وقت اور حالات کے اثرات اشعار کے
معنی اور مفہوم پر بھی ہوتے ہیں ۔ اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت مرحوم شہر
یار کئی چیدہ چیدہ اشعار پر ان کی موت کا اثر ہے مثلاً آج جب ہم ان کی
مشہور غزل ‘‘عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو’’ کے یہ ا شعار پڑھتے ہیں تو
ایسا محسوس ہوتا ہے گویا انہوں نے بعد از مرگ کیفیات کا اظہار اپنے عرصۂ
حیات میں کر دیا تھا
ہر ایک نقش تمنا کا ہو گیا دھندلا
ہر ایک زخم میرے دل کا بھر گیا یارو
بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرقِ آب ہوئی
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا یارو
ان اشعار کو اب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے گویا غزل کے مطلع میں شاعر کا
اپنا سایہ جس سے وہ رات ڈر گیا تھا ملک الموت تھا ۔اور پھر ایک ایسا عجیب
سانحہ رونما ہوگیا جس نے تمام نقشِ تمنا کو دھندلا کر دیا اور شاعرِ سرمست
کو ایک ایسی سکون کی نیند سلا گیا جس نے دل کے تمام زخموں کو یکسر بھر دیا
۔اس سانحے کے سبب دربدر بھٹکتی زندگی موت کے دریا میں ہمیشہ کیلئے غرقاب ہو
گئی ۔ شھر یار نامی صدفِ گہر مایہ کو اپنے سینے میں چھپالینے کے بعد قضائے
گیتی کابیکل دریا پرسکون ہو گیا ۔
پروفیسر شہر یار جن کا اصل نام کنور اخلاق محمد خاں ہے 16جون 1936کوبریلی
ضلعے کے ایک گاؤں آنولہ میں بسے راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے، غالب کی
مانند آپ کا خاندانی پیشہ تو سپہ گری تھا مگر شہر یار نے شعرو سخن کی دنیا
میں یاوری کا فیصلہ کیا ۔یہ ایک اور حسنِ اتفاق ہے کہ ۱۹۶۹ میں شہر یار نے
جو ادبی ماہنامہ جاری کیا اس کا نام بھی غالب ہی تھا ۔ بی اے اور ایم اے
علی گڑھ سے کرنے کے بعد 1966 میں وہیں اردو کے لکچرر بن گئے اور 1996 میں
وہ پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ۔ ان کی چھ کتابیں
منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اسم اعظم، ساتواں در، خواب کا در بند ہے،ہجر کے
موسم، اور نیند کی کرچیں کے علاوہ’کلیاتِ شہریار‘ بھی شائع ہو چکی ہے جس
میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔‘خواب کا در بند ہے ’کے لیے ان کو 1987 میں
ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازہ گیا اور ۲۰۰۸ انہیں گیان پیٹھ ایوارڈ سے
سرفراز کیا گیا ۔ شہر یار سے قبل اردو دنیا سے متعلق صرف تین ہستیاں فراق
گورکھپوری، سردار جعفری اور قراةالعین حیدر کے حصے میں یہ اعزاز آیا ہے۔
جدید شاعری کے روحِ رواں پروفیسر کنور اخلاق محمد خان شہریار کا انتقال
طویل علالت کے بعد 74سال کی عمر میں ہوا۔ان کےپسماندگان میں بیوی، دو بیٹے
اور ایک بیٹی ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل اول الذکر غزل ‘‘عجیب سانحہ’’ کے آخری شعر میں اٹھائے
گئے سوالات کے جواب میں پیش کی گئی ہے جس میں شہریار اپنے منفرد انداز میں
کچھ یوں رقمطراز ہیں کہ
وہ کون تھا ، وہ کہاں کا تھا ،کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
شہر یار کی اپنی شخصیت کی مانند یہ ایک ایسا صدا بہار شعر ہے جس کا آج
کبھی کل میں نہیں بدلتا اور اسے پڑھنے کے بعد بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے
گویا شہر یار نے اپنا یہ مرثیہ بعد از موت ازخود لکھ کر روانہ کر دیا
ہو۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اشعار سے یہ تاثر شاعر کے عرصۂ حیات کے
دوران کبھی نہیں ملا کہ اس کی خاطر وادیٔ اجل کا بلاوہ لازم تھا ۔ شہر یار
کو پتہ تھا کہ یہ حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک زندگی کے خواب
کاموت کی حقیقت سے تصادم نہ ہو جائے اور ایک بے نام منزل کی جانب سے فیصلہ
کن بلاوہ نہ آجائے ۔شہر یار نے نہایت لطیف انداز میں یہ حقیقت بھی بیا ن
کر دی
پھر کہیں خواب و حقیقت کا تصادم ہوگا
پھر کوئی منزلِ بے نام بلاتی ہے ہمیں
جس منزل سے بلاوے آتے ہیں اس کو شاعر کوئی نام تو نہیں دیتا مگر اس کے
متعلق تمام تر ابہام کے باوجود وہ اس سے نہ حیران ہے اور نہ پریشان بلکہ اس
کا منتظر ہے جس اعتراف اس انداز میں ہوتا ہے کہ
نہ جس کی شکل ہے کوئی،نہ جس کا نام ہے کوئی
اک ایسی شہ کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے
شاعر کے نزدیک یہ انتظار کا عمل یکطرفہ نہیں ہے بلکہ بلانے والا بھی حیاتِ
دنیا کی مہین سی چلمن کے پرے بلائے جانے والے سے وصال کپلئے کوشاں و بیقرار
ہے ۔ اس خیال کا اظہار شعر کے جامے میں کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ
بلا رہا ہے کیا کوئی ، چلمنوں کے اس طرف
مرے لئے بھی کیا کوئی اداس و بیقرار ہے
حیات وممات کیلئے حساب و کتاب کی بندش لازم و ملزوم ہے اور وہ ایک ایسا
مرحلہ ہے کہ جس کے حوالے سے بیجا خود اعتمادی کا شکار کوئی ہوشمند فردِ بشر
نہیں ہوسکتابلکہ اس کاتصورِخیال ہی نسیانِ مجسم حضرتِ انسان کو شرمسار کر
دینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ اخروی میزانِ عمل کا کیا کہنا کہ اس میں سےنہ ذرہ
برابر نیکی کےچھوٹ جانے کا کوئی امکان ہے اور نہ ذرہ برابر بدی کے ندارد
ہونے کا۔ اسی کیفیت کا اعتراف شہر یارکے اس شعر میں نظر آتا ہے
تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی
یہ میرا دل کہے تو کیا یہ خود سے شرمسار ہے
عاقبت میں ہونے والی شرمساری کا احساس اگر کسی شخص کوہو جائے تو اس کا دل
پکار اٹھتا ہے ؎
اس نتیجے پہ پہونچتے ہیں سبھی آخر میں
حا صلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے
اردو زبان کے چند شعراء کو اپنے دور کی نمائندگی کا شرف حاصل ہوا مثلاً
میر، غالب ،اقبال اور فیض نہ صرف اپنی ذات بلکہ اپنی نسل کے ترجمان ہیں
۔ترقی پسند تحریک کے بعد ناصر کاظمی، خلیل الرحمٰن اعظمی اور انشا نے میرکے
لب ولہجے میں غمِ روزگار اور شکستِ ذات کی ترسیل کو آفاقی مسائل کے اظہار
کا ذریعہ بنایا ۔ جدید شاعری کے حوالے سےظفر اقبال، بانی اور شہریار ن اسی
راہ پر گامزن رہے اور جدید غزل کی علامت بن گئے ۔مثلاً شہر یار کایہ شعر؎
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
اس جدید اسلوب کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مسائل کے وجود اور ان کے پسِ پردہ
عوامل کی موجودگی کو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ان کا حل شاعر ازخود تجویز
نہیں کرتا بلکہ یہ ذمہ داری قاری پر ڈال دیتا ہے کہ وہ خود حل تلاش کرے ۔اس
طریقۂ کار کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ قاری سب سے پہلے شاعر کے الفاظ میں
اپنے کرب کو محسوس کر کے اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور ان اشعار کو اپنے دل
کی آواز سمجھ کر ان سے محظوظ ہوتا ہے نیز چونکہ اسے اپنے سوالات کا کوئی
بنا بنایا جواب نہیں ملتا وہ خوداپنی سعی و جدو جہد سے ان تک رسائی حاصل
کرتا ہے ۔اس دوران اس کے قلب کی بے یقینی یکسوئی میں بدل جاتی ہے اور اس کا
اپنا تلاش کردہ حل بعینہ شاعر کی رائے کے مطابق بھی ہو تب بھی وہ اس کی
اپنی دریافت ہوتی ہے اور وہ اس پربڑے شرح ِ صدر کے ساتھ عملدرآمد کرتا ہے
۔ اس اسلوبِ بیان کی ایک مثال شہر یا ر کی مشہور غزل کا یہ شعرہے
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے ؟
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟
اس غزل کا ہر شعر کسی نہ کسی انفرادی یا اجتماعی مسئلے کا ترجمان ہے ۔ اس
میں اختیار کیا جانے والا استفہامیہ اندازِ سخن یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ ان
خلافِ فطرت مسائل کے پسِ پردہ کچھ وجوہات ضرور ہیں لیکن کون سے عوامل اس
کیلئے ذمہ دار ہیں؟ اور ان سے کس طرح نبٹا جا سکتا ہے؟ اس کا فیصلہ قارئین
پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ انہیں تلاش کریں نیز کسی غیر پر انحصار کرنے کے
بجائے ازخوداپنے مسائل سے نبرد آزما ہوجائیں ؟
نادرِ روزگارگیان پیٹھ اعزاز حاصل کرنے کے بعد تقسیمِ اسناد کی تقریب میں
سامعین سے خطاب کرتے ہوئے شہریار نے جو کچھ کہا وہ ایک فنکار کی حیثیت سے
ان کے نظریۂ حیات کا ترجمان ہے ۔وہ بولے یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایک
ایسی دنیا میں جی رہے اور سانس لے رہے ہیں جہاں سبھی ایک دوسرے کے درد کو
محسوس کرتے اور شریک غم رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے یکساں جذبات محسوس
کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک فنکار کی ذمہ داری اپنے شاہکار سے دنیا کو
خوبصورت اور د لفریب بنانا ہے اور میرا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے۔ میری دعا
ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں یہ فرض تندہی سے انجام دیتا رہوں۔ انہوں نے اس
موقع پر اپنا ہی یہ شعر پڑھا
ایک ہی دھن ہے کہ اس رات کو ڈھلتا دیکھوں
اپنی ان آنکھوں سے سورج کو نکلتا دیکھوں
صبح نو کی دید کی دھن میں زندگی بسر کرنے والا شہر یار اپنے سورج کو ہوسِ
دنیا کی مضرتوں سے خبردار کرتے ہوئے ایک ایسا شعر کہہ جاتے ہیں جو استعارے
کی عظیم ترین بلندیوں پر سورج سے سرگوشی کرتا نظر آتا ہے
یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے
ایک فنکار کی حیثیت سے شہریار نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی اور زندگی کو
خوبصورت بنانے کی حتی الامکان سعی و کوشش کی لیکن اسی کے ساتھ اس بابت نہ
وہ خود کسی خوش فہمی کا شکار رہے اور نہ اپنے قاری کو کسی دھوکے میں
رکھا۔شہر یار کی اس معرفتِ حافت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ زندگی کی
حقیقتوں حالتِ خواب میں نہیں بلکہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل تھے اور
یہی تلقین وہ اپنے قاری کو بھی کرتے ہیں
جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھو دنیا کو
خوابوں کا کیا ہے ،وہ ہر شب آتے ہیں
شاعر کا ایک کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ حال کی شبِ تاریک میں مستقبل کے حسین
خواب سجائے ملک و قوم کے اندر سے حزن و یاس کا خاتمہ کر کے اس میں حوصلہ
اور جذبہ عمل پیدا کرے لیکن اسی کے ساتھ اس کی اہم ترین ذمہ داری یہ بھی
ہوتی ہے کہ وہ عوام کو حقیقت پسند بنائے اور انہیں خوابِ خرگوش سے بیدار
کرے اور شہر یار کے کوچ کر جانے سے اس باب میں جو خلاء پیداہو ا ہے اس کا
ترجمان خود انہیں کا یہ شعر ہے
کچھ بھی نہیں جو خواب کی طرح دکھائی دے
کوئی نہیں جو ہم کو جگائے جھنجھوڑ کر
اپنے اسی احساس پر میں اپنی گفتگو ختم کروں گا کہ ہمیں اپنی کم مائیگی کا
نہایت ہی خوبصورت انداز میں احساس دلانے والے دنیائے سخن کا شہریار اب
ہمارے درمیان نہیں ہے اس بے بدل فنکار کا کوئی متبادل بظاہر نہیں آتااور
اس کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائیگی
زندگی جیسی توقع تھی نہیں ، کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس ،کہیں کچھ کم ہے |