ترقی یافتہ اقوام میں ایک بڑی
بُرائی یہ پائی جاتی ہے کہ پس ماندہ اقوام کو آئینہ دِکھا دِکھاکر اُن کا
سُکون غارت کرتی ہیں یعنی عمل کی تحریک دیتی رہتی ہیں! مغربی اقوام میں بھی
یہی خصلت پائی جاتی ہے۔ خود بھی بہت کچھ کرتی رہتی ہیں اور دوسروں کو بھی
آرام سے نہیں رہنے دیتیں! اُن کی دیکھا دیکھی غریب اقوام کو بھی محنت کرنے
پر مجبور ہونا پڑتا ہے! ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ پس ماندہ اقوام کے لوگوں
کو سُکون سے زندگی بسر کرتے دیکھ کر ترقی یافتہ اقوام کے لوگ جَلتے ہیں۔ ہر
ترقی یافتہ معاشرے میں بہتر اور پُرسُکون زندگی بسر کرنے کے لیے دن رات ایک
کرنا پڑتے ہیں، عشروں تک کیریئر کو پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ اب اگر کسی کو یہ
سب کچھ بیٹھے بٹھائے مِل جائے تو محنت کرنے والوں سے بھلا کِس طور ہضم ہوگا؟
مغرب اور دیگر ترقی یافتہ خطوں میں لوگ طرح طرح کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے
ہیں اور پھر بڑے اہتمام سے اُن تمام حرکات کو ریکارڈز کی ایک کتاب میں درج
کیا جاتا ہے جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کہتے ہیں! اِس کتاب میں درج ہونے
والے بہت سے ریکارڈز آئے دن ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ہم تو آج تک سمجھ نہیں پائے کہ
جب کِسی ریکارڈ کو ٹوٹ ہی جانا ہے تو اُسے درج کرنے اور کِسی کو کریڈٹ دینے
کا فائدہ کیا ہے! مگر خیر، ترقی یافتہ اقوام کے ایسے ہی چونچلے ہوا کرتے
ہیں۔ اِسی لیے تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے گریز کرتے ہیں!
جب کوئی باضابطہ کتاب موجود ہو اور اُس میں اندراج بھی بر وقت کیا جاتا ہو
تو لوگ اوٹ پٹانگ سوچیں گے ہی نہیں، اُس پر عمل بھی کریں گے۔ تھائی لینڈ کے
ایک باورچی نے کھولتے تیل سے ایک منٹ میں مرغی کے بیس ٹکڑے کسی چیز کی مدد
کے بغیر محض ہاتھ سے نکال کر گنیز بک میں نام لِکھوا لیا ہے۔ وہ جس
ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے وہاں آنے والوں کو یہ تماشا دِکھاکر روزانہ خوب
داد پاتا ہے!
ریکارڈ قائم کرنے کا شوق بھی ایک ایسا جُنون ہے جس کا کوئی سَر ہے نہ پیر۔
کہیں تیس چالیس باورچی مل کر ڈھائی تین سو کلو کا کیک تیار کرتے ہیں، کہیں
پانچ ہزار انڈوں کا آملیٹ تیار کیا جاتا ہے، کہیں چند سَر پھرے مل کر ڈیڑھ
دو من کا برگر تیار کرنے پر تُل جاتے ہیں! اب اِنہیں کون سمجھائے کہ کیک
اور برگر کھانے کی چیزیں ہیں، ریکارڈ بناکر تصویریں کھنچوانے کی نہیں!
ہم نے دیکھا تو نہیں، بزرگوں سے سُنا ہے کہ کراچی کے علاقے لالو کھیت
(لیاقت آباد) میں کوئی غنی بھائی ہوا کرتے تھے۔ وہ عجیب و غریب قسم کے خانہ
ساز یعنی دیسی ساختہ ”ریکارڈز“ ایک بڑے رجسٹر (جرنل) میں درج کرلیا کرتے
تھے۔ اِس رجسٹر کو لوگوں نے ”غنی بھائی کی کتاب“ کہنا شروع کردیا۔ روایت ہے
کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کا آئیڈیا غنی بھائی کی کتاب ہی سے چُرایا گیا
تھا!
ہم سبھی گنیز بک میں درج ریکارڈز سے متاثر ہونے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارے ہاں یاروں نے کیسے کیسے ریکارڈز قائم کئے ہیں؟
مگر صاحب! ہم اپنے لوگوں کو عزت کیوں دینے لگے؟ گھر کی مُرغی دال برابر
ہوتی ہے نا! ہمارے ہاں کوئی سورج بن کر بھی چمکے تو کوئی نہیں دیکھتا اور
دوسروں کے اندھیرے کی بھی رفتار ناپی جاتی ہے! ہمارے ہاں کوئی درخت سے
اُلٹا لٹک جائے تو گالیاں پڑتی ہیں۔ اور گورے ایسا کرتے دکھائی دیں تو
”ایڈونچر اِن ریئل لائف“!
آنکھوں سے کاجل چُرانا تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔ یہ عمل بھی ریکارڈز کا حصہ
بن سکتا ہے۔ مگر ہم ایک ایسے عمل سے واقف ہیں جو آنکھوں سے کاجل چُرانے سے
زیادہ دُشوار ہے۔ عم زاد غضنفر خان عرف گجن کو اللہ سلامت رکھے۔ ہمیں اُن
کا لڑکپن اور جوانی کے درمیان کا زمانہ یاد ہے۔ چھوٹا سا گھر اور اُس سے
بھی چھوٹا سا باورچی خانہ۔ اسکول سے واپسی پر غضنفر خان چولھے پر چڑھی ہوئی
پتیلی سے بوٹیاں اِتنی تیزی اور نفاست سے اُڑایا کرتے تھے کہ تھائی لینڈ
میں کھولتے تیل سے چکن پیس ہاتھ سے نکالنے والا باورچی بھی دیکھتا تو اپنے
فن پر نادِم ہوتا! کمال فن یہ تھا کہ اِدھر والدہ کی نظر چُوکتی اور اُدھر
غضنفر خان چولھے پر رکھی پتیلی سے بوٹیاں لے اُڑتے! یہ سب کچھ لمحوں میں
ہوتا تھا، کوئی منٹ دو منٹ کا ٹائم نہیں ملتا تھا! اگر آج غنی بھائی زندہ
ہوتے تو اُن کی کتاب میں یہ ریکارڈ ضرور درج ہوتا!
اسکول کے سامنے کھڑے ہوئے ٹھیلوں سے، دوستوں کے ساتھ مل کر، ہم امرود،
ناشپاتی، بیر وغیرہ اِس خوبصورتی اور نفاست سے ”پار“ کیا کرتے تھے کہ اگر
اِن حسین وارداتوں کا ریکارڈ رکھا جاتا تو آج ہم بھی سیلیبریٹیز کی صف میں
کھڑے ہوتے!
ہمارے ہاں بیشتر تقاریب اپنی نوعیت کے اعتبار سے ریکارڈ بنانے کے مقابلوں
سے کم نہیں ہوتیں! شادی کی تقریب میں کھانا کُھلتے ہی لوگ جس تیزی سے پلیٹ
میں سبھی کچھ بھر لیتے ہیں وہ بجائے خود ریکارڈ سے کم نہیں! اور یہ ایسا
ریکارڈ ہے کہ ٹوٹتا، بنتا رہتا ہے۔ قورمے کی بوٹیاں، فرائیڈ چکن، کباب،
بریانی سَبھی کچھ پلیٹ میں لبالب بھرنے کے بعد اُسے تیزی سے معدے میں
دھکیلنے کا مقابلہ شروع ہوتا ہے اور اِس مرحلے کے ریکارڈز بھی آئے دن
ٹوٹتے، بنتے ہیں۔
کھانے پینے کی اشیاءبڑی تعداد میں ٹھونسنا تو خیر ایک انفرادیت ہے ہی، اِس
سے ایک قدم آگے بڑھ کر شروع ہوتا ہے مختلف النوع اشیاءکو ہضم کرنے کا
مقابلہ۔ کبھی برنس روڈ جائیے تو اندازہ ہوگا کہ یہ قوم کِس طرح دہی بڑے،
چکن تکہ، بوٹی، شیر مال، بریانی، کھیر، فیرنی، لسی، آئس کریم اور فالودہ
ایک ساتھ کھاتی اور ہضم کرتی ہے! اگر کہیں کھانے میں ورائٹی ہضم کرنے کا
مقابلہ ہو تو برنس روڈ کا باقاعدگی سے چکر لگانے والا کوئی بھی گھرانہ
عالمی ریکارڈ قائم کرسکتا ہے! ویسے تو خیر ”جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب
ہے“ مگر ہمیں یقین ہے کہ اِس معاملے میں میمن برادری پاکستان کا نام خاصا
روشن کرسکتی ہے!
اگر آپ علی الصباح کام پر جاتے ہیں تو خوب اندازہ ہوگا کہ ذرا سی بس میں
پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حِصّے کا سَما جانا کیا ہوتا ہے! بس میں لوگ
جس تعداد میں اور جس رفتار سے سوار ہوتے رہتے ہیں وہ منظر بجائے خود ایک
ریکارڈ کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر بس خود بھی کہہ دے کہ میں مُجھ میں اب گنجائش
نہیں تب بھی کنڈکٹر اُس میں مزید دو چار مُسافر سوار کرا ہی دے گا! غنی
بھائی کی کتاب کا احیاءہو تو یہ ریکارڈ بھی اُس کا حصہ ہوگا۔
شاپنگ سینٹرز اور بیوٹی پارلرز کے چکر لگانا ایک ایسا معاملہ ہے جو خواتین
کے درمیان مقابلے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ مگر اِس حوالے سے ریکارڈز درج
کرنا درست نہیں۔ خواتین کا شاپنگ سینٹرز اور بیوٹی پارلرز جانا ایک
لامتناہی سلسلہ ہے، ایک اتھاہ ساگر ہے۔ غنی بھائی کی کتاب ختم ہو جائے گی
مگر یہ ریکارڈز ختم نہیں ہوں گے!
اور سب سے بڑھ کر وقت کو ٹھکانے لگانے کے ریکارڈز کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں
لوگ وقت اپنا اور دوسروں کا وقت ٹھکانے لگانے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں، سو
سو جتن کرتے ہیں اور ریکارڈز توڑتے بناتے رہتے ہیں! اور مزے کی بات یہ ہے
کہ اِس معاملے میں اپنی ”عظمت“ کا خود اُنہیں بھی احساس نہیں!
معاملات اور بھی بہت سے ہیں اور ریکارڈز ہیں کہ ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں۔
مگر کیا کیجیے کہ اب غنی بھائی رہے نہ اُن کی کتاب! پاکستانی قوم کی
”شاندار“ کارکردگی اندراج سے محروم ہے! |