کتابوں کا اتوار بازار۔6 مئی، 2012

مسکرا دے، قصہ امید کردے مختصر

گزشتہ ایک پوسٹ میں خاکسار نے ”استفادہ حاصل کیا“ کی ترکیب استعمال کی ہے۔، اہل دانش اعتراض کریں گے کہ اس میں لفظ ’حاصل‘ کا بیجا استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں میں اس غلطی پر اعتراف جرم کرتا ہوں، کاتب کے سر بھی یہ وبال نہیں ڈالا جاسکتا کہ مذکورہ روداد کا کاتب بھی خود ہی ہوں۔ اپنی اس غلطی پر حضرت مولانا غلام قادر کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے، واقعے کے راوی ہیں مولانا عبدالمجید سالک جنہوں نے ایک مرتبہ مولانا غلام قادر سے نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی کی شاعری کے بارے میں مولانا کا خیال دریافت کیا ، جواب ملا: ” خامی میں پختہ ہوگیا ہے۔“ اور سالک صاحب اس جامع مانع رائے کو سن کر پھڑک اٹھے۔

خدا نہ کرے کہ اس وضاحت کو پڑھنے والے پھڑک اٹھنے کے بجائے بھڑک اٹھیں!

اتوار بازار کا احوال لکھتے ایک برس بیت چلا ہے، ادھر ایک کرم فرما نے اتوار بازار کی ان رپورٹوں کو کتابی شکل میں شائع کروانے کا مشورہ دیا ہے۔ خاکسار کے زیادہ تر مضامین غیر مطبوعہ ہیں اور بہتیروں کو لکھ کر اور پال لگا کر ایک طرف ڈال دیا ہے۔ شائع ہوگئے تو ٹھیک بصورت دیگر بقول خامہ بگوش ”آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ “ (ایک ادیب کے گھر لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں ان کی مطبوعات کے خاکستر ہوجانے پر رد عمل )

اس مرتبہ کے اتوار بازار میں "حاصل بازار" کتابوں میں سرفہرست ہندوستان کے شاعر جناب کلیم عاجز کی خودنوشت ‘جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی" رہی، ایسے کتنے لوگ ہوں گے جن کی زندگیوں میں بیان کرنے لائق رنگا رنگ واقعات ہوں گے اور جو تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے کرتے شاید ایک دن یہ سوچیں کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔

برسبیل تذکرہ، کلیم عاجز کی دوسری خودنوشت "ابھی سن لو مجھ سے" ہے، سٹی پرنٹ، نئی دلی نے اس کتاب کو 1992 میں شائع کیا تھا۔

اس کے علاوہ نقوش کے 1964 میں شائع ہوئے آپ بیتی نمبر (حصہ دوم) کا ملنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔ "محمد نقوش" نے مذکورہ نمبر دو حصوں میں شائع کیا تھا۔ دونوں حصوں کے صفحات کی کل تعداد 1856 کے قریب ہے۔ راقم کو اسی بازار سے ایک برس قبل مذکورہ پرچے کا پہلا حصہ ملا تھا۔

علی الصبح بازار سے کتابوں کی خریداری مکمل کرنے بعد ہم لذت کام و دہن کی آزمائش کی خاطر کراچی صدر کی مشہور صابری نہاری کا قصد کیے چند احباب کی معیت میں نکلا ہی چاہتے تھے کہ ایک کرم فرما نے رستہ روکا اور سرگوشی کے انداز میں کہا " چپکے سے چلے آئیے"

فوری طور پر خیال آیا کہ شاید کسی کتاب کی قیمت ادا ہونے سے رہ گئی ہے اور کتب فروش نے سربازار آواز لگا کر مرکز رسوائی بننے سے بچانے کی خاطر ان کرم فرما کو بھیج دیا ہے کہ مشکیں کس کر لے آئیے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک ایسی جگہ لے جاکر کھڑا کردیا جہاں کلیم عاجز کی خودنوشت اور نقوش میز پر دھرے تھے۔

انتہائی مطلوبہ کتابوں کا ملنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ اچانک زد میں آجائے۔

کتابوں کو ہاتھ میں تھام کر اک نگاہ التجانہ بازار کے سب سے گھاگ کتب فروش پر ڈالی:

مسکرا دے، قصہ امید کردے مختصر
یا بڑھالے چل ذرا سی بات کو افسانہ کر

اس کا دل پسیجا، قصہ امید مختصر ہوا، دام مناسب کیے . . . بصورت دیگر نوبت عموما" بہ ایں رسید :

میں وہ شعلہ تھا جسے "دام" سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہ "دام" تھے ،مجھے کھا گئے

کتابیں بغل میں داب، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی کی سب سے قدیم نہاری کی دکان کے سامنے بیٹھے ہیروئن کے نشے میں چور چند ہیرونچی اپنے سامنے کھڑے پانچ افراد کو ملتجیانہ نظروں سے اس سے بات سے بے خبر انہیں دیکھ رہے تھے کہ وہ پانچوں ”ادب” کے نشے میں چور ہیں۔

نہاری کھانے کے بعد جب احباب کو دکان کے باہر کھڑے گفتگو کرتے آدھ گھنٹہ گزر چلا، تو سید معراج جامی صاحب نے یک دم سے کہا: "" بھئی اب چلو! اونٹ کروٹ بدل رہا ہے۔""

نہاری اونٹ کے گوشت ہی کی تو تھی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابوں کی تفصیل اس طرح سے ہے:

جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی
خودنوشت
کلیم عاجز
عرشی پبلیکیشنز دہلی
سن اشاعت: 1981

image

 صاحب
شخصی خاکوں کا مجموعہ
محمد طفیل
ناشر: ادارہ فروض اردو لاہور
سن اشاعت: 1964

image

 نقوش-آپ بیتی نمبر
جون 1964
مدیر: محمد طفیل
حصہ دوم۔صفحہ-837 تا 1856

image

اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقا
الطاف فاطمہ
اردو اکیڈمی سندھ کراچی
سن اشاعت: 1961

image

عکس ناتمام
شخصی خاکوں کا مجموعہ
رحمت روحیلہ (ہر مال بیس روپیہ کی 'لاٹ' سے)
ناشر: امانت اکادمی کراچی
سن اشاعت: 2006

image

قائد اعظم محمد علی جناب-میری نظر میں
حسن اصفہانی
یاداشتیں (ہر مال بیس روپیہ کی 'لاٹ' سے)
ناشر: روٹا پرنٹ ایجنسی- کراچی
سن اشاعت: 1968

image
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.