدا ساتھ نہیں آیا تھا
ورنہ وہ اگر اس وقت کامِل علی کی دسترس میں ہُوتا تو شائد کامِل علی اپنی
خِفت مِٹانے کیلئے شیدے کی گرن ہی دَبا ڈالتا ۔سردی نے اگر چہ تمام ماحول
کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا لیکن کامِل علی موسم کی شدت سے بے نیاز اپنے
گھر کی جانب رواں دواں تھا۔
گھر پُہنچنے کے بعد جب کامِل علی کے غُصے میں کُچھ کمی واقع ہُوئی تو سردی
کا احساس بیدار ہُونے لگا کامِل علی کو چائے کی طلب ستانے لگی لیکن جونہی
کامِل علی نے گیس کے چولہے پر پانی کی دیگچی چُڑھا کر چولہا جلانے کی کوشش
کی تو معلوم ہُوا کہ گیس سلینڈر خالی ہُوچُکا تھا۔
کامِل علی نے اپنا غُصہ نِکالتے ہُوئے ایک لات خَالی سلنڈر کو رَسید کی اور
پھر چارپائی بِچھا کر رضائی میں دُبک گیا کافی کوشش کے بعد بھی جب نیند کی
دیوی کامِل علی پر مہربان نہ ہوئی تو کامِل علی اپنی ناکامیوں سے بھری
زندگی کے ایک ایک ورق پر نِگاہ دوڑانے لگا اور یوں وہ اپنے بچپن کے اُس
حِصہ میں پُہنچ گیا جہاں غَم نام کی چُڑیا سے عموماً بچّے بے خبر ہُوتے
ہیں۔
کامِل علی آٹھ برس کا تھا جب اُس نے ایک انہونی بات محسوس کی تھی کہ پہلے
اَبا اکثر شام کو پانچ بجے کے بعد دفتر سے گھر آیا کرتے تھے لیکن اب چند
دِنوں سے وہ دیکھ رَہا تھا کہ اَبا اپنے آفس نہیں جا پارہے تھے اور سارا
دِن وہ چارپائی پر پڑے رہنے لگے تھے ایک دِن اَمّاں سے جب کامِل علی نے
اِسکا سبب پوچھا تو اَمّاں نے بتایا تھا کہ اُسکے ابو کا ٹی بی کا مرض ہُو
گیا ہے جس کے سبب وہ اپنے آفس نہیں جاپارہے تھے ۔ پھر رفتہ رفتہ اَبا کی
طبیعت بحال ہُونے لگی تھی اَمّاں کے چہرے پر بھی اطمینان دِکھائی دینے لگا
تھا مگر ایک دِن نجانے کیا ہُوا کہ ابا کی طیعت اچانک پھر سے بگڑنے لگی اور
شام تک ابا کو خُون کی اُلٹیاں آنے لگیں۔
اَمّاں جیسے تیسے کسی ڈاکٹر کو پَکڑ لائیں تھیں لیکن ابّا نے ڈاکٹر کا قطعی
انتظار نہیں کیا اور ڈاکٹر کے آتے آتے اَبّا نے ایسی خاموشی اِختیار کی کے
اَمّاں کی چیخُوں اور سینے پر لاکھ سر پٹکنے کے باوجود یہ خَاموشی نہ ٹوٹی
کامِل علی نے اپنی ماں کو روتے دیکھا تُو وہ بھی رونے لگا لیکن کامِل علی
یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخِر کیوں اَمّاں اِتنا واویلا مَچارہی ہے اور
کیوں اَمّاں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ آج شام سے اُسکا بیٹا بھوکا ہے۔
اور اِس بات کا مُنتظر ہے کہ وہ اِسے اپنے ہاتھوں سے روٹیاں پکا کر ہمیشہ
کی طرح بڑے لاڈ اور چاؤ سے کھلائے۔
رات بھیگتی چلی گئی لیکن اَمّاں پر بار بار غَشی کے دُورے پڑ رہے تھے مُحلے
کی عورتیں اَمّاں کو دِلاسہ دے رہیں تھیں اور کبھی کبھی وہ بھی اَمّاں
کیساتھ بین کرنا شروع کردیتیں پھر جب اَمّاں کے مُنہ سے یہ نِکلا کہ ہائے
میرا بچّہ یتیم ہُوگیا تو کامِل علی سوچنے لگا کہ یہ یتیم کیا ہُوتا ہے
تبھی اُن کی پڑوسن کی نِگاہ کامِل علی پر پڑی تُو اُس نے بڑھ کر کامِل علی
کو اپنی گُود میں بِٹھا لیااور اُسے پیار کرنے لگی کامِل علی سے اب بھوک
بالکل برداشت نہیں ہُوپارہی تھی ممتا کا اِحساس ملتے ہی اُسکے مُنہ سے
نِکلا خالہ مجھے بُھوک لگ رہی ہے اَمّاں سے کہو نا کہ مجھے رُوٹی دے۔
پَڑوسن نے جب کامِل علی کی بات سُنی تُو اُسکی ممتا بیدار ہُوگئی اور ،ہائے
میرا بَچّہ ابھی تک بھوکا ہے۔ کہتے ہوئے کامِل علی کو اپنے گھر لے آئی اور
اُسے پیٹ بھر کر کھانا کھلانے لگی ، بھوک کا احساس جب کُچھ کَم ہُوا تُو
کامِل علی نے پَڑوسن سے پُوچھا خالہ اَماں آج اِتنا کیوں رُو رہی ہے اور
سارے مُحلے کی عورتیں بھی اَمّاں کیساتھ کیوں رُو رہی ہیں۔
تب وہ پَڑوسن اُسے بڑے پیار سے سمجھانے لگی کہ بیٹا اب تُمہارے اَبّا اِس
دُنیا میں نہیں رہے وہ اللہ تعالٰی کے پاس چلے گئے ہیں کامل علی کی سمجھ
میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ جب اَبّا گھر میں چارپائی پر سُورہے ہیں تُو
وہ اللہ تعالٰی کے پاس کیسے چَلے گئے لیکن جب دوسرے دِن لوگ اُسکے اَبّا کو
نہلا دُہلا کر قبرستان کی جانب لے گئے اور اُسکی آنکھوں کے سامنے اُسے قبر
میں اُتار چُکے تو اُسے کُچھ کُچھ سمجھ آنے لگا تھا۔
(جاری ہے) |