شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کیا ہوتا ہے؟ پارٹ ۔ 2

لو جناب! بارات لیکر دولہا صاحب روانہ ہوگئے لڑکی والوں کی طرف۔ اگر راستہ لمبا ہے اور کسی دوسرے شہر برات لیکر جانا ہے تو راستے بھر ریفریشمنٹ کے لیے بھی دولہا بیچارے کی جیب پر وقتا فوقتا چھری چلتی رہتی ہے ۔ کہیں چپس اور سلانٹی تو کہیں پیپسی اور ڈیو، یا پھر کچھ اور ۔ نیا دولہا بیچارا یہ درد بھی ہنس ہنس کر بر داشت کر جاتا ہے کہ دلہن جو بیاہ کر لانی ہوتی ہے ۔ دوسرے شہر یا شادی ہال کو بارات کی روانگی کے وقت ایک اور مسئلہ یہ ہو تا ہے کہ کسے کار میں بٹھایا جائے اور کسے بس یا ویگن میں۔ ہر کوئی اپنے آپ کو وی آئی پی تصور کر تے ہوئے کار میں بیٹھنے کا خواہش مند ہو تا ہے۔ جبکہ کاروں پر عموما دولہا کے دوستوں یا اسکے اپنے گھر والوں کا قبضہ ہو تا ہے۔ خیر جناب ! یہ مرحلہ بھی بڑی مشکل سے طے ہو تا ہے۱ ورراستے بھر دولہا کو اپنی ہم جول کاروں او ر بسوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی بس، ویگن یا کار والا غلط روٹ پکڑ کر کہیں غائب نہ ہو جائے۔

دلہن کے گھر یا شادی ہال میں پہنچ کر دولہا صاحب موسٹ وانٹڈ پرسن بن جاتے ہیں اور ہر کوئی انکی ایک جھلک دیکھنے کو یوں بیتاب رہتا ہے جیسے امیتابھ بچن یا ودیا بالن کو دیکھنا ہو۔ محلے بھر کی خواتین اور لڑکیوں کا منظور نظر (صرف اس ایک دن کا) دولہا صاحب کچھ اکڑا، کچھ شرمایا لجایا سا اسٹیج کے صوفے پر ایسے برا جمان ہوتا ہے جیسے شہزادہ سلیم تختِ شہنشاہی پر تشریف فرما ہوں (صرف ایک دن کے لیے)۔یا پھر موصوف کئی مربع زمین کا سودا کر کے آیا ہو۔ کچھ دیر بعد جنا ب نکاح سے پہلے ایک سائڈ پر بیٹھ کر شرط و شرائط لکھی جاتی ہیں مثلا: زیور لڑکے کا مگر لڑکی کے نام، مکان لڑکے کا مگر لڑکی کے نام، پیسہ ٹکا لڑکے کا مگر جیب خرچ لڑکی کے نام۔ پھر لاکھوں کا حق مہر علیحدہ سے بحق لڑکی لکھوا لیا جاتا ہے، دیگر شرط و شرائط علا قے کے حساب سے علیحدہ ہوتی ہیں۔ دولہا اس موقع پر صرف قبول ہے ، قبول ہے، قبول ہے کی آواز نکالتا ہے، اس دن اس بیچارے کی باقی تمام آوازیں بند ہو چکی ہوتی ہیں۔ نکاح کے بعد سب لوگ دولہا کو بغلگیر ہوکر مبارک باد دینا عین عبادت اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں اور بیچارے پر ایسے جھپٹتے ہیں جیسے چیل گوشت پر جھپٹتی ہے۔ کئی جگہ پر تو وزن زیادہ ہونے پر اسٹیج ٹوٹ کر زمین پر آرہا ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کے بعد دولہا سے کسی نے نہیں ملنا ہوتا۔ کچھ پہلوان قسم کے لوگ in some cases سنگل پسلی دولہے کو اس زور سے بھینچ دیتے ہیں کہ بیچارہ حجلہ عروسی جانے سے پہلے ہسپتال جا پہنچتا ہے۔ ایسے موقع پر کنوارے حضرات دولہا کا ہاتھ سر پر پھروانا اور ملنا بطورِ خاص باعثِ فخر سمجھتے ہیں تاکہ انکی بربادی کی باری بھی جلد آئے۔ جیسے ہی دولہا اس کاروائی سے فراغت پاتا ہے تو انتظار میں بیٹھی تیسری جنس یعنی خواجہ سرا دولہا اور اسکے حواریوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ماہیے، سہرا اور دوہڑے گانا شروع کر دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دولہے کے کان، گال اور بال نوچنا اور بلائیں لینے کے ساتھ ساتھ نت نئے القابات سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔ آخر کار انسے بھی کچھ دے دلا کر ہی جان چھوٹتی ہے۔ ایسے مواقع پر بڑے بڑے مولوی اور پارسا حضرات بھی گڑوی والیوں کے ساتھ حد سے تجاوز کر تے پائے جاتے ہیں اور پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ یہ موقع کونسا روز روز آتا ہے۔

نکاح اور کھانے کے بعد پھر جناب باری آتی ہے رخصتی کی۔ دولہا اور دلہن کو ساتھ ساتھ بٹھا دیے جاتے ہیں اور ایک بار پھر سب کی نظریں مستقبل کے جورو غلام یعنی دولہا پرکہ اس بیچارے کی درگت بننی ہوتی ہے۔ جوتا کھینچا جانا ہے، دودھ پلانا ہے، نوٹ جھاڑنے ہیں۔ دلہن کا کیا کہ آرام سے بنی سنوری بیٹھی ہے۔ سب سے پہلے دولہا کو چھٹانک بھر دودھ پلا کر پورے لاکھ کا تقاضا کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ دولہا بیچارے کے اٹلی یا ڈان کارلوس کے جوتے پر بھی زور آزمائی شروع ہوجاتی ہے۔ساتھ ساتھ گانا شروع ہو جاتا ہے کہ پیسے دے دو جوتے لے لو۔ ا ب دولہا بیچارے کی ایک ٹانگ ہوتی ہے اور کھینجنے والے درجن بھر لوگ۔ آدھے لڑکی والے اور آدھے لڑکے والے۔ اس چکر میں اکثر دولہا بیچارہ اپنی ٹانگ سہاگ رات سے پہلے ہی اتروا بیٹھتا ہے۔ان دودھ پلائی اور جوتا اترائی مہم کے دو شو سے فراغت بھی کچھ دے دلا کر ہی ملتی ہے۔ لڑکی والے لاکھوں سے شروع ہوکر قالین والے پٹھان سیل مین کی طرح ہزاروں پر آکر سودا طے کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اکثر بیچاری دلہن کی بہنیں اور کزنیں جو اس بولی میں پیش پیش ہوتی ہیں انہیں اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ایک لاکھ میں کتنی صفر لگتی ہیں؟۔ خیر جناب! سودا طے کر لڑکی کا ہاتھ لڑکے کے ہاتھ میں دیکر انہیں ٹور دیا جاتا ہے اور ساتھ تاکید کی جاتی ہے کہ یہ ہاتھ اب کبھی نہ چھوڑنا کیوں کہ ہاتھ چھوڑنے پر تو پھڈا ہو جاتا ہے نہ۔ دلہن والے اپنی دلہن کو قرآن پاک کے سائے میں رخصت کر تے ہیں جبکہ ساتھ چلتے دولہے پر صرف اللہ کا سایہ ہوتا ہے۔ د لہا بیچارہ خوشی خوشی دل میں لڈو پھوڑ کر دلہن کا ہاتھ تھام کر اپنے ادھر ادھر ہوئے براتی دوبارہ سے جوڑ کر کے اپنے گھر کی راہ لیتا ہے اور کوشش کرتاہے کہ جلد ازجلد گھر پہنچ کر اس ماہ نور کا دیدار کرلے بس!

پر ابھی کہاں جناب ! ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ گھر کے دروازے میں گھستے ہی بیچارے دولہے کو پھر کسٹم والوں کی طرح روک لیا جاتا ہے۔ اب جناب گیٹ روکائی اور تیل کی رسم۔ اسکے لیے بھی کوئی بہن صاحبہ یا کوئی کزن پہلے سے مخصوص کی گئی ہوتی ہیں اور و ہ سینہ تان کر سانڈ کی طرح دروازے میں اڑ کر کھڑی ہوجاتی ہیں کہ پہلے پیسے دو پھر اندر آنے دونگی۔ بالآخر انتہائی زور و شور کے بحث و مباحثے کے بعد یہاں بھی معاملات رشوت سے ہی طے پاتے ہیں پھر اندار آنے کی اجاز ت ملتی ہے۔ لیکن ٹہریے ابھی کہاں! یاد آیا کہ صدقے کی مرغی یا حیثیت کے مطابق گوشت یا بکرا شکرا بھی تو وارنا ہے نہ کیونکہ مصیبت کے وقت یہی صدقہ ہی کام آتا ہے۔(مطلب آپ سمجھ گئے ہونگے؟) اور جناب اسکے پیسے بھی دولہے کی جیب سے ہی جاتے ہیں۔ اسکے بعد جوڑی کو گھر لاکر آفٹر میرج ڈرامے شر وع ہوجاتے ہیں۔ شیشے میں ایک دوسرے کے چہرے دکھانے کی مضحکہ خیز سی رسم ادا کی جاتی ہے، جس میں ظاہر ہے کہ لیپا پوتی شدہ دلہن ہی جیتتی ہے۔ اگلے روز جب منہ دھلتا ہے تو دولہا بھی پریشان ہوجاتا ہے کہ یہ میر ہی بیوی ہے یا کوئی گھر میں کام کر نے والی ماسی۔ خیر جناب اسکے بعد کھیر کھلائی کی رسم کی باری آتی ہے۔ اس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر (کیونکہ بعد میں تو ساری عمر آدمی کا ہاتھ ہی چلنا ہوتا ہے) منہ سے کھیر کھانی ہوتی ہے ، اس کھیر کھلائی کی رسم میں بھی دولہا کی خوب درگت بنتی ہے اور یہاں پر بھی اسے کھیر کے پیسے پکانے والی بہن کو پے کر نے پڑتے ہیں۔ مہمانوں کے ساتھ دولہا اور دلہن کی تصاویر اور مووی بنوائی جاتی ہے تاکہ یادگار رہے۔ اسکے علاوہ مختلف علاقوں کے رواج کے مطابق دیگر اور بھی کئی قسم کی رسومات ادا کی جاتی ہیں اور پھر کہیں آدھی رات کے بعد ہی دولہا بیچارہ مہمانوں کو رخصت کرکے لاکھوں میں پڑی دلہن کے پاس پہنچ پاتا ہے۔

اس فلم کا آخری سین و لیمہ ہوتا ہے اور دولہا بیچارہ گلے مل مل کر مبارکبادیں لے لے کر تھک چکا ہوتا ہے۔ اگر کھانا شادی ہال والوں کے ذمہ ہو تو ٹھیک، اگر کھانے کا انتظام خود کیا گیا ہو تو اس بیچارے کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں کھانا کم نہ پڑجائے اور بار بار پکانے والے نائی اور دیگوں کو جھانکتا رہتا ہے یا شادی ہال والوں کے پیچھے رہتا ہے کہ کوئی چیز کم نہ رہ جائے۔ اس بیچارے کا ایک پاﺅں مہمانوں پاس ہوتا ہے تو دوسرا نائی کے پاس۔ کسی کو برف لینے دوڑا رہا ہوتا ہے، کسی کو نان لینے کو تو کسی کو سلا د لینے کو۔ اس چکر میں بیچارے دولہے کا اچھا خاصا گھن چکر بن چکا ہوتا ہے اور متوقع آمدنی میں بھی خاصی کمی واقع ہو جاتی ہے کہ لوگ کھا پی کر دائیں بائیں سے نظر بچا کر، دولہے کو نہ پاکر ایویں ہی نکل جاتے ہیں بغیر کچھ لیے دیے۔ولیمہ سے فراغت پاکر ٹینٹ والے کا تمام سامان لسٹ کے مطابق واپس کرانا ہوتا ہے کیونکہ اگر کو ئی سامان مِس ہو تو اسکی قیمت بھی دولہے کو ادا کر نی پڑتی ہے۔یہاں بھی جاتے جاتے کئی مہمان اگر کھانے کی تعریف کر تے ہیں تو کچھ منہ پھٹ مہمان شکایتوں کے انبار بھی دولہا بیچارے کے سر لاد جاتے ہیں۔

تمام کام نمٹا کر مہمانوں کو رخصت کر کے دن بھر کا تھکا ہارا دولہا رات کو استراحت کے لیے کمرے میں پہنچ کر اپنی نئی نویلی دلہن سے ٹانگیں دبانے کی فرمائش کرتا ہے تونئی بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ میں بھی اسٹیچو کی طرح سارا دن بیٹھ بیٹھ کر تھک چکی ہوں، پلیز ! ذرا میری کمر تو دبادیں۔اسکے بعد تا عمر اس دولہے بیچارے پے کیا گزرتی ہے یہ آپ سب اپنے اپنے اباﺅں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

اب کچھ ٹوٹے : برطانیہ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق بیویاں شوہروں سے زیادہ اپنے پالتو کتوں اور جانوروں کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ تو پھر۔۔۔۔۔۔ ؟؟ اسکے علاوہ جاپانی لوگ تو ویسے ہی شادی سے یرکتے ہیں کہ کون جھنجٹ میں پڑے شادی اور بچوں کے ، یوں وہاں مین پاور کی شارٹیج ہور ہی ہے۔۔۔۔۔ ویسے سنا ہے کہ جاپانی بیویاں ہوتی بہت وفادار ہیں۔ تو پھر چلیں جاپان شادی کرنے کو؟؟۔ اب اگر بات کریں یورپ کی تو یہ لوگ ویسے ہی شادی کے نام سے بھاگتے ہیں کہ کون ساری عمر کے لیے گلے میں یہ (عورت) گھنٹی باندھے۔ لہذا وہ لو گ کچھ عرصہ ساتھ رہتے ہیں ، جب دل بھر جائے تو دونوں خوشی خوشی الگ ہو جاتے ہیں یا پھر انجلینا جولی اور براڈ پٹ کی طرح پانچ بچے ہونے کے بعد شادی کر لیتے ہیں ۔ارے ہاں ایک اور بات یا د آئی کہ فلپائن کے ایک علاقے کی بیویوں نے انوکھا فیصلہ کیا کہ انکے علاقے میں لڑائی ختم ہونے تک وہ شوہروں کو اپنے پاس نہیں پھٹکنے دیں گی۔ کیسا ؟؟

تو دیکھا جناب آپ نئے شادی کے شوقین حضرات نے کہ دولہا بننے کے لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تو کیا آپ اب بھی دولہا بننا پسند فر مائیں گے؟؟
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247515 views self motivated, self made persons.. View More