نعت موضوعی صنف سخن ہے جس کے
عنوان شہنشاہ کو نین صل اﷲ علیہ و سلم ہیں۔ یہی اس کی اصل پہچان ہے۔ اسی
لئے نعت کے لئے کوئی فارم متعین نہیں۔ مسدس، مثنوی، غزل، رباعی، ہائیکو یا
تکونی جس شکل میں چاہے نیاز مند اپنے دل کا نذرانہ بارگاہ مصطفےٰ میں پیش
کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کی اصل پہچان قائم رہے۔ یہاں ایک بات بڑی دلچسپ
ہے کہ موضوعی اصناف اپنی خالصیت کی تکمیل بغیر سچائی اور خلوص کے نہیں کر
پاتیں بلکہ ’’حق و خلوص‘‘ کی شدت جتنی زیادہ ہو گی کلام اتنا ہی سچا اور
خالص ہو گا۔ رسول کی تعریف سب ہی کرتے ہیں حجر، شجر، ملائکہ اور جن حتیٰ کہ
اﷲ تبارک وتعالیٰ بھی رسول پر درود بھیجتا ہے اور بندوں کو تلقین وتاکید
کرتا ہے کہ تم بھی میرے محبوب (صلی اﷲ علیہ و سلم) پر دردو بھیجو۔ یعنی نعت
خالص ایمان وعقیدہ کی چیز ہوئی۔ سچی اور خالص نعت کے لئے فنکار کا صاحب
ایمان اور عاشقِ رسول ہونا شرط اوّل قرار پائی۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ
اطاعت کے مقابلے میں ’’حُب رسولؐ ‘‘ اِس صنف سخن کے لئے زیادہ موزوں اور
کار آمد ثابت ہوتا ہے جب تک کمالِ مصطفے ٰ صلی اﷲ علیہ و سلم پر یقین اتنا
مستحکم نہ ہو کہ عقیدہ کے درجے تک پہنچ جائے تب تک نعت کا سچا اور کھر اشعر
وجود میں نہیں آ سکتا۔ عقیدے کی محکمی اور یقین کا مل کی پختگی نعت کی
تاثیر میں شدت اور سچّا حُسن پیدا کر تی ہے۔ مگر یہ بھی ملحوظ رہے کہ عقیدہ
خود ساختہ نہ ہو، قرآن و حدیث اور اسلاف کے اقوال سے کشید کیا ہوا
ہو۔سیدوحیدالقادری عارفؔ کی نعتیہ شاعری جہاں عشق رسول کی روح سے مملو ہے
وہیں قرآن و حدیث سے ماخوذ مضامین، معجزات نبوی، تاریخی واقعات اور اصلاحی
و تبلیغی خیالات بھی اسے تنوع اور رنگارنگی کی کیفیت عطا کرتے ہیں۔ اس پر
مستزادیہ کہ فنی طور پر اُن کی نعتیہ شاعری ایسی بے شمار خوبیوں کی حامل ہے
جن کی تلاش ایک کہنہ مشق اور بڑے شاعر سے کی جا سکتی ہے۔ تشبیہ، استعارہ
تمثیل اور پیکر تراشی کی مثالیں تو بڑی آسانی سے مل سکتی ہیں، اُن کی
شاعری میں وہ تکنیکیں بھی ملتی ہیں جو شعری مہارت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
چھوٹی بحروں کی کاٹ، طویل بحروں کا ترنم، مشکل ردیفوں کا استعمال، ہندی کے
مدھر بولوں کا کھپانا، نادر مگر خوش رنگ ترکیبیں گڑھنا اور محاوروں سے
برجستگی اور روانی پیدا کرنا وغیرہ، ایسے حربے ہیں جن سے اشعار میں ادب کا
بانکپن اور فکر و فن کی بہار اپنے جلوے بکھیرتی ہے چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
گدازِ عشق کو ہم اجنبی رہنے نہیں دیتے
کہ سازِ دل بجز ذکرِ نبی رہنے نہیں دیتے
شعورِ زیست ملتا ہے فقط ان کے تصدق سے
وہ امت کو بحالِ خفتگی رہنے نہیں دیتے
جدھر اٹھتی ہیں نظریں سیر ہوجاتے ہیں دیوانے
وہ دیوانوں کی اپنے تشنگی رہنے نہیں دیتے
زباں کھلنے سے پہلے وہ عطا کرتے ہیں سائل کو
غلاموں کا کبھی دامن تہی رہنے نہیں دیتے
نہیں ہے کام اب مجھ کو کسی سے
میں وابستہ ہوں دامانِ نبی سے
وہ میرے ہیں میں دیوانہ ہوں اْن کا
یہ کہتا پھر رہا ہوں میں سبھی سے
مری نسبت ہی سرمایہ ہے میرا
یہی پایا ہے میں نے زندگی سے
مئی عشقِ نبی سے مست یوں ہوں
نہ نکلوں عمر بھر اس بے خودی سے
سیدوحیدالقادری عارفؔ کی نعتیہ فکر ستھرا اسلوب بیان رکھتی ہے۔ اُن کے
ذخیرۂ علم میں دین اور ادب، اردو اور فارسی و عربی دونوں کی رونقیں یکجا
ہیں اس لئے اُن کے اسلوب و اظہار میں دونوں کے انعکاسات ملتے ہیں۔ وہ جہاں
عربی و فارسی کے الفاظ اور ترکیبیں استعمال کرتے ہیں وہیں اودھ اور دہلی کی
شستگی سے بھی اُن کا لسانی انسلاک نظر آتا ہے۔ ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ
کے ساتھ عام فہم، رواں اور بول چال کے آسان الفاظ بھی اُن سے مانوس نظر
آتے ہیں۔سیدوحیدالقادری عارفؔ نے صنف نعت میں جدید شعری روایات کو بھی بڑی
خوبی سے برتا ہے۔ رباعی، ہائیکو، تکونی اور آزاد نعتیہ شاعری بھی کی ہے۔
اُن کے اظہار و اسلوب میں جہاں تنوع اور رنگارنگی ہے وہین فنی اظہار میں
شفافیت اور جذبے کی تپش بھی ہے۔ انہوں نے اپنی نعتوں کا خمیر عشق رسول صل
اﷲ علیہ و سلم کی آنچ میں تیار کیا ہے۔ اس لئے اُن کا ہر شعر عشق رسول کے
تاروں سے لپٹا نظر آتا ہے۔ اُن کے یہاں محض الفاظ کی بازی گری نہیں بلکہ
جذبۂ عقیدت کا پر خلوص اظہار ہوتا ہے۔ ذیل کے اشعار پڑھئے
اورسیدوحیدالقادری عارفؔکی نعت گوئی کے محاسن پر سر دھنئے
درِ سرکار پر کچھ اس طرح دیوانے جائیں گے
خرد سے بے تعلق ہوش سے بیگانے جائیں گے
جہاں ہر درد ہر غم کی دوا تقسیم ہوتی ہے
دلِ صد چاک کو اپنے وہاں بہلانے جائیں گے
غلامی ان کے در کی باعثِ صد فخر ہے ہم کو
یہی ہے اصل اپنی ہم اسی سے جانے جائیں گے
مئی حبِ نبی کی اور بڑھ جائے گی سرشاری
جہاں کثرت ہے اس مئی کی اسی میخانے جائیں گے
کمالِ بے خودی میں بھی ادب ملحوظ رکھنا ہے
وگرنہ زندگی کے سب عمل مٹوانے جائیں گے
سکونِ قلب آتا ہے میسر ان کی چوکھٹ پر
مقدر میں لکھی سب الجھنیں سلجھانے جائیں گے
اسی در سے ہمیں ملجائے گا بخشش کا پروانہ
بط و نسبت کے تقاضوں کو نبھانے آئے
ہم ترے در پہ جبیں اپنی جھکانے آئے
خوابِ غفلت میں کٹی عمرِ گذشتہ ساری
اب مگر ہوش میں آنے کے زمانے آئے
ہم نے شہرت جو سنی تیری مسیحائی کی
یاد سب زخم نئے اور پرانے آئے
نہیں کہنا تھا کسی سے نہ کہا تھا ہم نے
وہ جو سنتا ہے اسے اپنی سنانے آئے
رضائے رب رضائے مصطفیٰ سے پانے جائیں گے
نبی کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہیں دنیا میں
اسی نسبت سے محشر میں بھی ہم پہچانے جائیں گے
کھنچے جائیں نہ کیوں سوئے مدینہ بار بار عارفؔ
جہاں پر شمع ہوگی اس جگہ پروانے جائیں گے
اس قسم کے بیشتر اشعار قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کیونکہ نعتیہ شاعری
میں یہ نیا لب و لہجہ اُنہیں متحیر کرتا ہے اور سیدوحیدالقادری عارفؔ کو
معاصر نعتیہ ادب کے سب سے منفرد ممتاز اور نمایاں شاعر کی حیثیت سے متعارف
کراتا ہے۔
سیدوحیدالقادری عارفؔ کا تاریخی شعور بہت پختہ ہے۔ اسلامی تاریخ اور انسانی
اقدار کی خوشبو اُن کی نظموں کو نئی روشنی اور نئے رنگ آہنگ سے معطر کرتی
ہے۔ اُنہوں نے تلمیحاتی انداز میں تاریخی واقعات کی طرف اشارہ ہی نہیں کیا،
بلکہ تاریخ کے کسی واقعے یا واردات کو قصے کے پیرائے میں نقل کر دیا ہے
تاکہ وہ واقعہ نہ صرف قاری کو مطلع کرے بلکہ اُس کے ذہن و دل پر اپنے اثرات
بھی قائم کرے۔
سیدوحیدالقادری عارفؔ کے اسلوب، لہجے اور موضوعات کی انفرادیت کا یہ عالم
ہے کہ اُن کی شاعری سب سے الگ پہچانی جاتی ہے۔ نعتوں کے مجموعوں سے قطع نظر
صرف چندنعتیں‘‘ پڑھ جائیے، یہ حقیقت پہلی نظر میں سامنے آئے گی کہ ایک
زندہ توانا اور متحرک شاعر جس کی قوت متخیلہ نامیاتی، زرخیز اور کائنات گرد
ہے ان کا خالق ہے۔ سیدوحیدالقادری عارفؔ ؔ خوشبو، خوب صورتی اور روشنی کے
متلاشی ایک بے چین و بے قرار شاعر ہیں۔ یہ بے چینی اور بے قراری شاید اس
لئے ہے کہ متعفن فضا نے خوشبو وں کو جلاوطن کر دیا ہے۔ بدصورت کرداروں نے
خوب صورتی کو کال کو ٹھری میں بند کر رکھا ہے تاریکی نے روشنی کو مقفل کر
دیا ہے۔ شاعر بے چین اور بے قرار ہے۔ خوشبو، خوبصورتی، روشنی اور رنگ و
آہنگ کے متلاشی سیدوحیدالقادری عارفؔ کے غموں، تنہائیوں، اشکوں، ویرانیوں،
جدائیوں، دہشتوں اور تمناؤں کے معانی اسی تناظر میں تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
بہتر دنیا، بہتر ماحول اوربہتر زندگی کی جستجو سیدوحیدالقادری عارفؔ کے
آؤٹ لک کا خصوصی خاصہ ہے۔ |